آصف درانی

25th Sep, 2022. 09:00 am

پاک  امریکہ  ازسرِ نو تعلقات

پاکستان اور  امریکہ  کے درمیان گزشتہ چند ہفتوں میں وفود کے تبادلوں کا سلسلہ جاری ہے۔ خاص طور پر افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجیوں کے انخلاء کے بعد دو طرفہ تعلقات میں نظر آنے والے جمود کے پیشِ نظر بہت سے سوالات التوا کا شکار ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنا شروع ہو گئی ہے؟ اگر ایسا ہے تو  امریکہ  کو پاکستان کی جانب پلٹنے پر کس چیز نے اُکسایا ہے؟ دونوں ممالک کے درمیان “ازسرِ نو تعلقات” کس طرح تشکیل پا سکتے ہیں یہ آنے والے دنوں میں خاص موضوعِ بحث ہوگا۔

کورونا وبا کے باعث دو سال کے وقفے کے بعد  امریکہ  سے جنوبی ایشیائی اُمور کے کئی ماہرین پاک  امریکہ  دو طرفہ تعاون کی نئی راہیں ڈھونڈنے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں موجود تھے۔ ولسن سینٹر، اسٹمسن سینٹر، یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹیٹیوٹ فار پیس (یو ایس آئی پی) اور کوئنسی انسٹیٹیوٹ جیسے تھنک ٹینکس کے مُفکرین نے اپنے پاکستانی ہم منصبوں اور جامعات سے بڑے پیمانے پر بات چیت کی ہے۔ یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ امریکی مُفکرین خطے میں پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کرنے میں اپنی انتظامیہ سے زیادہ کشادہ ذہن ہیں۔

دو سے زیادہ مواقع پر امریکی مُفکرین نے اپنے پاکستانی سامعین کو یاد دلایا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کا افغان طالبان کی فتح پر “غلامی کی بیڑیاں توڑنے” کا بیان امریکی انتظامیہ کو ٹھیک نہیں لگا۔ پیغام میں واضح کیا گیا کہ صدر بائیڈن عمران خان سے مطمئن نہیں ہیں جبکہ نئی حکومت کے ساتھ ازسرِنو تعلقات ممکن ہیں۔ امریکی محققین نے تسلیم کیا کہ سابق صدر ٹرمپ اور موجودہ صدر بائیڈن کی پاکستان کے بارے میں ظاہر کی گئی بعض گہری غلط فہمیوں کے باوجود، سمجھداری کا تقاضا ہے کہ بھارتی یا افغانی نقطہء نظر سے دیکھنے کی بجائے پاکستان کو اِس کی اہلیت کی بنیاد پر دیکھا جائے۔

اِس بات پر زور دیا گیا کہ اگرچہ ماضی قریب میں عسکری شعبے میں تعاون کم ہوا ہے تاہم دونوں ممالک باہمی شراکت داری کی دیگر راہیں تلاش کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر دنیا بھر میں سب سے زیادہ فل برائٹ اسکالرشپ پروگرام پاکستان کو حاصل ہوتے ہیں جو پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں مؤثر طریقے سے شامل ہوں گے۔ پاکستانی طلباء امریکی جامعات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس وقت 12 ہزار سے زائد پاکستانی طلباء زیادہ تعلیمی اور دیگر اخراجات کے باوجود اعلیٰ تعلیم کے لیے  امریکہ  میں مقیم ہیں۔ تاہم چین پاکستانی طلباء کے لیے پہلی منزل بن چکا ہے۔ 2019ء میں 28 ہزار سے زیادہ پاکستانی چینی جامعات میں زیر تعلیم تھے۔ چین کا رخ کرنے والے پاکستانی طلباء کی تعداد میں اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر امریکی انتظامیہ پاکستان سے سخت رویہ اختیار کرے تو پاکستان بھی ہمیشہ متبادل راہ اختیار کر سکتا ہے۔

