نجی زندگی کی حرکیات کو تبدیل کریں
دنیا کے بیش ترمعاشروں، خاص طورپرترقی پذیرممالک میں، گھرخواتین کی دنیا ہے، جب کہ سیاست مردوں کی دنیا ہے۔ اسی طرح یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستانی معیشت مردوں کا کلب ہےجب کہ خواتین گھرکے پایہ تخت کا لطف اٹھاتی ہیں۔ ہمارا ملک ثقافتی طورپرپابند ملک ہے، جہاں مزدوری کی اجرت میں خواتین کی شراکت اب بھی بہت کم ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے جاری کردہ سالانہ عالمی صنفی تفریق کے انڈیکس برائے 2022ء کے نتائج نہ توحیران کن ہیں اورنہ ہی خوشگوار۔ جہاں تک خواتین کی معاشی شراکت اورامکانات کا تعلق ہے تو پاکستان اس فہرست میں سب سے نیچے ہے، صرف ایران اورافغانستان ہم سےنیچےہیں۔ پاکستان میں خواتین کی اقتصادی شراکت داری اوربااختیاربنانے کےبارے میں اقوام متحدہ کی خواتین کی 2016ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی خواتین 4 سوارب پاکستانی روپے (2اعشاریہ 8 ارب امریکی ڈالر) کی معیشت میں 65 فیصد خواتین ہوم بیسڈ ورکرز(ایچ بی ڈبلیوز) حصہ ڈالتی ہیں۔ مردوں کے پاس خواتین سے زیادہ فیصلہ سازی کی طاقت ہے، چاہے وہ گھریلو، کارپوریٹ سیکٹر یا بڑے پیمانے پرملکی سطح پرہو۔ کم شرح خواندگی، تعلیمی سہولتوں اورآگاہی کی کمی، خراب معاشی حالت، ہنرکی کمی اورکام کرنے والی خواتین کے لیے معاشرے کےغیرمحفوظ ماحول کی وجہ سے مردوں اورخواتین کےدرمیان سماجی اقتصادی حیثیت کا فرق مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔
ہروقت سیاسی طورپردرست ہونے کی اس ضرورت، نازک مردانہ انا والے اپنے شوہرکےساتھ میری گرما گرم بحث ہوگئی جب انہوں نے رائے دی کہ معاشی بحران کو’مردانہ زنانہ مسئلہ‘ کے طورپر نہیں دیکھا جا سکتا۔ تاہم، میں نےاختلاف کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بینک اورپارک خواتین کے لیے زیادہ قابل رسائی ہوجائیں گےاگرمردوں سے اپنا کام ترک کرکے گھریلو کام سیکھنے کوکہا جائے جو کہ ویسے بھی زندگی گزارنے کیلئے ضروری ہیں۔
درحقیقت ہمارے معاشرے میں مرد معیشت سے بہت زیادہ لطف اندوز ہوتا ہیں۔ معاشی لڑائی سے بڑھ کریہ آزادیوں کے خلاف ایک سیاسی جنگ ہے اور ہمارے معاشرے میں مراعات یافتہ پاکستانی مردوں نے کافی عرصے اس کا لطف اٹھایا ہے۔ اس ثقافت کےکیوریٹرخود انحصاراورمعاشی طورپرخودمختار خواتین سے خوفزدہ ہیں۔ غالب قدامت پسند مردوں کا ایک گروہ خواتین کوترقی دینے کے بجائے پناہ دیتا ہے۔ معاشی نظام ایسے مردوں بنانے کے اہل ہیں جوخواتین کی طرف سےفراہم کی جانے والی دیکھ بھال کے حوالے سےناشکرے اور بے لگام ہوتے ہیں۔ صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے جب زیادہ تر خواتین غیررسمی معیشت میں کام کررہی ہیں کیونکہ ترقی پذیردنیا میں 95 فیصد ملازمت پیشہ خواتین غیررسمی معیشت میں کام کرتی ہیں۔ اس سے گھریلواورکام کی جگہ کے درمیان فرائض میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے جس سے دونوں طرف ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ گھرمیں زیادہ وقت دینے کا مطلب کام پران کی نااہلی میں اضافہ اوراسی طرح دوسری صورت میں بے روزگاری میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان خاص طورپراہم ہے کیونکہ اس میں جنوبی ایشیا میں خواتین کی لیبرفورس میں شراکت کی شرح سب سے کم ہے۔
پاکستان میں مرد زیادہ متحرک ہیں اوربغیرکسی پریشانی کے کسی سےبھی ملنے کے لیےعوامی مقامات پر آسانی سے رسائی حاصل کرسکتے ہیں، چاہے وہ دوست ہوں، ساتھی ہوں یا اجنبی، ڈھابے پرکھانا کھاتے ہیں یا گاڑی چلاتے ہیں۔ کوانٹم کی دوسری طرف لاتعداد خواتین کسی بھی آزادی سے لطف اندوزہونے کے قابل نہیں ہیں۔ اگرچہ مرد آسانی سے دوسرے مردوں کو ایک دوسرے کا کیریئر بنانےاورزندگی میں خوشحالی کے لیےرہنمائی کرتے ہیں، لیکن خواتین جوکام کرتی ہیں ،اس کا یا تومعاوضہ کم ہوتا ہے یا اسے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ہے،چاہے وہ مردوں سے زیادہ کارآمد یا ہنر مند کیوں نہ ہوں۔
