رہنما تحریکِ انصاف فواد چودھری کی ضمانت منظور

رہنما تحریکِ انصاف فواد چودھری کی ضمانت منظور
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے رہنما تحریکِ انصاف فواد چودھری کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی۔
تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں فوادچودھری کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدرگیلانی نے فواد چوہدری کو 20 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات کیا ہی نہ کریں جس پر بعد میں معافی مانگنی پڑے، فوادچودھری کو ایسا بیان نہیں دینا چاہئے تھا۔
سماعت کے دوران فواد چودھری کے وکیل بابراعوان، فیصل چودھری، علی بخاری عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
تفتیشی افسر کی جانب سے کیس کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا گیا۔ پراسیکیوٹر اور وکیل الیکشن کمیشن بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز میں جج فیضان گیلانی نے بابراعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیس کا ریکارڈ آ گیا ہے، مبارک ہو جس پر وکیل بابراعوان نے جواب دیا خیر مبارک۔
بابراعوان کے دلائل
وکیل بابراعوان نے فوادچودھری کی درخواستِ ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری الیکشن کمیشن عمرحمید مدعی مقدمہ ہیں، ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں، الیکشن کمیشن کے سیکریٹری انفرادی طورپرخود ریاست نہیں۔ کیا الیکشن کمیشن حکومت ہے؟ میرا سوال ہے!
سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سعدحسن اورپی ٹی آئی رہنما اسدعمر کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔
وکیل فواد چوہدری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کسی کوکہنا کہ تمہارے خلاف کارروائی کروں گا کا مطلب دھمکی دینا نہیں۔ بغاوت کی دفعہ انفرادی طورپرکچھ نہیں۔ بغاوت کی دفعہ کو سیاسی رنگ دیا گیا ہے۔ لگانے کو تو مقدمے میں قتل کی دفعہ بھی لگا سکتے تھے۔ کیا الیکشن کمیشن گورنمنٹ ہے؟ آئین کے مطابق ایگزیکٹو اتھارٹی گورنمنٹ ہے۔
وکیل بابراعوان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کیا ہے؟ اس کوعدالت کے سامنے دلائل رکھوں گا۔ الیکشن نا گورنمنٹ ہے نا ہی ریاست ہے بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق یہ اتھارٹی ہے۔ جس طرح کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہے۔ اس کیس میں زیادہ سے زیادہ صرف دفعہ 501 (1) لگا سکتے تھے۔ ان دفعات میں زیادہ سے زیادہ 10 سال ، عمر قید سزا دی جا سکتی ہے کم سے کم تین سال ہے۔
فواد چوہدری کی ضمانت منظوری کی استدعا
بابراعوان نے فواد چوہدری کی ضمانت منظورکرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کی درخواست ضمانت منظور کی جائے۔ بغاوت کی دفعات پر آئینی عدالتوں کے بہت کم فیصلے موجود ہیں۔ بغاوت کے مقدمات کا موسم آیا تو ہائیکورٹ کے ایسے دو فیصلے آئے ہیں۔ قوم اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ دو لفظ بولنے پر کسی پر یہ دفعات لگا دی جائیں۔
مقدمہ پڑھنے کی ہدایت
جج کی جانب سے وکیل بابراعوان کو مقدمہ پڑھنے کی ہدایت کی دی گئی، جج نے کہا کہ فوادچودھری نے مقدمے کے ایک مخصوص حصے تک تنقید کی۔
ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدرگیلانی نے استفسارکیا کہ فوادچودھری کی جانب سےکہنا کہ گھروں سے چھوڑکرآنے کا کیا مطلب ہے؟ فواد چودھری سینئر وکیل اور پارلیمنٹیرین ہیں۔
وکیل بابر اعوان نے جواب دیا کہ ماضی میں خاتون کو ٹریکٹر اور ٹرالی کہہ کر بھی مخاطب کیاگیا جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ خاندانوں کے حوالے سے بات کرنے کا کیا مطلب ہے۔ پاکستان میں لٹریسی ریٹ آپ کو پتہ ہے کیا ہے اور سیاسی شخصیت کا ایسی بات کرنے کا کیا مطلب ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدرگیلانی نے کہا کہ اس سے قبل ہماری ایک کولیگ کے بارے میں بھی کہا گیا اتنا آگے جانے کا کیا مطلب ہے؟ بعد میں اس میں معافی مانگی گئی۔
وکیل فواد چوہدری نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ کو بھی میں نے جا کے حل کروایا تھا۔
پراسیکیوٹرکے دلائل
پراسیکوٹر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری آئینی طور پر انتخابات کروانا ہے، تمام فنکشن حکومت خود نہیں کرتی، ذمے داریاں لگاتی ہے۔ آزادی اظہار رائے کا مطالب کسی شخصیت کا کباڑا کرنا نہیں ہوتا۔ الیکشن کمیشن کے ملازم کو منشی بنا دیا۔
جج نے استفسار کیا کہ کیا کسی وکیل نے منشی کہنے پراعتراض اٹھایا؟ منشی کے لفظ کوغلط کیوں سمجھا جارہاہے؟
پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کے ملازم کو ٹارگٹ کرکے منشی لفظ استعمال کیا گیا۔
فواد چودھری کی ضمانت کی مخالفت
پراسیکیوٹرکی جانب سے فواد چودھری کی درخواستِ ضمانت کی مخالفت کی گئی، مؤقف پیش کیا گیا کہ پولیس کی جانب سے ڈاکو منٹری شواہد اکھٹے کیے گئے جس پرعدالت نے ریمارکس دیے کہ اپنے بیان سے تو فواد چودھری انکاری نہیں۔
پراسیکیوٹرنے جواب دیا کہ فواد چوہدری نے پروگرام میں کہا اس ملک میں جو بغاوت ہے وہ تو فرض ہے۔ فواد چودھری کے بیان سے عوام میں نفرت پھیلائی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا پرطوفانِ بد تمیزی جاری ہے۔ پولیس کی جانب سے ڈاکومنٹری شواہد اکھٹے کیے گئے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل
الیکشن کمیشن کے وکیل سعدحسن نے دلائل دیے کہ فوادچودھری کا فوٹوگرامیڑک اور وائس میچ کا ٹیسٹ ہوا جس پرعدالت نے کہا کہ اگرفواد چودھری اپنا بیان مان رہے ہیں تو کیوں ٹیسٹ کروائے گئے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ فوادچودھری ٹرائل کے دوران اپنے بیان سے مکرسکتے ہیں۔ بیان فوادچودھری کا تھا، جس کے لیے فوٹوگرامیڑک ٹیسٹ کروایاگیا، فوادچودھری کے بیان پر مزید تفتیش نہیں کرنی۔ فوادچودھری اپنے بیان کا اقرار کررہےہیں۔ مزید تفتیش کیس میں کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ملک میں استحکام نہیں، اس دوران عوام کو اکسانا ٹھیک نہیں۔ جن واقعیات کا نام کیاجارہا اس میں صرف الیکشن کمیشن کو صرف ٹارگٹ نہیں کیاجارہا۔ رجیم چینج کے بعد افواجِ پاکستان اور سیاسی شخصیات کو ٹارگٹ کیا گیا۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدرگیلانی نے فواد چوہدری کو 20 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے اُن کی ضمانت کی درخواست منظور کرلی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News