محمد عمر افتخار

11th Sep, 2022. 09:00 am

افغانستان میں مسلسل تشدد

افغانستان کا تیسرا سب سے بڑا شہرہرات اس وقت جنگ زدہ علاقے میں بدل گیا جب گزشتہ ہفتے نماز جمعہ کے دوران ایک مسجد کے باہر بم دھماکہ ہوا جس میں طالبان کے حامی ممتاز عالم دین مجیب الرحمن انصاری سمیت دیگرافراد ہلاک ہو گئے۔  گورنرہرات کے ترجمان حمید اللہ متوکل نے واقعے پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کم از کم اٹھارہ افراد ہلاک اور 23زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔

یہ حملہ خودکش حملہ بتایا جاتا ہے۔ پولیس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خودکش حملہ آور نے اس وقت عالم دین مجیب الرحمن انصاری  کے ہاتھ کو بوسہ دیا جب وہ بم دھماکے سے قبل نماز جمعہ کی امامت کے لیے  مسجد گزرگاہ پہنچے تھے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ملک کے بہادر اور بارسوخ عالم کو ایک بہیمانہ اور بزدلانہ حملے میں شہید کر دیا گیا۔

اس حملے میں  دولت اسلامیہ گروپ کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔ دولت اسلامیہ نے اس سے قبل 11 اگست 2022ء کو ایک دھماکے میں رحیم اللہ حقانی کو ہلاک کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ بمبارنے دھماکہ خیز مواد مصنوعی ٹانگ میں چھپارکھا تھا جسے اس نے اڑا دیا۔ اس خود کش دھماکے میں شہید ہونے والے عالم دین طالبان اور خواتین کی تعلیم کے حامی تھے۔

مجیب الرحمن انصاری نے کھل کر امریکی حمایت یافتہ حکومتوں پر تنقید کی تھی جنہوں نے افغانستان میں مغربی فوجیوں کی تعیناتی کی اجازت دی تھی۔ امریکی سرپرستی کی حامل حکومت نے اگست 2021ء میں افغانستان چھوڑ دیا تھا اور توقع کی جا رہی تھی کہ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد دہشت گردی کی نئی لہر پہلے سے جنگ زدہ ملک کو لپیٹ میں لے گی۔ طالبان کے مطابق، ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے افغانستان کی سیکیورٹی میں بہتری آئی ہے، تاہم اس میں دوران نماز مساجد میں ہونے والے دھماکوں کو شامل نہیں کیا گیا ۔

ایک افغان صحافی اور سیاسی تجزیہ کار، لطف اللہ لطف کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں، کوئی بھی مذہبی اسکالر اس نوع کے حملوں کا ممکنہ ہدف ہے  جسے ملک بھر میں حمایت حاصل رہی ہو یا اس نے حکومت کی حمایت کی مصر نے حالیہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرین کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔

