زہریلی گیس سے اموات؛ تمام ہلاکتوں کا مقدمہ درج کرنے کا حکم

غیرقانونی تعمیرات؛ کے ڈی اے، ایس بی سی اے اور ایس ایس پی ملیر سے جواب طلب
زہریلی گیس سے اموات کے کیس میں دورانِ سماعت چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں سب کا مقدمہ درج ہونا چاہئے۔
تفصیلات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں کیماڑی میں 2020 اور جنوری 2023 میں زہریلی گیس سے ہلاکتوں کے معاملے میں آئی جی سندھ ، ایڈوکیٹ جنرل اور دیگر حکام پیش ہوئے۔
2020 میں ہلاکتوں کا مقدمہ اے کلاس کے تحت ختم کرنے پر دالت نے برہمی کا اظہار کیا تھا، دوران سماعت چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے استفسارکیا کہ حالیہ واقعات میں کتنے افراد ہلاک ہوئے آئی جی صاحب؟
آئی جی سندھ نے جواب دیا کہ مجموعی طورپر18 ہلاکتیں ہوئی ہیں، جس پرعدالت نے پوچھا کہ اگر اٹھارہ ہلاکتیں ہیں تو تمام کا مقدمہ کیوں درج نہیں ہوا؟
آئی جی سندھ نے جواب دیا کہ لوگ شکایت لے کر آتے تو تمام لوگوں کا مقدمہ درج کیا جاتا جس پرعدالت نے کہا کہ یہ تو ایس ایچ او کی ذمہ داری تھی ریاست کی طرف سے مقدمہ درج کرتا اس میں کسی درخواست کا کیوں انتظار کررہا تھا؟
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ ایسے تو لوگ مرتے رہیں گے، کوئی تو ہو دیکھنے والا، تحقیقات کے بغیر کیسے پتا چلے گا کیا ہوا ہے؟ روز انسانی جانیں ضائع ہوتی رہیں گی کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہرمیت کا پوسٹ مارٹم ہونا ضروری ہے، پوسٹ مارٹم کے بغیرمقدمہ ختم کیسے کردیں گے؟ آئی جی صاحب! تفتیش کا یہ معیار ہے، اتنی ہلاکتیں ہوئیں اور ایک پوسٹ مارٹم ہوا ہے؟
جسٹس یوسف علی سعید نے ریمارکس دیے ایک سے زیادہ فوتگی ہوئی ہے اور ایک پوسٹ مارٹم یہ کیسی تفتیش ہے؟
سماعت کے دوران عدالت نے ڈپٹی کمشنرکیماڑی کو جھاڑ پلادی اوربولنے سے روک دیا، کہا کہ آپ کو تو عہدے پر ہی نہیں رہنا چاہیے، آپ کو معلوم ہی نہیں کیا ہوا ہے؟ ایسے کیسز میں ریاست کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جائے۔ متاثرہ فریق نہ بھی آئے تو مقدمہ درج ہونا چاہئے۔
وکیل نے کہا کہ جو فیکٹری سیل کی گئی تھی وہ ڈی سی نے دوبارہ کھول دی ہے جس پر جستس یوسف علی سعید نے کہا کہ مقدمہ درج ہوا ہے تفتیش ہوئی اس کے بعد فائل بند ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
عدالت نے کہا کہ کیس کا تفتیشی ایس ایس پی رینک سے کم آفیسرنہیں ہونا چاہیے۔ آئی جی صاحب! چند سالوں میں یہ دوسرا واقعہ ہے۔
چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں سب کا مقدمہ درج ہونا چاہئے۔
ڈی سی کمیاڑی نے بتایا کہ میرے ضلع کی حدود میں صرف تین ہلاکتیں ہیں، گیس سے موت واقع نہیں ہوئی، ہم لوگوں سے کہہ رہے ہیں قبریں بتائیں کوئی نہیں بتارہا۔
عدالت نے ڈی سی کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا کہ آپ جا کرزمینوں کو سنبھالیں آپ کا یہ کام نہیں ہے کیوں بار بار بول رہے ہیں؟ آئی کی ذمہ دار افسر ہیں وہ اٹھارہ ہلاکتیں کہہ رہے ہیں۔ جو لوگ نااہل انہیں فوری ہٹائیں اور ذمہ دار افسر سے تحقئقات کرائیں۔
عدالت تمام ہلاکتوں کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئی جی سندھ کو ہدایت کی کہ جو لوگ ہلاک ہوئے ان کے اہل خانہ سے رابطہ کرکے مقدمات درج کیے جائیں۔ معاملے کی تحقیقات سنئیر آفیسر سے کرائی جائے۔ اگر کوئی حقائق چھپائے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
سندھ ہائی کورٹ نے سماعت دس دن کے لیے ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News

