ڈیم کے سوکھنے پر 3400 سال پرانے شہر کے کھنڈرات دریافت

ہمارے سیارے پر موسمیاتی تبدیلی کی سخت گرفت ہزاروں سالوں سے دفن رازوں کو افشا کر رہی ہے۔
جیسے جیسے پانی اور برف گلوبل وارمنگ کی وجہ سے کم ہو رہی ہے، ہزاروں سال پہلے فنا ہوچکے لوگوں اور تہذیبوں کے آثار ابھرتے جارہے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں عراق گرم موسم سے خاص طور پر سخت متاثر ہوا ہے۔ شدید خشک سالی کی وجہ سے موصل کے آبی ذخائر سکڑ رہے ہیں کیونکہ فصلوں کو خشک ہونے سے بچانے کے لیے پانی نکالا جاتا ہے۔
اس بحران کے درمیان کئی دہائیوں سے زیر آب ایک قدیم شہر کے کھنڈرات ایک بار پھر خشک زمین پر نمودار ہوچکے ہیں۔
یہ ڈیم 1980 کی دہائی میں نمودار ہوانے والی اس بستی کے آثار قدیمہ کے مطالعہ اور فہرست سازی سے پہلے بنایا گیا تھا، اس لیے اس کا دوبارہ ابھرنا سائنس دانوں کے لیے اسے دریافت کرنے کا ایک نادر موقع ہے۔ آثار قدیمہ کی جگہ کا نام کیمیون (Kemune) رکھا گیا ہے۔
یہ کھنڈرات ایک محل اور کئی دوسرے بڑے ڈھانچوں پر مشتمل ہیں، جو اس خطے میں تقریباً 3,400 سال پہلے کے کانسی کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ کھنڈرات قدیم شہر زخیکو ہو سکتے ہیں، جو کہ 1550 اور 1350 قبل مسیح کے درمیان دریائے دجلہ کے کنارے پر پروان چڑھنے والی مٹانی سلطنت کے لیے ہلچل کا ایک مرکز تھا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ شہر کھوئے ہوئے اٹلانٹس کی طرح پانیوں سے اوپر آیا ہو۔ 2018 میں، ڈیم کا پانی کافی کم ہو گیا تھا جس سے ماہرین آثار قدیمہ کو کھنڈرات کو دریافت کرنے اور دستاویز کرنے کے لیے ایک مختصر جھلک فراہم ہوئی، اس سے پہلے کہ پانی کی سطح بلند ہو جائے اور یہ دوبارہ ڈھانپ دئے جائیں۔
چنانچہ، دسمبر 2021 میں، جب شہر ایک بار پھر ابھرنا شروع ہوا، ماہرین آثار قدیمہ اس میں کودنے اور دوسرے موقع فائدہ اٹھانے کے لیے تیار تھے۔
اس سال جنوری اور فروری میں، عراق میں کردستان آرکیالوجی آرگنائزیشن کے ماہر آثار قدیمہ حسن احمد قاسم، یونیورسٹی آف فریبرگ کی ساتھی محقق ایوانا پلجز اور جرمنی کی یونیورسٹی آف ٹوبینگن سے پیٹر فلزنر کے ساتھ، پراسرار شہر کی نقشہ سازی کے لیے تیار ہوئے۔
2018 میں سامنے آنے والے محل کے علاوہ، محققین کو کچھ اور دلچسپ ڈھانچے بھی ملے۔ ان میں دیوار اور میناروں کے ساتھ ایک بڑی قلعہ بندی، ایک صنعتی کمپلیکس، اور ایک بہت بڑی، کثیر منزلہ اسٹوریج بلڈنگ شامل تھی، یہ سب کچھ مٹانی سلطنت سے تعلق رکھتا تھا۔
پلجز کا کہنا ہے کہ “بڑے میگزین (اسٹوریج) کی عمارت خاص اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس میں بہت زیادہ سامان ذخیرہ کیا گیا ہوگا، جو شاید پورے خطے سے لایا گیا ہو۔”
مٹی کی اینٹوں کی دیواروں کا حیران کن حد تک محفوظ رہنا اس لحاظ سے قابل ذکر تھا کہ وہ 40 سال سے زیادہ عرصے سے پانی کے اندر تھیں۔
1350 قبل مسیح میں ایک زلزلے نے علاقے میں تباہی مچائی، عمارتیں گر گئیں، جس کے نتیجے میں باقی محفوظ دیواروں پر ملبے کی حفاظتی تہہ بن گئی، جس نے ان پینٹ شدہ دیواروں اور عمارتوں کے مواد کو ڈھانپ دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شہر سے کچھ سیرامک کے برتن بھی برآمد کیے گئے جن میں 100 سے زیادہ مٹی کی تختیاں تھیں جن پر کینیفارم درج تھی، جو مشرقِ آشور کے دور سے ملتی ہیں۔
ٹیم کو امید ہے کہ ان ریکارڈز میں اس شہر میں رہنے والوں کے بارے میں کچھ معلومات ہو سکتی ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ اس زلزلے کے بارے میں بھی جو اس تباہی کا باعث بنا ہو۔
فلزنر کہتے ہیں کہ، “یہ ایک معجزہ ہے کہ مٹی سے بنی کینیفارم کی یہ تختیاں پانی کے اندر کئی دہائیوں تک بنا خراب ہوئے رہیں۔”
ڈیم کو اب دوبارہ بھر دیا گیا ہے، جس سے شہر ایک بار پھر ڈوب گیا ہے، لیکن اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں کہ اسے مستقبل میں کھدائی کے لیے محفوظ رکھا جائے گا۔
کھنڈرات کو پلاسٹک کے غلافوں کے نیچے سیل کر دیا گیا ہے جو آنے والے سالوں میں مستقبل کے کٹاؤ اور انحطاط کو روکیں گے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News

