محمد عمر افتخار

04th Sep, 2022. 09:00 am

سی پیک کے اغراض و مقاصد

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) آج کل خبروں کا محور بنی ہوئی ہے۔ چینی اور پاکستانی حکام نے حال ہی میں اس منصوبے پر تبادلۂ خیال کیا، جس میں افغانستان بھی برابری کی سطح پر شامل ہے۔

اسلام آباد میں چین کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان یو ژیاؤونگ اور سیکرٹری خارجہ سہیل محمود کے درمیان بیلٹ اینڈ روڈ اقدام (بی آر آئی) اور اس کی توقعات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ بیان کے مطابق، “علاقائی رابطے کے تناظر میں، دونوں اطراف اقتصادی ترقی اور خوش حالی کو فروغ دینے کے لیے سی پیک کی افغانستان تک توسیع پر تبادلہ خیال کیا۔” تاہم اس میں افغانستان میں سیاسی اور سیکورٹی سے متعلق امور پر بھی زیر غور آئے۔ پاکستان افغانستان کو ایک خوش حال ملک بنانے کے لیے پرعزم ہے جو اپنے ہمسائے ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتا ہے۔

اب افغانستان کو اس منصوبے میں شامل کرکے سی پیک کے لیے ایک نئی جہت  پیدا کی گئی ہے اور ایک نئی سمت کی جانب سفر کا آغاز کیا جارہا ہے، تاہم اس موقع پر چینی حکام کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ پاکستان میں جاری منصوبوں کی تکمیل مقررہ وقت پر کی جائے ۔

ابتدائی طور پر یہ تاخیر چین کے سنکیانگ صوبے کی طرف سے ہوئی تھی۔ تاہم گوادر میں 30 کروڑ امریکی ڈالر کے پندرہ میں سے صرف تین منصوبے مکمل ہوئے ہیں اور 2 ارب امریکی ڈالر کے تقریباً ایک درجن منصوبے ابھی بھی زیر تکمیل ہیں۔ چین پاکستان میں مالیات اور انسانی وسائل سے متعلق اپنی سرمایہ کاری کا از سر نو جائزہ لے گا اس کی وجہ کراچی یونیورسٹی میں ہونے والا  دہشت گردی کا واقعہ ہے، دہشت گردی کے اس حملے میں تین چینی اساتذہ جاں بحق ہوگئے تھے، اس واقعے نے بھی چین کو سی پیک  کے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔

پاکستان کی سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا،”پاکستان کے سیکیورٹی نظام کی اپنے شہریوں اور ان کے منصوبوں کے تحفظ کی صلاحیت پر چینی اعتماد کو شدید نقصان پہنچا ہے۔” سیکرٹری خارجہ سہیل محمود اور چین کے معاون وزیر خارجہ وو جیانگ ہاو نے اجلاس کی مشترکہ صدارت کی۔ اجلاس کے شرکاء نے صنعت اور آئی ٹی سے متعلق منصوبوں کے ساتھ ساتھ سی پیک  سے ملنے والے سماجی و اقتصادی فوائد بیان کئے۔

Advertisement

ان کا مزید کہنا تھا کہ سی پیک جیسا ایک بڑا منصوبہ مکمل ہونے میں وقت لگے گا۔ منصوبے کی پیچیدگی اور اس کے مختلف مراحل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے تسلسل میں وقفے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ 62 ارب امریکی ڈالر کا یہ منصوبہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اقدام ہے جو اپنی سبک رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے، چاہے راستے میں کچھ مشکلات بھی آئیں یہ جاری رہے گا۔ تاہم، سی پیک میں افغانستان کی شمولیت سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی پیدا ہو نے کا قوی امکان ہے کیونکہ جب جغرافیائی سیاست یا اقتصادیات کی بات آتی ہے تو دونوں ممالک کے درمیان کبھی بھی آسان اور بغیر کسی رکاوٹ کے ترقی نہیں ہوئی۔

سی پیک کے حوالے سے پاکستان کے ہمسایہ ممالک بھی کچھ تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں ہیں، یہی وجہ ہے سی پیک کو اگر بھارت ابرو اٹھا  کر چبھتی ہوئی نظر سے دیکھ رہا ہے تو امریکہ بھی اس کا ناقد بنا ہوا ہے۔ واشنگٹن کا خیال ہے کہ چین گوادر کو استعمال کرکے بحر ہند میں اپنی طاقت کا استعمال کرے گا۔ جہاں امریکہ نے پاکستان کو چین کے ساتھ تعلقات کے بارے میں خبردار کیا ہے وہیں بیجنگ نے امریکہ کو بھارت کی پشت پناہی کا چیلنج دیا ہے۔ امریکہ نے چین پر قرضوں کے جال کی سفارت کاری کا الزام لگایا ہے۔ ایسا ہی ایک کیس سری لنکا میں بھی دیکھنے میں آیا جو چین کی سرمایہ کاری کی وجہ سے مقروض ہو چکا ہے۔

سی پیک کے تحت پاکستان کی تجارتی سرگرمیاں نئی بلندیوں کو چھو رہی ہیں۔ اگر صرف پاکستان اور چین کے مابین تجارت کی بات کی جائے تو پاکستان سے چین کو جو تانبا برآمد کیا گیا اس کی قیمت تقریباً 5 کروڑ  امریکی ڈالر تھی۔یہ تعداد 2020ء میں 41 کروڑ امریکی ڈالر تھی۔ بی آر آئی بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور پائیدار اقتصادی ترقی اورمعیشتوں کو فروغ دینے والے علاقائی رابطوں میں ایک اسٹریٹجک گیم چینجر بن رہا ہے۔

یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ مغرب کی اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے عالمی معیشت زوال پذیر ہے، خاص طور پر امریکہ اور یورپی یونین۔ روس کے خلاف یک طرفہ پابندیاں بھی اس کی ایک مثال ہے۔ اسی لیے وسطی ایشیائی ریاستیں امریکی راڈار سے دور ہونے کی کوشش کر رہی ہیں اور بی آر آئی یعنی چین کے نئے تجارتی راستے ان کے لیے محور بن گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ازبکستان خطے میں ٹرانسپورٹ کے ایک نئے مرکز کے طور پر ابھرا ہے۔ اگست میں سامنے آنے والی رپورٹس نے واضح کیا ہے کہ چین اور ازبکستان نے دونوں ممالک کو ملانے والی ریل روڈ کی تعمیر کی تصدیق کی ہے۔ یہ منصوبہ تقریباً پچیس سال سے پائپ لائن میں تھا ہے۔ ریل روڈ، مکمل ہونے پر، چین اپنی تجارتی سرگرمیوں کو وسطی ایشیا سے ترکی تک بڑھا دے گا جو  اسے یورپ کی طرف لے جائے گا۔ اگر سی پیک علاقائی رابطوں میں اضافہ کرے گا تو اس سے اقتصادی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوگا۔

سی پیک کے روڈ پراجیکٹ کے منصوبے سے تقریباً 50 ہزار ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ تقریباً 94 فیصد یہ ملازمتیں پاکستانیوں کو پیش کی جائیں گی۔سی پیک منصوبوں سے پیدا ہونے والی 12 لاکھ ملازمتوں میں سے تقریباً 33 فیصد پاکستان کے لیے دستیاب ہوں گی۔ توقع ہے کہ 2015ء سے 2030ء تک 23 لاکھ سے زائد ملازمتیں پیدا ہوں گی جس سے پاکستان کی جی ڈی پی میں سالانہ 2 اعشاریہ 5 فیصد اضافہ ہوگا۔ گیس پائپ لائنز، تیل، بندرگاہیں، سڑکیں، ریل روڈ، اور آپٹیکل فائبر سمیت متعدد منصوبے مکمل کیے جاچکے ہیں اور کچھ زیر تکمیل ہیں۔

حال ہی میں، چین میں پاکستان کے سفیر، معین الحق نے کہا، “سی پیک بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کے تحت شروع کی گئی پانچ راہداریوں میں سے ایک اہم ترین فلیگ شپ پراجیکٹ ہے۔ اس کے آدھے پراجیکٹس پہلے ہی مکمل ہو چکے ہیں۔ سی پیک اس کا دوسرا جزو ہے۔ بنیادی ڈھانچہ، ہائی ویز، آبی گزرگاہیں اور پل ہیں، جو پورے پاکستان میں تعمیر کیے گئے ہیں، جو مواصلات اور سڑک کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت خصوصی اقتصادی زونز تیار کر رہی ہے اور چینی صنعتوں کی پاکستان منتقلی کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے تاکہ نہ صرف مقامی مارکیٹ بلکہ خطے میں بھی مدد ملے اور دیگر ممالک کو برآمد بھی ہو سکے۔

Advertisement

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات، احسن اقبال نے چائنا اکنامک نیٹ (سی ای این) کو ایک حالیہ انٹرویو میں کہا، “کہ سی پیک پاکستان کو چین کے بی آر آئی سے جوڑتا ہے اوربی آر آئی اور سی پیک کے ذریعے،  آسانی سے پاکستان کو عالمی سپلائی چین سے منسلک کیا جا سکتا ہے. ہم امید کرتے ہیں کہ جب ہر صوبے میں خصوصی اقتصادی زونز تیار ہوں گے تو وہ چینی صنعت کی منتقلی میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کو راغب کریں گے جس سے خطے میں روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں گے اور پاکستان کو صنعت کاری کے شعبے میں آگے بڑھنے میں بھی مدد ملے گی۔ سی پیک کے علاقائی رابطوں کے امکانات پر تبصرہ کرتے ہوئے، اقبال نے کہا، “جیسا کہ میں اسے آنے والے سالوں میں دیکھ رہا ہوں، پاکستانی اور چینی کاروباری اداروں کے درمیان زیادہ تعاون ہوگا۔ ہمیں امید ہے کہ یہ تعاون تمام شعبوں میں مکمل طور پر فروغ پائے گا اور چین اور پاکستان کے درمیان زیادہ مضبوط رابطے قائم ہوں گے۔

سی پیک کے تحت گرین ڈویلپمنٹ کے بارے میں حال ہی میں منعقدہ ایک ویبینار کے دوران، پاکستان میں چینی سفیر نونگ رونگ نے بتایا، “سی پیک کے تحت 3 سو میگاواٹ کی کل صلاحیت کے ساتھ ہوا سے بجلی کے پانچ منصوبے مکمل ہو چکے ہیں، اور 3 سو میگاواٹ کا ایک اور سولر پاور پراجیکٹ مکمل ہوچکا ہے۔سی پیک نے پاکستان میں سبز توانائی کی بنیاد پر پائیدار ترقیاتی منصوبے شروع کیے ہیں۔

سی پیک نے جنوب ایشیائی خطے میں اپنے دائرہ کار کووسیع کرنا شروع  کردیا ہے جس میں ہمسایہ ممالک  کو اقتصادی تجارتی زون کے طور پر ابھرنے کے لیے شامل کیا گیا۔ وقت بتائے گا کہ سی پیک کس طرح اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرے گا۔ مزید برآں، چین کو تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں کا ہم آہنگ امتزاج بنانے کے لیے بورڈ میں موجود تمام ممالک کی ضروریات اور خدشات کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہوگی۔

Advertisement

Next OPED