امریکی مُفکرین نے اعتراف کیا کہ افغانستان سے انخلاء کے بعد پاکستان ترجیحات کے نچلے زمرے میں آگیا تاہم اس کا مطلب مکمل قطع تعلق ہونا نہیں تھا۔ پاکستان کے لیے دستیاب متبادلات سے قطع نظر، دونوں ممالک کے حکام خصوصاً اُن کی اسٹیبلشمنٹ کو یہ احساس ہے کہ پاک  امریکہ  تعلقات کو مکمل طور پر قطع نہیں کیا جا سکتا۔ ماحولیاتی تبدیلی اور پانی کے انتظام جیسے شعبوں میں عالمی سطح پر نہ ہونے کے برابر تعاون (صفر اعشاریہ 8 فیصد) کے باوجود پاکستان کو درپیش مشکلات کو کم کرنے کی زبردست صلاحیت کے ساتھ اہم مسائل ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی آزاد تجارتی معاہدے (FTA)  میں شمولیت کے بغیر بھی زراعت، آئی ٹی اور خدمات کے شعبوں میں امریکی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے کی بڑی صلاحیت ہے۔ لہٰذا دُور اندیشی کا تقاضا ہے کہ تمام شعبوں میں مُستقل مشغولیات تلاش کی جائیں جو دونوں ممالک کے لیے ایک فاتحانہ صورت حال ہوگی۔

Advertisement

امریکی مشغولیات کا سب سے نمایاں پہلو جو گزشتہ ہفتے شہ سُرخیوں میں آیا اور جس پر امریکی مُفکرین نے روشنی ڈالی وہ پاکستان کو 450 ملین ڈالر کا پیکج فراہم کرنے کا امریکی فیصلہ تھا جسے پینٹاگون نے F-” طیاروں کی پائیداری اور مُتعلقہ آلات” کہا ہے۔ 2018ء میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے خلاف الزام عائد کرتے ہوئے تلخ زبان کے استعمال کہ  امریکہ  نے اُسے اربوں ڈالر “بے وقوفی” سے دیے اور بدلے صرف “جھوٹ اور دھوکا” دیا گیا، ٹرمپ انتظامیہ نے دفاعی اور سلامتی تعاون ختم کر دیا تھا، جس کے بعد یہ پاکستان کے لیے پہلا امریکی عسکری امدادی پیکج ہے۔

کوئی تعجب نہیں کہ امریکی فیصلے پر بھارتی ناراضی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے بھی سنائی دی۔ انہوں نے لکھا کہ وہ امریکی فیصلے پر اپنے امریکی ہم منصب لائیڈ آسٹن کو “تحفظات” سے آگاہ کر چکے ہیں۔ تاہم امریکی محکمہ دفاع نے F-16 پیکج پر اپنے بیان میں راج ناتھ سنگھ کے لائیڈ آسٹن سے رابطے میں بھارتی خدشات کا ذکر نہیں کیا۔ بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کی صحافی نروپما سبرامنیم کے مطابق: “جیسا کہ ہر فریق کے ساتھ مشغول ہونا “تزویراتی خودمختاری” کا مظاہرہ ہے، یعنی ایک ہفتے کواڈ تنظیم میں تعلقات مضبوط کرنا اور دوسرے ہفتے سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس میں روس اور چین سے پینگیں بڑھانا، تو بھارت اپنی مایوسی کو نگلنے کے لیے پُرعزم دکھائی دیتا ہے۔ بہرحال اگر نئی دہلی غیرمُفید حربوں سے دور رہ سکتا ہے، روس سے تیل خریدنے کے لیے مغربی پابندیوں کو نظرانداز کر سکتا ہے اور تمام اتحادوں میں دوستیاں گانٹھ سکتا ہے تو ایک غیر نیٹو اتحادی کو خوش کرنے سے  امریکہ  کو بھلا کون روک سکتا ہے؟” اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ  امریکہ  بھارت تزویراتی تعاون (اسٹریٹجک پارٹنرشپ) جلد ہی کسی بھی وقت تناؤ میں آجائے گا، تاہم یہ ضرور ظاہر کرتا ہے کہ شراکت داروں کے انتخاب میں  امریکہ  کے پاس بھارت سے زیادہ اختیارات ہیں۔

