مدینہ منورہ؛ عشقِ رسولﷺ اور عثمانی ورثے کی زندہ علامت

مدینہ منورہ کا شمار دنیا کے اُن شہروں میں ہوتا ہے جن کی فضا خود تاریخ سناتی ہے۔ سیاہ گنبدوں والی مسجد عنبریہ اور اس کے قریب سرمئی تراشیدہ پتھروں سے بنی ایک خوبصورت عمارت پر نظر پڑتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ یہ صرف پتھر نہیں، بلکہ ایمان و عقیدت کی ایک زندہ داستان ہے۔
یہ عمارت عربی و ترکی فنِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے، جو آج بھی خلافتِ عثمانیہ کے دور کی شان و شوکت اور محبتِ رسولﷺ کے جذبے کی یاد دلاتی ہے۔
سنہ 1900ء میں عثمانی خلافت کے 34ویں فرمانروا سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم نے ایک عظیم ریلوے منصوبے کا آغاز کیا تھا، اس منصوبے کے تحت دمشق سے مدینہ منورہ تک ریلوے لائن بچھانے کا کام شروع کیا یہ صرف ایک مواصلاتی منصوبہ نہیں تھا بلکہ امتِ مسلمہ کو روحانی طور پر جوڑنے کا ایک خواب تھا۔
سلطان کا مقصد یہ تھا کہ دنیا بھر سے آنے والے زائرین آسانی سے مدینہ منورہ پہنچ سکیں اور اسلامی خلافت کے مختلف حصے ایک مضبوط ربط میں منسلک رہیں۔
موسمی شدت، دشوار گزار پہاڑیاں، ریتلے میدان اور بدو قبائل کی مخالفت کے باوجود یہ لائن 1908ء میں مدینہ منورہ تک مکمل ہوئی۔ یہ کام نہ صرف انجینئرنگ کا شاہکار تھا بلکہ عثمانیوں کے ایمان و استقامت کا مظہر ہے۔
روایت ہے کہ جب ریلوے لائن کا کام مکمل ہوگیا تو مدینہ منورہ کے ترکی اسٹیشن پر افتتاح کی تقریب رکھی گئی، ٹرین کا انجن اُس وقت کوئلے سے چلتا تھا جو سفر کے دوران بھڑبھڑاہٹ کی تیز آواز پیدا کرتا تھا۔
جب سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم نے یہ شور سنا تو اُن کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار نمایاں ہو گئے اور کہا کہ نبیِ رحمتﷺ کے شہر میں یہ شور و غوغا؟ یہ گستاخی نہیں ہونی چاہیے!
غصے میں آکر سلطان نے حکم دیا کہ اس شور مچانے والے انجن کو فوری بند کیا جائے اور نبیِ کریمﷺ کے شہر میں کوئلے سے چلنے والی ٹرین نہیں بلکہ بجلی سے چلنے والا انجن استعمال کیا جائے۔
مزید پڑھیں: مدینہ منورہ میں عمرہ و زیارت فورم کی سرگرمیاں
یوں مدینہ منورہ میں پہلی بار بجلی سلطان عبدالحمید ثانی کے حکم سے لائی گئی اور یہ بجلی عشقِ رسولﷺ کے احترام میں روشن ہوئی اور بجلی کے انجن سے چلنے والی ریل چلائی گئی۔
1915ء میں 60 ویں شریفِ مکّہ امیر سید حسین ابن علی ہاشمی نے برطانیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے ’تحریکِ بیداری عرب‘ کے نام پر عثمانیوں کے خلاف بغاوت کی، اس کے دو بیٹے دونوں عراق اور اردن کے بادشاہ بنے جو زمانۂ حال کے اردنی شاہی خاندان کا سلسلہ جاری ہے۔
انگریز جاسوس لارنس آف عریبیہ کی سرکردگی میں یہ بغاوت پھیلائی گئی اور دمشق سے مدینہ تک رواں دواں حجاز ریلوے لائن کو تباہ کر دیا گیا۔
یوں امت کو جوڑنے والی یہ شہ رگ کٹ گئی اس مدینہ کے ترکی اسٹیشن کو گذشتہ روز اپنے دوست حاجی ظفر اقبال کے ساتھ دیکھنے کا موقع ملا یہاں پر قدیم ریلوے بوگیوں اور انجن کے باقیات اور ریلوے اسٹیشن کی عمارت موجو ہے۔
مدینہ منورہ کا ترکی ریلوے اسٹیشن محض ایک تاریخی عمارت نہیں، بلکہ یہ اسلام کی تہذیبی تاریخ، عثمانیوں کی فنی مہارت، اور ایک عاشق خلیفہ کے دل میں بسے احترامِ رسولﷺ کا مجسم استعارہ ہے اس کے پتھروں میں تاریخ بولتی ہے، اس کی دیواروں سے عثمانیوں کی عقیدت جھلکتی ہے۔
یہ ریلوے اسٹیشن اور اس سے جڑا واقعہ ماضی کے ایک ایسے لمحے کی یاد دلاتا ہے جب ایک خلیفہ وقت نے دنیاوی ترقی پر روحانی ادب کو فوقیت دی اور ثابت کیا کہ ترقی ایمان سے جدا نہیں، مگر ادبِ مصطفیٰﷺ ہر ترقی پر مقدم ہے وہ ادب آج بھی مدینہ کی فضاؤں میں زندہ ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News

