فواد چوہدری کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور، پیر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم

فواد چوہدری کیس کا فیصلہ 6 بجے سنایا جائے گا
عدالت نے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے پیر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فواد چوہدری کو تھانہ کوہسار کے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے ان کے جسمانی ریمانڈ کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔
بعد ازاں جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص راجہ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فواد چوہدری کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر کو پیر کے روز عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
تفصیلی فیصلہ
فواد چوہدری کے دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور ہونے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا۔ جوڈیشل میجسٹریٹ وقاص احمد راجہ نے 5 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
تحریری فیصلے کے مطابق پراسیکوٹر کی جانب سے فواد چوہدری کے 7 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی جس میں کہا گیا کہ فواد چوہدری کا موبائل لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیوائسز برآمد کرنی ہیں لہذا فواد چوہدری کا فوٹوگرامیڑک ٹیسٹ کروانا ضروری ہے۔
فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے بھی فواد چوہدری کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی، فریقین کے دلائل سننے کے بعد فواد چوہدری کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا جاتا ہے، فواد چوہدری کو 30 جنوری کو دوبارہ عدالت پیش کیا جائے۔
عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ تفتیشی افسر کو میرٹ کی بنیاد پر تفتیش کرنے کا سختی سے حکم دیا جاتا ہے۔
کیس کی سماعت
اس سے قبل اسلام آباد میں جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمد راجہ کی عدالت میں رہنما تحریکِ انصاف فواد چوہدری کے خلاف الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دینے کے کیس سماعت ہوئی۔
فواد چوہدری کی لیگل ٹیم اوراُن کی اہلیہ حبا چوہدری کے علاوہ زلفی بخاری، علی نوازاعوان اورڈی آئی جی آپریشن سہیل اقبال چھٹہ بھی کچہری پہنچ گئے۔
وکیل فواد چوہدری ڈاکٹربابراعوان نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہا میں آپ کے سامنے تمام دلائل پہلے دے چکا ہوں۔
جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمد راجہ نے سوال کیا کہ تفتیشی اورملزم کہاں ہیں؟ دونوں ابھی تک عدالت نہ پہنچ سکے پتا کریں کہ کدھر ہیں؟
ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ سرکدھر ہیں والا نازک سوال ہے۔
سماعت روک دی گئی
فواد چوہدری کو پیش کرنے کے انتظار میں سماعت روک دی گئی، کچھ دیر میں فواد چوہدری کیس کا تفتیشی کمرہ عدالت میں پہنچ گیا۔
علی بخاری ایڈووکیت نے کہا کہ 3 بجے تک کیس کا ریکارڈ ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں پیش نہ کیا گیا، ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی نے ضمانت پر سماعت کرنا تھی۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نے سوال کیا کہ فواد چوہدری کو کیوں نہیں لائے؟ جس پرتفتیشی نے جواب دیا کہ نیچے رش بہت ہے۔ اُس پر ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ نیچے نہیں، اس کے پیچھے بہت رش ہے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نے کہا کہ پراسیکیوشن کے مطابق موبائل فرانزک کے لیے بھیجا جارہا ہے۔ جس پر فیصل چوہدری نے کہا کہ انہوں نے سیشن جج کی عدالت میں کہا کہ ان کے پاس موبائل نہیں ہے۔ انہوں نے عدالت سے جھوٹ بولا۔
ڈاکٹر بابراعوان نے کہا کہ جس اللہ کے یہ ماننے والے ہیں، وہ شاید ان سے حساب نہیں لے گا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمد راجہ نے ایس ایچ او آبپارہ کو روک دیا کہا کہ آپ میری عدالت سے کسی کو مت نکالیں۔ یہ میری عدالت ہے، اس عدالت کو میں نے ریگولیٹ کرنا ہے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نے کہا کہ تحقیقات کیلئے جسمانی ریمانڈ کا مطلب یہ نہیں کہ ملزم پر تشدد ہو، تشدد کا تفتیش سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
فواد چوہدری عدالت میں پیش
بابراعوان نے کہا کہ فواد چوہدری کو وکلاسے بھی نہیں ملنے دیا جاتا جس کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے فواد چوہدری کو پیش کرنے کا حکم دیدیا۔
کچھ دیر میں فواد چوہدری کو کمرہ عدالت میں پہنچا دیا گیا، بابراعوان نے فواد چوہدری کا کمرہ عدالت میں بوسہ لیا۔
وکیل بابراعوان کے دلائل
ڈاکٹربابراعوان نے کہا کہ فواد صحت مند آدمی ہے، اس کو پلیٹ لٹس کا کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، اگر فواد کو کبھی خدانخواستہ علاج کرانا بھی ہوا تو اپنے پیسے پر پاکستان سے ہی کرائے گا، پراسیکیوشن اور حکمران زمین پر خدا بننے کی کوشش نہ کریں۔ ماضی میں پنجاب اسمبلی تحلیل ہوئی تو عدالت نے اسے کالعدم قرار دیا۔