افغانستان سے امریکی انخلاء بائیڈن انتظامیہ بالخصوص اس کی عسکری اسٹیبلشمنٹ کے لیے ناخوشگوار رہا ہے۔ چونکہ دستبرداری کے فیصلے کو دو طرفہ حمایت حاصل تھی، اس لیے صدر بائیڈن نے بلا ہچکچاہٹ یہ اقدام اٹھایا۔ تاہم، رپبلکن اور ڈیموکریٹ انتظامیہ کے کئی سابق عہدیداروں کی جانب سے اِس احساس کا تاخیر سے اظہار کیا گیا کہ جب تک کہ  امریکہ  پاکستان سے تعلقات میں حائل رکاوٹوں کو دور نہیں کرتا، جغرافیائی طور پر اُسے اِس خطے سے مکمل بے دخل کیا جا چکا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ پاک چین تزویراتی تعاون (اسٹریٹجک پارٹنرشپ) وقت کی کسوٹی پر کھرا اُترا ہے لہٰذا پاکستان اب بھی چین کو مُتعدد مواقع دے گا اور یہ  امریکہ  کے لیے بے نتیجہ صورتحال ہوگی۔ پاکستان کو پابندیوں کی دھمکی دینے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ پاکستان ماضی میں سب سے زیادہ پابندیوں کا شکار اتحادی رہا ہے اور اسے تمام مشکلات سے بچنے کا تجربہ ہے۔ ایک پابند پاکستان نے مختلف مغربی ممالک میں حمایات تلاش کرنے کی بجائے عسکری اور اقتصادی شعبوں میں کافی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

تیسرا، یوکرین کی جنگ ابتدا میں امریکی انتظامیہ اور کچھ نیٹو اتحادیوں میں موجود اشتعال انگیز عناصر کے لیے سودمند ثابت ہوئی ہو گی۔ تاہم، بڑھتے جانی نقصانات و تباہی اور روس کو حاصل ہوتے بتدریج فوائد نیٹو کے خزانے پر ٹوک لگا رہے ہیں۔ بین الاقوامی حمایت کے معیار نے امریکی اور یورپی شراکت داروں کو زیادہ اعتماد نہیں دیا ہے۔ اس کے برعکس روس نے نہ صرف سفارتی طور پر فائدہ اٹھایا ہے بلکہ اس نے تیل اور گیس کی بڑھتی قیمتوں کے سبب زبردست منافع بھی حاصل کیا ہے۔ چین کو بدنام کرنے کی امریکی کوششیں الٹی ثابت ہوئیں جبکہ روس اور چین علاقائی اور عالمی سطح پر مضبوط اتحادی بن کر اُبھرے۔ سمرقند، اُزبکستان میں حال ہی میں منعقدہ ایس سی او سربراہی اجلاس نے یقیناً امریکی اور نیٹو کے تزویراتی اداروں کو کافی اشارے دیے ہوں گے کہ یہ اتحاد کتنا طاقتور ہو سکتا ہے۔

سابقہ عوامل اور پاکستان کے جغرافیائی محلِ وقوع نے ایک بار پھر اس دلیل کو تقویت بخشی ہے کہ پاکستان کے علمی اور تزویراتی حلقوں میں اکثر تبادلہء خیال کیا جاتا ہے کہ ماضی میں پاکستانی حکمران بھلے ہی ناکام رہے ہوں لیکن اس کے جغرافیے نے ہمیشہ ملک کو بچایا ہے۔ امید ہے کہ اس کے حکمرانوں کو بھی اس بات کا اِدراک ہو گا کہ بڑے معاشی مسائل کے باوجود ملک دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دریں اثناء، واشنگٹن سے ممکنہ “ازسر نو تعلقات” کو اِس مکمل احساس کے ساتھ محتاط طور پر قائم رکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک خطے میں امن کو ترجیح دیتے ہوئے غیر جانبدارانہ راستہ اختیار کرے گا۔ فوجی ساز و سامان کی فروخت کے بغیر بھی معمول کے امریکی تعلقات پاکستان کے جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی مفادات کے حق میں ہونے چاہئیں۔

Advertisement

مُصنف سابق سفیر ہیں اور فی الحال اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بطور سینیئر ریسرچ فیلو کام کر رہے ہیں

Advertisement

Next OPED