گھریلو ملازماؤں کے ساتھ بدسلوکی کےواقعات سامنے آتے رہتے ہیں، طالبات کیا پہنیں گی اس کا فیصلہ کیا جاتا ہے، خواتین کو کام پر،عوامی مقامات پراورگھرمیں مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اوراکثر شادی کے بعد انہیں ملازمت چھوڑنے پرمجبورکیا جاتا ہے۔ مختصریہ کہ انسانوں کی دنیا میں اپنی جگہ بنانا واقعی مشکل ہے۔
خواتین اپنے لیے بمشکل ہی وقت نکال پاتی ہیں کیونکہ انہیں گھرکے فرض شناس فرد کا کردارادا کرنا چاہیے۔ کئی سال سے اس تفاوت کی وضاحت ساختی سماجی عدم مساوات پرمرکوز ہے- وہ سماجی ذمہ داریاں جن سے مرد آسانی سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ خواتین کومعاشی طورپرخود مختاربنانا ناگزیرہے کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ زندگی میں کب ان پربرا وقت آجائے۔ انہیں اچھے برے وقت کے لیے لیس ہونا چاہیے۔ کیریئرکی ترقی میں وقت لگتا ہے۔ نوکریوں کی مارکیٹ زوال کا شکارہے۔ ہرپیشہ ورعورت جس کو میں جانتی ہوں وہ دفترہویا گھرکہیں نہ کہیں مردانہ غصے سے ٹھوکرکھاتی ہے۔ بدقسمتی سے کبھی کبھی ایسا ہم جنس کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔
ہم فرض کرلیتے ہیں کہ ان صنفی کرداروں کے درمیان ایک خاموش معاہدہ ہے۔ مرد روٹی کمانے والے ہیں،عورتیں گھر بنانے والی ہیں۔خود کوخوبصوت بنا کر رکھنا اورگھر کی اچھی دیکھ بھال کیلئے خواتین کو بنایا گیا ہے۔ ہم اسے قبول کرلیتے ہیں اوراس سیٹ اپ سے مقدس اورمادی فوائد حاصل کرنے کے لیے خود کو محدود کرلیتی ہیں۔ جو لوگ اسے تفاوت کہتے ہیں ان پرسمجھوتہ نہ کرنے والے اور بے عزتی کا لیبل لگایا جاتا ہے اورانہیں ایسی جگہ رہنے کے ناقابل معافی بوجھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں غالب قوتیں جیسے رہائش، کیریئر یا مستحکم آمدنی ایک بااثر مرد کے فیصلے کا نتیجہ ہوتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی اسےمسئلے کے طورپرنہیں دیکھتے۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان یہ ان کہی مساوات بہت سے گھرانوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کے بارے میں کوئی دوسرا راستہ نہیں ہیں۔اگر خدانخواستہ کوئی عورت رسم و رواج کے خلاف جانے کی کوشش کرتی ہے تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے کیونکہ وہ اس نظام کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم اب بھی اس انتظار میں ہیں کہ خواتین پارلیمنٹ، معیشت، سیاسی معاملات، قانونی عہدوں، کارپوریٹ کرداروں وغیرہ میں ایک اہم مقام حاصل کریں۔
میں جس چیز کی امید کرتی ہوں وہ یہ ہے کہ ہمیں ایک وقت میں ایک خاندان میں تبدیلی لانے کے لیے اپنی نجی زندگیوں کی حرکیات کو تبدیل کرنا چاہیے۔ خواتین کو منصفانہ اجرت کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ مردوں کو قدم بڑھانے اور برتن دھونے کی ضرورت ہے۔ خواتین کو گاڑی چلانے کے قابل ہونا چاہیے اور مردوں پرانحصارنہیں کرنا چاہیے۔ خاندانوں کوگھریلو ملازمہ کو کم از کم اجرت ادا کرنی چاہیے۔ شوہروں کو مل کر والدین کا کام شروع کرنا چاہیے۔ ماؤں کو اپنی بیٹیوں کواس کام کے لیے اپلائی کرنے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے جو وہ کرنا چاہتی تھیں۔ ساتھیوں کو خواتین کے خیالات کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کو مردانہ عہدے ملنا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ خواتین کو دوستی اورخاندانی تعلقات میں ایک دوسرے کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔اس عدم مساوات سے نکلنے کا راستہ ہماری روزمرہ کی زندگیوں، روزمرہ کی جدوجہدسےعمومی بغاوت میں ہے، نہ کہ ایک دن کے احتجاج اور مارچ میں، نہ کہ کھوکھلے، بیہودہ نعروں میں۔






