Advertisement

پارلیمانی معاملات پارلیمان میں ہونے چاہئیں، چیف جسٹس

جسٹس اطہر من اللہ

بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے براہ راست نشر کرنا ضروری ہے، اطہر من اللہ

پاکستان تحریک انصاف کے استعفوں کی منظوری کے معاملے پر چیف جسٹس نے کہا ہے کہ عدالت پارلیمنٹ کا احترام کرتی ہے اور پارلیمانی معاملات پارلیمان میں ہونے چاہیے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے استعفوں کی منظوری کے معاملے پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی ۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس درخواست کا مقصد کیا ہے ؟ پہلے طے کریں کہ استعفوں کا معاملہ سیاسی جماعت کا ہے یا کس کا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت پارلیمان کا احترام کرتی ہے ، پارلیمانی معاملات پارلیمان میں ہونے چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس عدالت نے پہلے فیصلے میں بھی اسپیکر کو معاملے پر غور کا کہا ہے لیکن جماعت کو چاہئے کہ پہلے دوسری جماعتوں کیساتھ مزاکرات کرے۔

Advertisement

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ جماعت عدالت سے  کوئی سیاسی مقاصد حا صل کرنا چاہتی ہے؟

انہوں نے کہا کہ پارلیمان پارلیمانی معاملے کیلئے بنی ہے اور ہم پارلیمان کا احترام کرتے ہیں۔

اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا آغاز کیا اور بتایا کہ استعفوں کی منظوری کا ایک قانونی طریقہ کار ہے اور کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ انکی منظوری سے متعلق غلط طریقہ اپنایا گیا۔

وکیل نے سوال پیش کیا کہ اگر 123 اراکین کو ڈی سیٹ نہیں کیا گیا تو گیارہ کو کیوں کیا؟ ہماری استدعا ہے کہ اس منظوری کو کالعدم قرار دیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر نے استعفوں کی تحقیق نہیں کی اور اسپیکر نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی۔

اس موقع پر عدالت کا کہنا تھا کہ جب تک استعفے منظور نہیں ہوتے انکو پارلیمان میں ہونا چاہئے، ایک طرف یہ پارلیمان کو مان نہیں رہے دوسری طرف استعفوں کی منظوری نہیں چاہتے۔

Advertisement

چیف جسٹس نے مشورہ دیا کہ پارلیمانی اراکین کو پارلیمان میں جانا چاہیے، یہ عدالت پارلیمان کی سالمیت کیخلاف نہیں جا سکتی اور اس عدالت کی یہ پالیسی نہیں ہے، یہ مستعفی اراکین پارلیمان کا بائی کاٹ کر رہے ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ یہ اراکین عدالت کو خود بتا رہے ہیں کہ انکے استعفے اصلی ہے،حقیقی ہیں اور دوسری طرف آپ اسکی منظوری کیخلاف ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس عدالت نے آج تک نا پارلیمان اور نہ ہی اسپیکر کے معاملات میں مداخلت کی کیونکہ ہم پارلیمان کی عزت و احترام کرتے ہیں، اسکی توہین نہیں کر سکتے اور پہلے یہ طے کریں کہ یہ سیاسی جماعت کا اندرونی معاملہ ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت تو آپکو موقع دے رہی ہے کہ آپ پارلیمان میں جائیں کیونکہ یہ معاملہ گیارہ کا نہیں تمام مستعفی اراکین کا ہے اور آپ سب کو پارلیمان میں جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمان کے ساتھ بہت ہو گئی، اسکی عزت احترام کو برقرار رکھیں، عدالت آپکو موقع دے سکتی لیکن اسکے لئے آپکو پارلیمان جانا ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملکی عدم سیاسی استحکام کی خاطر شاید اسپیکر نے ایسا  اقدام اٹھایا ہو، ملکی سیاسی استحکام کسی کی ذمہ داری نہیں؟ کیا یہ 10 ارکان آج بھی پارلیمنٹ واپس نہ جانے کی پالیسی کیساتھ ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کی درخواست ہم نہیں سنیں گے۔

