سنگین غداری کیس: فیصلہ روکنے کیلئے وزارت داخلہ کا اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع

پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ روکنے کیلئے وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق درخواست میں موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف کو صفائی کا موقع ملنے تک خصوصی عدالت کو کارروائی سے روکا جائے جبکہ نئی پراسیکیوشن ٹیم کی تعیناتی تک کوئی کارروائی نہ کی جائے اور عدالت کا فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم نامہ معطل کیا جائے۔
سابق صدر کے وکیل نے بھی خصوصی عدالت کا19نومبرکا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔
دوسری جانب مشرف کے وکیل درخواست میں کہا ہے کہ پرویز مشرف سے قانون کے مطابق برتاؤ کیا جائے، کیس میں انھیں دفاع کے حق سے محروم کیا گیا، مشرف شدید علالت کے باعث پیش نہیں ہوسکے، خصوصی عدالت کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل چار اور دس اے کی خلاف ورزی ہے۔
واضح رہے کہ عدالت عالیہ کا لارجر بینچ کل دن ساڑھے بارہ بجے درخواست کی سماعت کرے گا درخواست میں 28 نومبر کو فیصلہ سنانے سے روکے جانے کی استدعا کردی گئی ہے۔
رواں ماہ کی 19 تاریخ کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سا بق صدرپرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
ذرائع کے مطابق دورانِ سماعت استغاثہ اور حکومت کی جانب سے عدالت میں کوئی بھی پیش نہیں ہوا نہ ہی پرویز مشرف کے وکیل پیش ہوئے۔
غداری کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے آئین شکنی پر سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔
یہ درخواست پرویز مشرف پر آرمی چیف کی حیثیت سے 3 نومبر 2007 کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر دائر کی گئی تھی۔
اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو پراسیکیوشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔
ابتدائی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی بطور چیف پراسیکیوٹر تعیناتی چیلنج کی تھی لیکن غداری کیس کے لیے مختص خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیلنج کو مسترد کردیا تھا۔
فروری 2014 میں جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔
مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔
عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔
بعد ازاں عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔
تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال 2018 کے آغاز میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کی تھیں اور حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے مئی میں عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا تھا۔
بعد ازاں 11 جون 2018 کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News