Advertisement

افغانستان 2022ء سےاس نوع کے بم دھماکوں کی زد میں ہے۔ قبل ازیں 22 جنوری 2022ء کو ہرات میں ہونے والے ایک دھماکے میں ایک منی وین تباہ ہو گئی تھی۔ اس دھماکے کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ دولت اسلامیہ نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ 19 اپریل 2022ء کو کابل میں متعدد بم دھماکوں میں ہزارہ شیعہ برادری کو نشانہ بنایا گیا۔ ان بم دھماکوں میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور بچوں سمیت گیارہ کے قریب زخمی ہوئے۔ یہ دھماکے عبدالرحیم شہید ہائی اسکول اور ممتاز ایجوکیشن سینٹر کے قریب  ہوئے۔ 5 اگست 2022ء کو شیعہ مسلمانوں کے ایک مذہبی اجتماع میں بم دھماکے میں آٹھ افراد ہلاک اور اٹھارہ زخمی ہوئے۔ اس واقعے کے پیچھے دولت اسلامیہ  کے دہشت گرد گروپ کا ہاتھ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ 22 اپریل 2022ء کو شمالی افغانستان کے صوبہ قندوز میں خانقاہ ملاوی سکندر کی مسجد میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 30 افراد ہلاک اور ایک درجن سے زائد زخمی ہو گئے۔ 17 اگست 2022ء کو شمالی کابل میں ابو بکر صدیق مسجد میں نمازمغرب کے دوران ایک اور بم دھماکا ہوا۔ اس دھماکے میں شہید ہونے والوں میں مرنے والوں میں مسجد کے امام ملا امیر محمد کابلی بھی شامل تھے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے اس بم دھماکے پر تبصرہ کیا کہ ہم کابل کی ایک مسجد میں ہونے والے کل کے حملے کی مذمت کرتے ہیں، جو بم دھماکوں کے ایک پریشان کن سلسلے کا تازہ ترین واقعہ ہے جس میں حالیہ ہفتوں میں 250 سے زائد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں، جو کہ گزشتہ سال کے دوران شہریوں کی ماہانہ ہلاکتوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی زیر قیادت فوجیوں کے انخلاء سے چند ماہ قبل، مغربی صوبہ ہرات 12 مارچ 2021ء کو ایک دھماکے سے لرز اٹھا تھا۔ بارود سے بھری ایک وین ایک پرہجوم علاقے میں پھٹ گئی جس میں پچاس سے زائد افراد زخمی اور سات افراد ہلاک ہو گئے۔ اس وقت کے افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اس حملے کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرایا تھا۔

افغانستان کی حکومت کو حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے تناظر میں اپنے سکیورٹی آلات کی حکمت عملی از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہوگی۔ ملک کو پہلے بے پناہ جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ علاقائی ممالک اور بڑے پیمانے پر دنیا سے کئی دہائیوں پیچھے ہے۔

کونسل آن فارن ریلیشنز(CFR)  کی ایک رپورٹ کے مطابق، طالبان 20 سال کی شورش کے بعد 2021ء میں اقتدار میں واپس آئے۔ رپورٹ میں، سی ایف آر کے ایڈیٹر لنڈسے میزلینڈ کا کہنا ہے کہ طالبان افغانوں کے شہری اور سیاسی حقوق کے لیے خطرہ ہیں جو کہ امریکی حمایت یافتہ حکومت کے بنائے ہوئے آئین میں درج ہیں۔ دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے، طالبان نے ایسے اقدامات کیے ہیں جو 1990ء کی دہائی کے اواخر میں ان کے ظالمانہ دور حکمرانی کی یاد دلاتے ہیں۔

ملک میں خواتین کی حالت زار کے بارے میں بات کرتے ہوئے، انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دی ہے۔ خواتین نے اپنے حقوق سلب ہوتے دیکھے ہیں۔ طالبان نے زیادہ تر لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول جانےاور ملک بھر میں خواتین کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔

Advertisement

افغان حکومت کو طالبان کے ساتھ مل کر دولت اسلامیہ کے خطرے کو بے اثر کرنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ دنیا نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے جو انسانی حقوق کے شعبے میں عدم پیش رفت کی وجہ سے ختم ہو گئی ہے۔ جنوبی ایشیا کے علاقائی ممالک کو افغانستان کے ساتھ مل کر حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دولت اسلامیہ کے اثرات کو کم  اور اس کے خطرے کو محدود کیا جا سکے۔

افغانستان کی موجودہ حکومت کو اس حکمت عملی کو قابل عمل بنانے کی جانب پیشرفت کرنی چاہیے جو انہیں دولت اسلامیہ سے ایک قدم آگے لے جائے۔ اس سے افغان حکومت مستقبل میں دولت اسلامیہ کے منصوبوں کو شکست دینے کے لیے ایک حکمت عملی پر مبنی منصوبہ بناسکے گی۔ اگر دولت اسلامیہ  کے خطرے کو  محدود نہ کیا گیا اور اس دھڑے کو ختم نہ کیا گیا تو افغانستان کا مستقبل تاریک ہی رہے گا اور ریاست کا وجود بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

Advertisement

Next OPED