Advertisement

اس موقع پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس وقت میں ان سوالات کے جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں، ان دس ارکان کو ڈی نوٹیفائی کیا جا چکا ہے اور ایک بار رکنیت بحال ہو پھر واپسی کے سوال پر جواب دے سکتے ہیں، اگر أپ استعفی کی منظوری کو کالعدم دیں تو ہم اسمبلی میں واپس جا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نہیں ایسے نہیں ہو سکتا ہے، آپ یہ تاثر دے رہے کہ آپ پارلیمان کو نہیں مانتے لیکن آپ اپنے سیاسی عمل سے ثابت کرنا ہے کہ آپ پارلیمان کا احترام کرتے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمیں ڈی نوٹیفائی کیا گیا ہم اسمبلی میں کیسے جائیں؟ جس پر چیف جسٹس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو کل تک مہلت دی جا سکتی آپ پارلیمان جائیں، عدالت سیاسی جماعتوں کا احترام کرتی ہے کیونکہ ان نمائندوں کو عوام نے منتخب کیا اور شاید اسپیکر صاحب آپکو پارلیمان واپسی کا موقع دے دیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ  اس عدالت سےکبھی امید مت لگائیں کہ پارلیمان کیخلاف جائے گی، پارلیمان میں جا کر ان استعفوں سے متعلق اسپیکر کو آگاہ کریں، یہ سیاسی جماعت پارلیمان میں واپس جائے اور اگر سڑکوں پر رہنا ہے تو ٹھیک ہے ،رہیں لیکن اگر اسپیکر تو آپکو وقت دے رہے کہ سوچیں اور واپس آئیں۔

بعدازاں عدالتی سماعت میں ایک گھنٹے کا وقفہ کردیا گیا۔

وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز:

Advertisement

وقفے کے بعد سماعت کے آغاز پر بیرسٹر علی ظفر نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر کا اقدام غیر آئینی تھا اور اقدام نہ صرف خلاف آئین خلاف قانون اور حقائق کی منافی تھا جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ  نے کہا کہ یہ عدالت پارلیمان کی ساکھ پر بات نہیں آنے دے گی،سیاسی عدم استحکام سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

عدالت نے کہا کہ پارلیمان کی بالادستی کو اگر برقرار نہیں رکھیں گے تو کیا ہم پارلیمان کیخلاف جائیں؟

عدالت کا مزید کہنا تھا کہیہ عدالت پارلیمان کی بالا دستی کا احترام برقرار رکھے گی اور اگر آپ عدالت کو پارٹی/فریق بنانا چاہتے ہیں تو ایسا نہیں ہو گا۔

اس موقع پر وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ میرا کیس قانونی نکات پر ہے جس پر عالت نے کہا کہ یہ عدالت سیاسی جماعت کے کنڈکٹ کو دیکھ رہی ہے ۔

وکیل نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہعدالت استعفوں کے معاملے پر قانونی نکات کو دیکھے جس پر چیف جسٹس اطہر من  اللہ نے سوال کیا کہ جب استعفے اپنی مرضی سے دئیے اب واپس کیوں جانا چاہتے ہیں؟

اس موقع پر عدالت نے کہا کہ آپکو پانچ دن دیتے ہیں، آپ اپنے رویے سے بتائیں کہ آپ پارلیمان واپس جانا چاہتے ہیں۔

Advertisement

اس موقع پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہظفر علی شاہ کیس میں اس عدالت کا فیصلہ واضح ہے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جس فیصلے کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ بھی اسی جماعت کے استعفوں کے حوالے سے تھا۔

وکیل نے کہا کہمجھے وہ فیصلہ پڑھنے دے تاکہ میں بتا سکوں کہ وہ فیصلہ اس کیس سے لنک ہوتا ہے یا نہیں جس کے بعد پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے ظفر علی شاہ کیس کا فیصلہ عدالت کو پڑھ کر سنایا۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
اختتام
مزید پڑھیں
آج کی بول نیوز
لاہور اور کراچی کا فضائی معیار آج بھی زہریلا قرار
بیرون ممالک سکھوں کو نشانہ بنانے کیلئے "را" کے مجرمانہ نیٹ ورکس کا ایک اور وار
خیبرپختونخوا کی 13 رکنی صوبائی کابینہ تشکیل، حلف برداری آج ہوگی
استنبول مذاکرات؛ پاکستان اور افغان طالبان جنگ بندی کے تسلسل پر متفق
وزیر اعظم اور صدر مملکت کی بڑی بیٹھک؛ آزاد کشمیر میں ممکنہ سیاسی تبدیلیوں پر اہم گفتگو
اپنی قوت پر اعتماد کریں کوئی تمہارا بال بیکا نہیں کر سکتا، مولانا فضل الرحمن
Advertisement
Next Article
Exit mobile version