چین کے قومی یکجہتی کے لیے اقدامات
28 اگست کو امریکی جنگی بحری جہازوں کے آبنائے تائیوان سے غیر مجاز طور پر گزرنے کے خلاف چینی فوج نے کڑی چوکسی کا مظاہرہ کیا جو بیجنگ کی جانب سے اپنی علاقائی سالمیت کے تحفظ کے عزم کی ایک موزوں مثال ہے۔ پی ایل اے (پیپلز لبریشن آرمی) ایسٹرن کمبیٹ کمانڈ کے یونٹس اپنے پیشہ ورانہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی جنگی بحری جہازوں کو اپنی نگرانی میں وہاں سے لے گئے۔ پی ایل اے کی ایسٹرن تھیٹر کمانڈ کے بیان کے مطابق، کمانڈ یونٹس کسی بھی اشتعال انگیزی کے بروقت تدارک کے لیے انتہائی چوکس ہیں۔
غیر ملکی سازشوں کے باوجود بھی ذمہ داری کا ایسا اعلیٰ احساس چین کے ہر قیمت پر اپنے خودمختار مفادات کے تحفظ کے لیے ظاہر کردہ عزم سے منسلک ہے۔ یہ صورتحال ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئی جب بیجنگ کے بارہا انتباہ کے باوجود امریکہ آبنائے تائیوان کے حساس خطے میں “آزادانہ گشت” کے نام پر مُداخلت جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیکن وہ اس بات کو سمجھ لے کہ مُتعدد چین مخالف عناصر اور تائیوانی علیحدگی پسندوں کے خلاف بیجنگ کی تعزیری پابندیاں پہلے ہی واضح کر چکی ہیں کہ خطے میں غیرملکی مُداخلت کا صرف ایک ہی انجام ہوگا اور وہ یہ کہ، مُتحدہ چین کا اُصول اور پُرامن یگانگت غالب رہیں گے۔
16 اگست کو چین نے “تائیوان کی آزادی” کے حامیوں اور ان کے خاندانوں کے چین میں داخلے اور اُن سے مُنسلک اداروں اور کاروباری کمپنیوں کو تجارت اور کسی قسم کے لین دین کو ممنوع قرار دیتے ہوئے اُن کے خلاف قانونی پابندیوں کا اعلان کیا۔ جب برطانیہ میں چینی سفیر ژینگ زیگوانگ نے آزادی پسندوں کی پیغام رسانی کے خلاف چین کے جوابی اقدامات کا مضبوط دفاع کرتے ہوئے برطانیہ کو مُتحدہ چین کے اُصول کی خلاف ورزی پر دوطرفہ تعلقات میں سنگین نتائج سے خبردار کیا تو تب بھی یہ پابندیاں موجود تھیں۔ واشنگٹن کو بھی الگ سے متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر اس نے تائیوان کے سوال پر تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا تو یہ “کشیدگی کے ایک اور دور” کو تقویت دے گا۔
اسی طرح یہ چین کے سفارتی شراکت داروں کے بُنیادی مفاد میں ہے کہ وہ تائیوانی علیحدگی پسندوں پر عائد تعزیری پابندیوں سے صحیح سبق حاصل کریں، اور یہ سمجھ لیں کہ “تائیوان کی آزادی” کی کوئی بھی قوت قانون کی آہنی گرفت سے کبھی نہ بچ پائے گی۔
سب سے پہلے، علیحدگی پسندوں کے چین اور اہم خصوصی انتظامی خطوں میں داخلے پر پابندی امریکی خواہشات پر واضح کرتی ہے کہ علیحدگی پسندوں کے خاتمے کے لیے چین کے پاس عین مُناسب اقدامات کی کوئی کمی نہیں ہے۔ چینی پابندیوں کے پیچھے کارفرما حقیقت پر غور کریں، کچھ سخت گیر اپنے قومی اتحاد کے جذبے کے دفاع میں چین کے جائز اقدامات کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ یہ پیش رفت علیحدگی پسندوں کے خلاف چین کی سخت پابندیوں کے اسباب اور طویل مدتی امن و استحکام کو خطرے میں ڈالنے والی “بیرونی طاقتوں سے گٹھ جوڑ کے لیے” حد سے آگے بڑھ جانے والے عناصر کی نشاندہی میں سزاؤں کے کلیدی کردار کو نُمایاں کرتی ہے۔ سفارتی نقطہ نظر سے، پابندیاں اس نظریے کی توثیق بھی ہیں کہ تائیوان کا سوال ایک “بڑا اُصولی مسئلہ” ہے اور جب بیجنگ کی مُقررکردہ حدود کی بات کی جائے تو اس میں “کوئی غلط حساب” نہیں ہونا چاہیے۔