وکیل بابراعوان نے کہا کہ گورنر نے چیف سیکرٹری سے پوچھا کیا میرے اختیارات کم ہوگئے ہیں؟ چیف سیکرٹری کے جواب پر گورنرنے دوبارہ اسمبلی تحلیل کا حکم دیا، جوڈیشل ریمانڈ کا حکم کالعدم ہونے سے عدالت کے اختیارات کم نہیں ہوئے۔ فواد چوہدری کیخلاف مقدمہ آن لائن درج کیا گیا، ایف آئی آر کی نقل سیکرٹری داخلہ، چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو بھیجی گئی۔
وکیل فواد چوہدری نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کا فیض آباد سے آگے کوئی اختیار نہیں ہے، پہلے کبھی کسی مقدمے کی نقل سیکریٹری داخلہ اور کسی دوسرے صوبے کو نہیں بھیجی گئی، اندراج مقدمہ کی درخواست پر مدعی کے دستخط ضروری ہیں، سیکریٹری الیکشن کمیشن کے دستخط کہیں بھی موجود نہیں ہیں، جوڈیشل مجسٹریٹ کے اختیار ہے کہ ملزم کو جوڈیشل بھیجے۔
وکیل بابراعوان نے کہا کہ سیشن جج کو اختیار نہیں کہ مجسٹریٹ کو اُس کے حکم پر نظرثانی کا کہے، جوڈیشل مجسٹریٹ کے پاس اپنے حکم پر نظرثانی کا اختیار نہیں، شہباز گل کیس میں بھی ہائی کورٹ احکامات کے باوجود مجسٹریٹ نے ملزم کو جیل بھیجا۔ ریاستی طاقت کی بنیاد پر گندا کھیل کھیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عدالت جسمانی ریمانڈ کے بجائے جیل بھیجنے کا اپنا حکم برقرار رکھے۔ جس عدالت میں ضمانت کی درخواست مقرر تھی وہاں کوئی پولیس والا پیش نہیں ہوا۔
فواد چوہدری کے وکیل نے کہا کہ سیشن جج طاہر محمود نے جلد بازی میں فیصلہ دیا، سیشن جج نے ہمیں آپس میں مشاورت کا موقع بھی نہیں دیا، جس کی بات لوگوں کو سمجھ آنے لگ جائے وہ مسئلہ بن جاتا ہے۔ سیشن کورٹ کو کسی مجسٹریٹ کو کیس ریمانڈ کرنے کا اختیارنہیں۔ جوڈیشل مجسٹریٹ نے آزادانہ اپنا مائنڈ اپلائی کرنا ہے۔
فواد چوہدری کی قانونی ٹیم سے ملاقات کے لیے درخواست
فواد چوہدری کی قانونی ٹیم نے ایک اور درخواست دائر کردی جس میں مؤقف پیش کیا گیا کہ عدالتی حکم کے باوجود فواد چوہدری کو قانونی ٹیم سے ملنے نہیں دیا جارہا۔ فواد کو ان کی فیملی سے بھی نہیں ملنے دیا جارہا۔ پولیس کو پابند کیا جائے کہ فواد چوہدری سے ملاقات کروائی جائے۔
فواد چوہدری کی قانونی ٹیم نے درخواست جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمد راجہ کی عدالت میں دائرکی۔
پراسیکیوٹرکے دلائل
پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ فواد چوہدری کو لاہورلے کر جانا ہے، کل اتوار ہے، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے جسمانی ریمانڈ دیجئے گا۔ ایف آئی آر کے مطابق سیکریٹری الیکشن کمیشن خود تھانے گئے تھے۔ دستخط درخواست نہیں استغاثہ پر ہوتے ہیں۔ مقدمہ کی کاپی چیف سیکرٹری اور دیگر کو بھیجنا بدنیتی نہیں ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ شہباز گل کیس میں بھی جوڈیشل ریمانڈ کے بعد جسمانی ریمانڈ دیا گیا تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے حکم پر نظرثانی ہوسکتی ہے، فواد چوہدری کا فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ کرانے کیلئے ریمانڈ چاہیے، فواد چوہدری کے گھرکی تلاشی لینے کیساتھ موبائل اور لیپ ٹاپ بھی برآمد کرنا ہے۔
پراسیکیوٹر نے دلائل دیے کہ کل اتوار ہی چھٹی ہوگی لاہور میں فوٹوگرامک ٹیسٹ کیلیے جانا ہے۔ ویڈیو شواہد کیلئے سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ ویڈیو کے فرانزک کیلئے فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ ضروری ہے۔ صرف ملزم کا اعتراف کافی نہیں کہ ویڈیو میں وہی موجود ہے۔
فواد چوہدری کو فیملی سےملاقات کی اجازت
عدالت نے فواد چوہدری کو کمرہ عدالت میں فیملی کے ساتھ 20 منٹ کی ملاقات کی اجازت دے دی۔
ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ فواد چوہدری پرتشدد کیا جائے گا جس پرجوڈیشل مجسٹریٹ نے کہا کہ اگر ایسا کیا گیا تو یہ غیر قانونی ہوگا۔
تفتیشی نے جواب دیا کہ فواد چوہدری پر کپڑا ڈالنے کا حکم میں نے نہیں دیا جس پر فیصل چوہدری نے سوال کیا کہ آپ نے حکم نہیں دیا تو پھر کس نے کیا؟
تفتیشی خاموش، کوئی جواب نہ دیا۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ فواد چوہدری کا موبائل اور سم استعمال ہورہا ہے۔ یہ فواد چوہدری کے موبائل سے کچھ بھی کرکے فواد پر ڈال سکتے ہیں جس کے بعد فواد چوہدری نے سم بند کروانے کے لئے درخواست دائر کردی۔
پولیس فواد چوہدری کو لے کر روانہ ہوگئی۔ جوڈیشل مجسٹریٹ کے حکم کے باوجود فواد چوہدری کے چہرے پر کپڑا ڈال دیا گیا جس پر جوڈیشل مجسٹریٹ وقاص احمد راجہ برہم ہوئے اور تفتیشی کو طلب کر لیا۔
تفتیشی نے جواب دیا کہ میں ابھی یہیں تھا، حفاظتی گارڈز نے کپڑا ڈالا ہے جس پر جوڈیشل مجسٹریٹ نے حکم دیا کہ آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟ جائیں اور فوراً کپڑا ہٹوائیں۔
یہ خبر بھی پڑھیں: فواد چوہدری کے مذید جسمانی ریمانڈ کی درخواست سماعت کیلئے منظور
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News