پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس؛ چیئرمین نیب اور ارکان میں طنزیہ جملوں کا تبادلہ

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کے دوران ارکان اور چیئرمین نیب کے درمیان طنزیہ جملوں کاتبادلہ ہوا ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا، چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کمیٹی کے سامنے ہوئے تو چیئرمین رانا تنویر حسین کہا کہ آپ نے آنے میں بہت دیر لگادی، آج کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ مجھے کچھ کہنے کی اجازت ہے؟
کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ نیب کی کارکردگی آپ میڈیا پر ہی بتاتے ہیں، پی اے سی کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے، آپ ہمارے لیے بہت قابل احترام ہیں، آپ سابق جج ہیں، آپ سے لوگوں کو توقعات ہیں۔
متعلقہ خبر: مجھ سے وہ لوگ مطمئن نہیں جن کے خلاف کیسز ہیں
جواب میں چیئرمین نیب نے کہا کہ پارلیمنٹ کی اہمیت مسلمہ ہے اس سے کسی کو انکار نہیں، جب بھی بلایا میں پارلیمنٹ میں پیش ہوا ہوں، گزشتہ دنوں چند مصروفیات کی وجہ سے نہیں آسکا، میں مغل شہنشاہ نہیں ہوں، میں نے کئی مقدمات میں پارلیمانی بالادستی کی بات کی ہے، مجھے احساس ہے کہ میں ایک دو مرتبہ نہیں آ سکا، ہمیشہ جائز وجوہات کے باعث کمیٹی میں نہیں آ سکا۔ نیب آئین و قانون سے بالاتر نہیں ہے، میں 4 سال چیئرمین نیب رہا اور اپنے دور کا مکمل آڈٹ کروایا۔
پی ٹی آئی کے نور عالم خان نے کہا کہ پارلیمنٹ میں چیئرمین نیب کے بہت سفارشی ہیں لیکن کمیٹی میں کوئی بھی پرسنل نہیں ہوتا، شاید نیب کا دباؤ ہے کہ کمیٹی کے اجلاس بھی منسوخ کر دیے جاتے ہیں، چیئرمین نیب بتائیں کہ کتنے سیاستدانوں، ججوں، بیوروکریٹس اور عسکری حکام پر کیسز چل رہے ہیں، جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ بہتر ہو گا کہ کمیٹی کا ایک خصوصی اجلاس بلا لیں سب سوالوں کے جواب دوں گا۔
متعلقہ خبر: لوٹی ہوئی دولت کو واپس دلانا مشکل کام ہے
اجلاس کے دوران نیب کی آڈٹ رپورٹ برائے 19-2018 پر غور کیا گیا، آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ مالی سال کے دوران نیب نے 38 کروڑ روپے کے اضافی اخراجات کیے، کمیٹی ارکان نے نشان دہی کی کہ آڈٹ رپورٹ میں صرف بجٹ اخراجات کی بات کی گئی ہے، اس رپورٹ میں بے ضابطگیوں کا کوئی پیرا کیوں شامل نہیں ہے۔
رانا تنویر نے آڈٹ حکام سے سوال کیا کہ کسی وزارت یا ادارہ کا پیسہ آپ نے سیٹلمنٹ کے لئے کیسے تجویز کر دیا؟ نیب کے لیے سپلیمنٹری گرانٹ کی تجویز کیسے کر دی۔
پیپلز پارٹی کی شیری رحمان نے کہا کہ نیب میں تنخواہیں بڑھنے کا معاملہ اہم ہے کیونکہ دیگر اداروں کے مقابلے میں نیب میں تنخواہیں بہت زیادہ بڑھی ہیں۔
چئیرمین پی اے سی نے استفسار کیا کہ نیب نے سپلیمینٹری گرانٹ کیوں لی؟ جواب میں جاوید اقبال نے کہا کہ نیب ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے باعث ضمنی گرانٹ لی۔
جاوید اقبال کے جواب پر نور عالم نے پوچھا کہ صرف نیب کی تنخواہیں کیوں بڑھیں جس پر جاوید اقبال نے کہا کہ صرف نیب کی تنخواہیں نہیں بڑھیں سب اداروں کی بڑھی ہیں، کئی اداروں کی تنخواہ سو فیصد بھی بڑھی، شاید ان اداروں تک نور عالم کی پہنچ نہیں، نیب ملازمین کی تنخواہیں 18 سال تک نہیں بڑھائی گئی تھیں۔
متعلقہ خبر: چئیرمین نیب کا پیشی سے انکار، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی برہم
بعد ازاں رانا تنویر نے استسفار کیا کہ پی اے سی کو نیب سے شکوہ ہے، ہماری کمیٹی اتنا کام کرتی ہے تیار کیسز نیب کو بھیجتی ہے مگر نیب ان پر کارروائی نہیں کرتا، ہم نے نیب وصولی کی تفصیل مانگی تھی لیکن صرف 2 سطروں کا جواب دیا گیا، بتائیں لوٹی گئی رقم کتنی ہے، ڈیفالٹ کی رقم کتنی ہے، ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے کتنی وصولی ہوئی؟۔
جواب میں جاوید اقبال نے کہا کہ ہم ایک ایک روپے کا حساب دیں گے، ایک ایک بات پر پی اے سی کو مطمئن کروں گا ، مطمئن نہ کرسکا تو یہاں سے سیدھا گھر جاؤں گا، نیب نے پی اے سی کی جانب سے بھجوائے 168 ارب روپے کے 120 ریفرنس دائر کیے، اس وقت 1386 ارب روپے کے 1270 ریفرنس زیر التوا ہیں۔ نیب تیس ہزار افراد میں اربوں روپے تقسیم کر چکا ہے، کئی کرپشن کیسز کی وصولیوں کا پیسہ متعلقہ اداروں یا صوبائی حکومتوں کو دیا جاتا ہے۔
بعد ازاں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے 6 جنوری کو ان کیمرہ اجلاس طلب کرلیا، جس میں چیئرمین نیب کمیٹی ارکان کو تفصیلی جواب دیں گے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News