پابندیوں کی مزید افادیت پر، بشمول “جمہوریت کی بُنیاد تائیوان” کے صدر اور”انٹرنیشنل کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ فنڈ” کے سیکرٹری جنرل پر عائد پابندیوں کے حوالے سے میں ان کی تاثیر کی بنیاد دو پہلوؤں پر رکھ سکتا ہوں۔ پہلا یہ کہ یہ پابندیاں “ہدف کے لحاظ سے” تخلیق کی گئی ہیں جن کے چین یا تائیوانی خطے پر کوئی نقصان دہ اثرات نہیں ہیں۔ اس حقیقت پر غور کریں کہ ان پابندیوں کا نفاذ سخت گیر علیحدگی پسندوں کے ساتھ ساتھ مخصوص تنظیموں کے لیے “زندگی بھر کا احتساب” ہے جو طویل عرصے سے “آزادی کی حامی” مہم میں سہولت کاری کے قصوروار پائے گئے ہیں۔ اس طرح یہ اس عزم کا واضح احساس ہے کہ چین کن سخت گیر علیحدگی پسند عناصر کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اسی اثناء میں، یہی پابندیاں مُستقبل میں “کسی بھی شکل میں” علیحدگی پسند سرگرمیاں ظاہر ہونے پر بیجنگ کو پیشگی اقدامات کے لیے وُسعتِ نظر بھی فراہم کرتی ہیں۔
ان پابندیوں کی اثراندازی کی دوسری دلیل قانون کی حکمرانی سے مطابقت رکھتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مادر وطن کی یکجہتی چین کے آئین کی ابتدا میں محفوظ ہے۔ آزادی کے حامی علیحدگی پسندوں کے تاحیات احتساب کو ٹھوس شکل دے کر یہ پابندیاں اسی آئینی روح پر استوار ہیں۔ یکجہتی کے اہداف اور قانونی جوابی اقدامات کے درمیان نتیجہ خیز ہم آہنگی “آزادی کی حامی” قُوتوں (اور بیرون ملک موجود خاموش حامیوں) کو چین کی اس کے تمام داخلی اُمور پر مکمل خودمختاری، خاص طور پر تائیوان کے سوال اور اس کی قانونی بنیادوں کے حوالے سے ایک مناسب یاد دہانی بھیجتی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائناکی سینٹرل کمیٹی کے تائیوان آفس کے ترجمان نے اِس عزم کا اظہار کیا، “ہم تائیوان کی آزادی کے سخت گیر علیحدگی پسندوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ مزید غلط راستے پر چلنے سے گریز کریں۔ کوئی بھی فرد جو جان بوجھ کر قانون کو چیلنج کرے گا اسے سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔”
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تائیوان فاؤنڈیشن فار ڈیموکریسی کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ فنڈ کے منظورشدہ عہدیداروں کو بھی کٹھن وقت کا سامنا تھا۔ علیحدگی پسندوں سے ان کی مُستقل قُربت، چین کے انتباہات پر عمل کرنے سے انکار اور بیرون ملک مقیم آزادی کے حامی عطیہ دہندگان کے ساتھ کم اہم روابط، آبنائے تائیوان کے ماحولیاتی نظام کے استحکام کو درپیش خطرے کے بارے میں تمام شکوک کو دور کرتے ہیں۔ یہ بیرونی قوتوں کے ساتھ مُسلسل ملی بھگت ہی ہے جس کے سبب ہر قسم کی علیحدگی پسند پیغام رسانی کے خاتمے اور آبنائے تائیوان خطے کے درمیان تعلقات میں قومی تجدید کی اہمیت اور مرکزیت کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
حتمی طور پر، سخت گیر علیحدگی پسندوں پر چین کی تعزیری پابندیاں اور بیرون ملک تازہ سفارتی انتباہات کا اجرا، ایک بنیادی نکتے کو واضح کرتا ہے کہ علیحدگی پسند اشتعال انگیزیوں کا مُقدر دیوار سے ٹکرا کر پاش پاش ہونا ہی ہے اور بیجنگ کے جواب دینے کے عزم کو کبھی کم نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
مُصنف خارجہ اُمور کے مُبصر اور فُل برائٹ ایوارڈ یافتہ ہیں۔






