آرٹیکل 63 اے؛ انحراف سے بہتر ہے ضمیر کی آواز پر استعفی دیا جائے، سپریم کورٹ

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کے ضمیر کا معاملہ ہے تو استعفی دے۔ انحراف سے بہتر ہے ضمیر کی آواز پر استعفی دیا جائے۔
آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پرسپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا مقصد ارکان کو انحراف سے روکنا ہے۔ ارکان کو انحراف سے روکنے کے لیے آئین میں ترمیم بھی کی گئی۔
اظہرصدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ 16 اپریل کو پی ٹی آئی کے ارکان نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی۔ منحرف ارکان نے پارٹی پالیسی کے برعکس حمزہ شہباز کو ووٹ دیا۔ منحرف ارکان کیخلاف ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التواء ہے۔
ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے پانچ مئی کے اخبارمیں شائع آرٹیکل کا حوالہ دیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ آرٹیکل کس نے لکھا؟
اظہر صدیق نے جواب دیا کہ آرٹیکل پانچ مئی کو شائع ہوا، رائٹر کا نام بتا دوں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں نااہلی ریفرنس پر رائے نہیں دے سکتے۔ منحرف ارکان کا معاملہ الیکشن کمیشن میں زیرالتواء ہے۔
وکیل ق لیگ نے کہا کہ میرا مقدمہ نااہلی ریفرنس نہیں ہے۔ میرا مقدمہ یہ یے کہ دن کی روشنی میں پارٹی کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا۔
جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے کہا کہ اس معاملے کا جائزہ الیکشن کمیشن نے لینا ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف اپیل سپریم کورٹ ہی آئے گی۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ کی پارٹی کے کچھ لوگ ادھرکچھ اُدھرہیں۔ ق لیگ کے سربراہ خاموش ہیں۔ ایک بلوچستان کی پارٹی ہے ان کے لوگوں کا پتا نہیں وہ کدھر ہیں۔ آدھی پارٹی ادھر ہے آدھی پارٹی اُدھرہے۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ جس کی چوری ہوتی یے اس کو معلوم ہوتا ہے۔ ان پارٹیوں کے سربراہ ابھی تک مکمل خاموش ہیں۔
اظہرصدیق نے کہا کہ انڈیا میں منحرف ارکان کے لیے ڈی سیٹ نہیں بلکہ نااہلی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ انڈیا کے 10 شیڈول میں منحرف رکن کی نااہلی کی معیاد کتنی ہے؟ یہ کیوں کہتے ہیں کہ سیاستدان چورہیں؟ جب تک تحقیقات نہیں کی جاتیں تو ایسے بیان کیوں دیتے ہیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اٹھائیس مارچ کو عدم اعتماد پر قرارداد منظورہوئی۔ اکتیس مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی۔ یہ سوال پوچھنا چاہیے تھا کہ عدم اعتماد کیوں لائی گئی۔ اکتیس مارچ کو ارکان نے عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ہم نے آئین کا تحفظ کرنا ہے۔ اس لیے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کا ریفرینس سن رہے ہیں۔ منحرف ارکان سے متعلق آرٹیکل تریسٹھ اے کا کوئی مقصد ہے۔
عدالت نے کہا کہ آئینی ترامیم کے ذریعے تریسٹھ اے کو لایا گیا۔ کسی رکن پر تاحیات پابندی لگانا بہت بڑی سزا ہے۔ آرٹیکل 62(1) ایف کے اطلاق کی بھی بڑی شرائط ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا آرٹیکل 63 اے کے ساتھ آرٹیکل 62(1) ایف کو پڑھ سکتے ہیں؟ انحراف ایک بہت بڑا ناسور ہے۔ ملک کی ترقی کے لیے مستحکم حکومت کی ضرورت ہے۔ 1970 سے جو میوزیکل چیئر چل رہی ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔
وکیل ق لیگ نے کہا کہ میری نظرمیں قانون غیرمؤثر ہے۔ ابھی بھی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے۔ کس کو غلط اقدام کا اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ قانون کے اندرعدالت کوئی تبدیلی نہیں کرسکتی۔
جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ انحراف کی ایک سزا ڈی سیٹ ہونا ہے۔ ڈی سیٹ کے ساتھ دوسری سزا کیا ہو سکتی ہے۔ آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی معیاد کا ذکر نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کو کسی دوسرے آرٹیکل کے ساتھ ملا سکتے ہیں؟ ڈی سیٹ ہونا آئینی نتیجہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ منحرف کو نااہل کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا، کیا نااہلی کے لیے ٹرائل ہوگا۔ اگر رشوت کا الزام لگایا ہے تو اس کے شواہد کیا ہوں گے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ انحراف بہ ذات حود ایک آئینی جرم ہے۔ مخرف ارکان کے لیے ڈی سیٹ ہونا سزا نہیں ہے۔
ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق کے دلائل ختم ہونے کے بعد اٹارنی جنرل اشتراوصاف کمرہ عدالت میں پہنچے۔
وکلا تنظیموں پاکستان بارکونسل اور سپریم کورٹ بارکے وکیل منصوراعوان نے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کے تحت منحف رکن کا ووٹ شمارہوگا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ منحرف رکن کی نااہلی کی معیاد کیا ہوگی؟
وکیل منصوراعوان نے کہا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے منحرف رکن کو ڈی سیٹ کرتا ہے۔ قانون سازوں نے منحرف رکن کے لیے نااہلی کی معیاد نہیں رکھی۔
جسٹس منیب اختر بولے کہ رضا ربانی نے فوجی عدالتوں پراعتراض کیا۔ اعتراض کرنے کے باوجود رضا ربانی نے ووٹ فوجی عدالتوں کے حق میں دیا۔ رضا ربانی نے ضمیر کی آواز کے باوجود ووٹ پارٹی کو دیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن نے پارٹی پالیسی سے انحراف کیا اور وہ ڈی سیٹ ہوئے۔ آج وہ سیاسی شخصیت سنیٹر ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے وکلا تنظیموں کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا تاریخ میں کسی رکن کے ضمیر کے مطابق انحراف کرنے کا کوئی ڈاکومنٹ ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں انحراف کرنا ٹھیک ہے، آئین میں انحراف کو غلط کہا گیا ہے۔
وکیل منصوراعوان نے کہا کہ ضمیر کی آواز پر جو انحراف کرے اس کی سزا ڈی سیٹ ہونا ٹھیک ہے۔ جس نے پیسے لے کرانحراف کیا اس کی سزا سخت ہونی چاہیے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر کسی کے ضمیر کا معاملہ ہے تو استعفی دے۔ ضمیر کی بات ہے تو انحراف نہ کریں۔ انحراف سے بہتر ہے ضمیر کی آواز پر استعفی دیا جائے۔
جسٹس منیب اخترنے کہا کہ انحراف کرنے والوں کیلئے عوام سخت لفظ استعمال کرتے ہیں۔ وہ لفظ میں استعمال نہیں کروں گا۔ منحرف ارکان ہوٹلوں میں جاتے ہیں تو عوام آوازیں کستے ہیں۔
وکلا تنظیموں کے وکیل نے کہا کہ منحرف اراکین نے آخرکارعوام میں جا کران کا سامنا کرنا ہے۔ آئین ضمیر کے مطابق ارکان کو ووٹ کا حق دیتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی نظام حکومت میں سیاسی جماعتوں کا ڈسپلن ضروری ہوتا۔ اگر آپ کی دلیل تسلیم کر لیں تو سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہوں گی۔ اس طرح سارا نظام تباہ ہو جائے گا۔ پارٹی ڈسپلن نہیں ہوگا تو سیاسی جماعت میں انتشارہوگا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 17 (2) کے تحت سیاسی جماعتوں کے حقوق ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے حقوق کا آرٹیکل 17 اور 63 اے کی موجودگی میں رابطہ کہاں منقطع ہو جاتا ہے۔
منصوراعوان نے کہا کہ اگر پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو جماعت اپنی سیٹ واپس لے سکتی ہے۔
وکلا تنظیموں کی جانب سے وکیل منصوراعوان کے دلائل ختم ہونے کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 1973 کے آئین میں قانون سازسسٹم کو مستحکم کرنا چاہتے تھے۔ 1985 میں آرٹیکل 96 کو ختم کردیا گیا۔ 1985 کے انتخابات غیرجماعتی بنیاد پر کرائے گئے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 1989 میں قراردیا کہ انتخابات جماعتی بنیادوں پرہوں۔ سپریم کورٹ نے قراردیا کہ سیاسی جماعتوں کے حقوق ہیں۔ اس کے بعد آرٹیکل 63 اے کو آئین میں شامل کیا گیا۔
عالت نے کہا کہ کیا آرٹیکل 63 اے کو محض ایک رسمی آرٹیکل سمجھ لیں۔ کیا آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق سے بھی منسلک ہے۔ کیا آرٹیکل 63 اے کو محض شوپیس آرٹیکل سمجھ لیں۔ کیا آرٹیکل 63 اے کا کوئی اثر بھی ہونا چاہئے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آئین آزادی اظہاررائے کا حق بھی دیتا ہے۔ یہاں کہا جا رہا منحرف رکن کی سزا بڑھا دیں۔
سپریم کورٹ نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے وکیل کو تحریری گزارشات جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجربنچ نے کیس کی سماعت کی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News

