ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائےموت کیخلاف صدارتی ریفرنس؛ سماعت فروری کےآخری ہفتےتک ملتوی

ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائےموت کیخلاف صدارتی ریفرنس؛ سماعت فروری کےآخری ہفتےتک ملتوی
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت انتخابات کے بعد تک ملتوی کر دی گئی۔
سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم ذوالفقاربھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں نو رکنی لارجربنچ نے سماعت کی۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت پرآرٹیکل 186 کے سکوپ پرمعاونت طلب کی تھی۔ سپریم کورٹ نے کیس پر معاونت کیلئے عدالتی معاونین بھی مقررکیے تھے۔
سماعت کے آغازمیں عدالت معاون صلاح الدین احمد روسٹرم پرآئے اور دلائل دیے کہ میری اہلیہ نواب احمد قصوری کی نواسی ہیں، عدالت فریقین سے پوچھ لے کہ میری معاونت پر کوئی اعتراض تو نہیں جس پرچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اہلیہ نے اعتراض اٹھایا ہے تو پھر بڑا سنجیدہ معاملہ ہے۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ذوالفقاربھٹو کے ورثا کو بیرسٹرصلاح الدین پراعتراض نہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ میرے والد ڈی جی ایف ایس ایف مسعود محمود کے بھٹو کیس میں وکیل تھے، اگر میرے اوپر بھی کسی کو اعتراض ہو تو بتا دیں جس پرچیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسٰی نے کہا کہ آپ پر کسی فریق کو اعتراض نہیں آپ فئیر ہیں اس کا یقین سب کو ہے۔
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال بھٹو کی پھانسی پرعمل کا نہیں ہے، بدقمستی سے ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی ریورس نہیں ہوسکتی، عدالت کے سامنے معاملہ اس کلنک کا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ اگراس کیس میں عدالت نے کچھ کیا تو کیا ہر کیس میں کرنا ہوگا؟ وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ اس ریفرنس کی بنیاد جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو تھا۔
انٹرویوکی کاپی ڈی سیل کرنے کی ہدایت
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں ٹی وی چینل کے ڈائریکٹرنیوزنے انٹرویو کی کاپی بھیجی ہے، انٹرویو شاید ہارڈ ڈسک میں ہے، سربمہر ہے ابھی کھولا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے اسٹاف کو انٹرویو کی کاپی ڈی سیل کرنے کی ہدایت کردی۔
مخدوم علی خان نے سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا، کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کی بہن نے صدرمملکت کے سامنے رحم کی اپیل دائر کی تھی، ذوالفقارعلی بھٹو نے بذات خود کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی تھی۔
احمد رضا قصوری روسٹرم پرآئے تو چیف جسٹس نے احمد رضا قصوری کو بات کرنے سے روک دیا، مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی نشست پربیٹھ جائیں، پہلے عدالتی معاون کو بات مکمل کرنے دیں، آپ کو ان کی کسی بات پراعتراض ہے تو لکھ لیں۔
رضا ربانی روسٹرم پرآئے تو چیف جسٹس نے ان سے بھی استفسارکیا کہ کیا آپ عدالتی معاون ہیں؟ رضا ربانی نے جواب دیا کہ میں عدالتی معاون نہیں لیکن بختاوراورآصفہ بھٹو کا وکیل ہوں، کیس میں فریق بننے کی درخواست جمع کرائی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ٹھیک ہوگیا اس درخواست کودیکھتے ہیں۔ اس کے بعد عدالتی معاون مخدوم علی خان نے دلائل جاری رکھے۔
جسٹس منصورعلی شاہ کے ریمارکس
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا ہمارے سامنے قانونی سوال کیا ہے؟ کیا ہم ایک انٹرویوکی بنیاد پرسپریم کورٹ کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے کررائے دے دیں؟ کیا عدالت ایک انٹرویو کی بنیاد پرانکوائری کرے؟ انٹرویو ایک جج کا تھا جبکہ بنچ میں دیگر ججز بھی تھے، کیا ہم انٹرویو سے متعلقہ لوگوں کو بلا کرانکوائری شروع کریں؟ ہم صرف ایک انٹرویو کی وڈیو دیکھ کر تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہوا تھا، آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے۔
جسٹس محمدعلی مظہرنے کہا کہ یہ بھی بتا دیں کہ بھٹو ریفرنس میں آخرقانونی سوال پوچھا کیا گیا ہے؟
مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ ذولفقارعلی بھٹو کو4 تین کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی، بعد میں ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ میں نے دباؤ میں فیصلہ دیا۔
جسٹس نسیم علی شاہ کا ٹی وی انٹرویو کمرہ عدالت میں نشر
چیف جسٹس کی ہدایت پرجسٹس نسیم علی شاہ کا ٹی وی انٹرویو کمرہ عدالت میں چلا دیا گیا، ججزسمیت وکلا نے اس انٹرویو کو سنا۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی ن کہا کہ ہم سارا انٹرویو نہیں سن سکتے، متعلقہ حصہ سے انٹرویو چلایا جائے، وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نےاپنی کتاب میں ساری چیزوں کی وضاحت کی ہے۔
عدالت نے کہا کہ آپ نے درست ریکارڈنگ پیش نہیں کی، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یوٹیوب سے مین انٹرویو ہٹا دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئےکہا کہ متعلقہ ادارے نے ہمیں انٹرویودیا ہےایسا کرتے ہیں اس کی کاپیاں بنا دیتے ہیں۔ کاپی سے متعلقہ حصہ ہمیں دیکھائیں، اس انٹرویو میں تو مکمل بات ہی نہیں ہے، آپ ایسا کریں متعلقہ چینل والا ڈیٹا کاپی کرالیں، آپ سارے انٹرویو کو دیکھ کر متعلقہ حصہ ہمیں دے دیں۔ ہم ابھی عدالتی معاون مخدوم علی خان کو سن لیتے ہیں، جج صاحب کا یہ انٹرویو کب لیاگیا؟ نوٹ کر لیں 3 دسمبر 2003 کو یہ انٹرویو چلایا گیا۔
احمد رضا قصوری نے کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں سارا واقعہ لکھا ہے جس پرچیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے مکالمہ کرتے ہوئے ان سے کہا کہ آپ متعلقہ حصہ ڈھونڈ لیں عدالتی وقت ضائع نہ کریں۔
احمدرضا قصوری نے جواب دیا کہ کتاب میں جو لکھا گیا اگران پر دباؤ تھا تو استعفیٰ دے دیتے جس پرعدالت نے کہا کہ آپ ہمیں نہ سمجھائیں جو پڑھنا ہے پڑھ لیں۔
ٹی وی سے موصول انٹرویوکی کاپی فاروق نائیک کو فراہم کرنے کی ہدایت
جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کا متعلقہ حصہ نہ مل سکا جس پرعدالت نے ٹی وی سے موصول انٹرویوکی کاپی فاروق نائیک کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ آئندہ سماعت پراس انٹرویوسے متعلقہ حصہ ڈھونڈ لائیں، فاروق نائیک صاحب آپ نے ہمیں درست کاپی فراہم نہیں کی، یہ پریشر والی بات سے متعلقہ حصہ نہیں ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ فیصلہ انصاف سے زیادتی ہے، جس پرچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا اس میں سپریم کورٹ قصوروار ہے؟ یا پھرپراسیکیوشن اوراس وقت کا مارشل لا ایڈمسٹریٹر؟ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے ذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News

