پاکستان میں پیٹرول کی پیداوار اور قیمتوں کا تعین کیسے ہوتا ہے؟
شہباز حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں ایسا اضافہ کیا ہے کہ پچھلے تمام ریکارڈز توڑ کر رکھ دئیے ہیں، ایک ہفتے کے دوران پیٹرول کی قیمت میں 60 روپے اضافہ کیا گیا۔ جس کے بعد اب پیٹرول کی قیمت 209.86 روپے فی لیٹر پر پہنچ چکی ہے۔
امکان یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ اس لئے اب ضروری ہے کہ عوام پیٹرولیم انڈسٹری کے اہم پہلوؤں کو سمجھیں اور تاکہ جان سکیں کہ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجوہات کیا ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں دریافت شدہ تیل کے ذخائر 1700 ارب بیرل کے آس پاس ہیں۔ اس میں سے اوپیک ممالک کے پاس اس خام تیل کے 70 فیصد ذخائر موجود ہیں۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی اس تنظیم میں سعودی عرب اور قطر سمیت پندرہ مزید ممالک شامل ہیں۔
عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کا تعین کرنے میں اوپیک کا اہم کردار ہے، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اوپیک کی تیل کی قیمتوں پر اجارہ داری قائم ہے۔ تنظیم کے رکن ممالک اگر پیداوار کم کردیں تو عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔
2021 میں روزانہ کی بنیاد پر دنیا بھر میں 96 ملین بیرل تیل استعمال کیا گیا اور ماہرین کے مطابق 2022 میں روزانہ 98.3 ملین بیرل تیل روزانہ استعمال ہورہا ہے۔
عالمی مارکیٹ سے تیل خریدنے کے لیے کئی بینچ مارکس ہیں لیکن میں سب سے اہم دو ہیں، ایک ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (ڈبلیو ٹی آئی)، اور دوسرا ہے برینٹ۔
ڈبلیو ٹی آئی کے خام تیل میں اے پی آئی گریویٹی زیادہ ہوتی ہے، اے پی آئی گرویٹی تیل کی نوعیت کو کہتے ہیں کہ یہ کتنا ہلکا ہے، اگر اسے پانی میں ملایا جائے تو اس کی کتنی مقدار پانی پر تیرے گی۔
برینٹ میں سلفر زیادہ ہوتا ہے، اور جس خام تیل میں زیادہ سلفر ہو اس میں سے پیٹرول نکالنے میں زیادہ وقت اور پیسہ خرچ ہوتا ہے۔
اسی لیے ڈبلیو ٹی آئی برینٹ کی نسبت تھوڑا بہتر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن برینٹ کیونکہ کچھ سستا ہے اسی لیے یہ پوری دنیا میں چلتا ہے۔
پاکستان اور بھارت میں بھی برینٹ آئل ہی استعمال ہوتا ہے،انٹرنیشنل مارکیٹ میں بھی کروڈ آئل بیرل (159 لیٹر) کے حساب سے ملتا ہے۔
خام تیل کو ریفائنریز میں لاکر اس میں سے پیٹرول، ڈیزل اور فرنس آئل سمیت دیگر مصنوعات نکالی جاتی ہیں۔
پاکستان میں پانچ بڑی ریفائنریز ہیں جن میں بائیکو پیٹرولیم اور پاک ارب ریفائنری (پارکو) ہیں جو پاکستان کے 50 فیصد خام تیل کو پروسیس کرتی ہیں۔
دیگر بڑی ریفائنریز میں اٹک ریفائنری لیمیٹڈ، نیشنل ریفائنری لیمیٹڈ اور پاکستان ریفائنری لیمیٹڈ شامل ہیں۔
یہ پانچ ریفائنریز سالانہ 19.4 ملین ٹن خام تیل کو پروسیس کر سکتی ہیں، لیکن 2021 کے مالی سال کے دوران ان کی آؤٹ پٹ صرف 11.6 ملین ٹن رہی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے 2021 میں اپنی صلاحیت کا 60 فیصد تیل پروسیس کیا اور بقیہ 40 فیصد ریفائنڈ آئل ہمیں باہر سے خریدنا پڑا۔
اکتوبر 2018 میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان گوادر یں ایک آئل ریفائنری قائم کرنے کا معاہدہ ہوا، لیکن اس پر ابھی تک عمل شروع نہیں ہوسکا۔
پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) اپنی درآمدات ٹینڈرز کے زریعے کرتا ہے، جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کویت پیٹرولیم کارپوریشن سے خریدا جاتا ہے جن کے ساتھ ایک طویل المدتی معاہدہ کیا گیا تھا۔
اس معاہدے کو ہر دو سال بعد رینیو کیا جاتا ہے، اب ان دونوں کی قیمتوں کا اگر آپ اوسط نکالیں تو کنزیومر پرائس متعین کی جاتی ہے۔
مارچ 2022 میں اوسط نکالنے کے فارمولے کو تبدیل کیا گیا، جس کی منظوری ای سی سی نے دی۔
پاکستان میں تیل کی قیمتوں کا بریک اپ کچھ اس طرح سے ہے،
آئل ریفئانریز خام مال خریدتی ہیں اور اسے ریفائن کرکے آئل مارکیٹنگ کمنیوں کو فروخت کرتی ہیں، ان کمپنیوں میں پی ایس اور، شیل پاکستان لیمیڈٹد ، ہیسکول پیٹرولیم لیمیٹڈ سمیت کئی کمپنیاں شامل ہیں۔
اس ریفائنڈ تیل کی قیمتوں کا تعین ریفائنریز یا آئل مارکیٹنگ کمپنیاں نہیں کرتیں، بلکہ اوگرا ایک فارمولے کے تحت کرتی ہے۔ اس فارمولے میں 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس، پیٹرولیم ڈیولیمنٹ لیوی، ڈیلر مارجن اور آئل مارکیٹنگ کمپنی مارجن سمیت کئی آئٹمز شامل ہوتے ہیں۔
وزیراعظم کو اوگرا کی سمری میں تبدیلی یا مسترد کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں تیل کی قیمتوں میں فرق کیوں ہوتا ہے؟ اس کا انحصار کسی بھی ملک کی اپنی تیل کی پیداوار پر ہوتا ہے۔
پاکستان اپنی ضرورت کا 15 سے 20 فیصد تیل خود پیدا کرتا ہے، باقی ہمیں باہر سے خریدنا پڑتا ہے۔ اس کیلئے ہر سال اربوں ڈالراز کا قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں تیل کی مصنوعات پر سیلز اور دیگر ٹیکسز ختم کر دئیے تھے، پیٹرول کی قیمت میں 10 روپے کمی کردی گئی تھی۔ موجودہ حکومت نے بھی اس کو برقرار رکھا لیکن اس کی بھاری قیمت ملکی معیشت کو ادا کرنی پڑی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق مئی کے پہلے 15 دنوں میں پاکستان کو آئل کمپنیوں کو 40 ارب روپے ادا کرنے پڑے۔ مارچ سے لے کر مئی تک آئل کمپیز کو 200 ارب روپے ادا کئے گئے۔
یعنی حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی بھی عوام پر بوجھ بن رہی ہے، کیونکہ عوام سے لئے گئے دیگر ٹیکسز سے آئل کمپنیوں کو ادائیگیاں کی گئیں۔
وہ ممالک جو اپنا تیل امپورٹ کرتے ہیں ان کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور مہنگائی آسمان چھو رہی ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News

