’’قانون سازی کے وقت بائیکاٹ کرنا پھر عدالت آنا پارلیمانی جمہوریت کو کمزور کرنا نہیں؟‘‘

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی
جسٹس منصورعلی شاہ نے نیب ترامیم سے متعلق کیس میں سوال اٹھایا کہ کیا قانون سازی کے وقت بائیکاٹ کرنا پھرعدالت آ جانا پارلیمانی جمہوریت کو کمزورکرنا نہیں؟
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس منصورعلی شاہ نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے کنڈکٹ پر اہم سوال اٹھا دیے۔ انھوں نے کہا کہ عمران خان اوران کی پارٹی نے نیب ترمیمی بل پر ووٹنگ سے اجتناب کیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کیا ووٹنگ سے اجتناب کرنے والے کا عدالت میں حق دعویٰ بنتا ہے؟ کیا کوئی رکن اسمبلی پارلیمان کو خالی چھوڑسکتا ہے؟ کیا پارلیمان میں کرنے والا کام عدالتوں میں لانا پارلیمنٹ کو کمزورکرنا نہیں ہے؟ استعفی منظورنہ ہونے کا مطلب ہے کہ اسمبلی رکنیت برقرارہے۔
انھوں نے کہا کہ رکن اسمبلی حلقے کی عوام کا نمائندہ اوران کے اعتماد کا امین ہوتا ہے، کیا عوامی اعتماد کے امین کا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا درست ہے؟ کیا قانون سازی کے وقت بائیکاٹ کرنا پھرعدالت آ جانا پارلیمانی جمہوریت کو کمزورکرنا نہیں؟ کیسے تعین ہوگا کہ نیب ترامیم عوامی مفاد اور اہمیت کا کیس ہے؟
جسٹس منصورعلی شاہ نے سوالات اٹھائے کہ عوامی مفاد کا تعین کیا عدالت میں بیٹھے تین ججز نے کرنا ہے؟ کیا عوام نیب ترامیم کیخلاف چیخ و پکارکررہی ہے؟ نیب ترامیم کون سے بنیادی حقوق سے متصادم ہے نشاندہی نہیں کی گئی۔ عمران خان کے وکیل اسلامی دفعات اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ذکر کرتے رہے۔
وکیل وفاقی حکومت نے دلائل دیے کہ عمران خان چاہتے تو نیب ترامیم کو اسمبلی میں شکست دے سکتے تھے۔ پی ٹی آئی کے تمام ارکان مشترکہ اجلاس میں آتے تو اکثریت میں ہوتے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس نقطے پرعمران خان سے جواب لیں گے۔ کیا صرف اس بنیاد پر عوامی مفاد کا مقدمہ نہ سنیں کہ درخواست گزار کا کنڈکٹ درست نہیں تھا؟ ہر لیڈر اپنے اقدامات کو درست کہنے کیلئے آئین کا سہارا لیتا ہے۔ پارلیمان کا بائیکاٹ کرنا پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی تھی۔ ضروری نہیں سیاسی حکمت عملی کا کوئی قانونی جواز بھی ہو۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ بعض اوقات قانونی حکمت عملی بھی سیاسی لحاظ سے بے وقوفی لگتی ہے۔ پارلیمانی کارروائی کا بائیکاٹ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ برصغیرمیں تو بائیکاٹ کی لمبی تاریخ ہے۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں کتنے ارکان نے نیب ترامیم کی منظوری دی؟
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بل منظوری کے وقت مشترکہ اجلاس میں 166 ارکان شریک تھے جس پرجسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ مشترکہ اجلاس میں ارکان کی تعداد 446 ہوتی ہے یعنی آدھے سے کم لوگوں نے ووٹ دیا۔ عدالت صرف بنیادی حقوق اور آئینی حدود پار کرنے کے نکات کا جائزہ لے رہی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار نے نیب ترامیم عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر چیلنج کیں، عمران خان کے کنڈکٹ پر سوال تب اٹھتا اگر نیب ترامیم سے ان کو کوئی ذاتی فائدہ ہوتا۔ بظاہردرخواست گزار کا نیب ترامیم سے کوئی ذاتی مفاد منسلک نہیں لگتا۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ ضروری نہیں ذاتی مفاد کے لیے ترامیم چیلنج ہوں۔ درخواست گزارکو نیب ترامیم چیلنج کرنے سے سیاسی فائدہ بھی مل سکتا ہے۔ پی ٹی آئی نے استعفے نا منظور ہونے پرعدالت سے رجوع کیا، استعفے منظور ہونے پر بھی پی ٹی آئی عدالت میں آ گئی، عمران خان نے دانستہ طور پر پارلیمنٹ خالی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ شاید عمران خان کو معلوم تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں کامیاب نہیں ہوسکتے تو عدالت آ گئے، عمران خان سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی ہیں،
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کسی بھی مقدمے کی بنیاد حقائق پر ہوتی ہے قیاس آرائیوں پر نہیں، عدالت قانون سازی کو برقرار یا کالعدم قرار دینے کے بجائے بغیر کسی فیصلے کے واپس بھی کرسکتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگرعدالت نیب قانون کالعدم قراردے گی تو کل کیا کوئی بھی سپریم کورٹ میں قانون سازی چیلنج کر دے گا؟ ایک شخص نے نیب ترامیم چیلنج کیں ممکن ہے اسی جماعت کے باقی ممبران ترامیم کے حق میں ہوں۔
سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 14 فروری تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News