اعجاز حیدر

02nd Oct, 2022. 09:00 am

یورپ کا بڑا ہنگامہ

یوکرین کے خلاف پیوٹن کی جنگ نے یورپ کے بڑے ہنگامے میں مُحرک کا کردار ادا کیا ہے

بدھ کی شام، میں نے ایک اطالوی دوست کو یک سطری پیغام بھیجا۔ “بھائی، آپ کا جارجیو میلونی کی فتح کے بارے میں کیا خیال ہے؟” اُس نے جواب دیا، “اچھا نہیں ہے، وہ قدیم فاشزم فرقے کی نمائندہ ہیں۔ ہم توانائی کے اخراجات کے باعث شدید بحران کا سامنا کر رہے ہیں اور یہ کوئی بہت خوشگوار وقت نہیں۔ اُن کے پاس وہ قابلیت نہیں ہے جس کا مظاہرہ ماریو ڈراگی نے کیا تھا۔”

جارجیو میلونی کے عروج، اُن کے “فاشسٹ”، جن سے وہ متفق نہیں اور خود کو قدامت پسند کہتی ہیں، نظریات اور اُن کی فتح کی وجوہات اور مقاصد کے بارے میں پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اس لیے میں اِس بحث میں نہیں جاؤں گا۔ وہ حصولِ اقتدار کے لیے جدوجہد کرنے والی اور/ یا کامیاب ہونے والی انتہائی دائیں بازو کی پہلی رہنما بھی نہیں ہیں۔ ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان بھی ایسے ہی رہنما ہیں۔ اوربان کے یورپی یونین سے کئی تنازعات ہوئے ہیں اور تازہ ترین تنازع روس کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں کے حوالے سے ہے۔

فرانس کی میرین لی پین اور ان کی جماعت نیشنل فرنٹ (جب سے ریسمبلمنٹ نیشنل کا نام دیا گیا ہے) یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے لیے ایک روشن استعارہ ہیں۔ لی پین نے 2012ء، 2017ء اور 2022ء میں فرانس کے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا۔ اگرچہ فرانسیسی رائے دہندگان نے اُن کی پذیرائی سے انکار کر دیا ہے تاہم اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اُن کی جماعت پر روسی اثر و رسوخ کا الزام لگائے جانے کے بعد، جوابی اقدام کے طور پر گزشتہ بدھ کو اُن کی جماعت نے سیاسی جماعتوں پر غیرملکی اثر و رسوخ کا جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کے لیے تحریک پیش کی۔

تقریباً ہر یورپی ملک میں اب انتہائی دائیں بازو کی موجودگی پائی جاتی ہے اور ایسی بہت سی جماعتیں اب تک اپنی اپنی ریاستوں میں حکومتیں بنانے کے لیے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچنے میں ناکام رہی ہیں، اُن کے بین الریاستی روابط قائم ہیں چاہے وہ قوم پرستانہ ہوں، تحفظ پسندانہ ہوں، یورپی (سفید فام) نظریات کے حامل ہوں، جسے کچھ مبصرین “ہمارے لوگوں’ کی نسلی پاکیزگی کا افسانہ” کہتے ہیں۔

Advertisement

یہ کسی حد تک ستم ظریفی ہے کہ یوکرین کے خلاف پیوٹن کی جنگ نے یورپ کے بڑے ہنگامے میں مُحرک کا کردار ادا کیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جنگ کسی نہ کسی طرح اِس کی وجہ بنی ہے۔ درحقیقت، کچھ وجوہات کی بنا پر پیوٹن کی جارحیت، ایک مختصر وقت کے لیے یورپ کو اکٹھا کرتے اور یورپی شکوک و شبہات کو پیچھے دھکیلتے نظر آئی۔ تاہم جیسا کہ جنگ آگے بڑھی ہے اور ممکنہ طور پر 2023ء تک آگے بڑھے گی، ابتدائی سطحی اتحاد میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔ لیکن آئیے اِس سوچ پر کچھ دیر روشنی ڈالتے ہیں۔

یورپی اُمور کے زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یورپ بھر میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں اور جذبات کے عروج کے متعدد اسباب، معاشی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی ہیں۔ کچھ لوگ اسے 2008ء کے معاشی بحران کے نتائج سمجھتے ہیں۔ دیگر کا ماننا ہے کہ اس صورت حال کو یورپی یونین (اور قومی حکومتوں) کی جانب سے “آزادانہ تجارتی خسارے پر قابو پانے اور کفایت شعاری اقدامات” کے حصول سے تقویت ملی۔ جیسا کہ ایک تجزیہ کار نے لکھا ہے، “اس طرح کی معاشی پالیسیاں مراعات یافتہ طبقے اور عوام کے درمیان فرق کو بڑھاتی ہیں اور اس طرح دائیں بازو کے نظریات کو پیچھے رہ جانے والے عوام کی بے چینی کو کم کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔”

ایک بار پھر، ستم ظریفی یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکا اور نیٹو کی جنگوں نے مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقا (MENA) کے خطے سے کئی سرحدوں کو عبور کرکے مشرقی، جنوبی اور یہاں تک کہ مغربی یورپ میں آنے والے پناہ گزینوں کے لیے مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔ نیٹو کی پیدا کردہ اس پیش رفت نے انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست اور نسل پرست نظریات کو بھی تقویت بخشی ہے۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقا (MENA)  کے خطے سے پناہ گزینوں کی طے شدہ آمد (بیلنسڈ امیگریشن) کی یورپ نے حوصلہ افزائی کی کیونکہ یورپی آبادی جمود کا شکار ہے۔ 2012ء کی ایک کتاب، Migration from the Middle East and North Africa: Past Developments, Current Status and Future Potentials میں دلیل دی گئی، “یہ واضح دکھائی دیتا ہے کہ  یورپی یونین کی 27 ریاستوں (یہ کتاب 2013ء میں کروشیا کے یورپی یونین کا رکن بننے سے پہلے شائع ہوئی تھی) کو آنے والی دہائیوں میں جن زبردست تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اُن میں توازن کے لیے پناہ گزینوں کی آمد (امیگریشن) کی ضرورت ہوگی، اور اِن تبدیلیوں کے عمل کو روکنے کے لیے پناہ گزینوں کی آمد ایک مناسب ذریعہ معلوم ہوتی ہے۔”

اِس کتاب کی ترمیم شدہ جلد میں یہ دلیل بھی دی گئی کہ مشرقی یورپ، جو روایتی طور پر زیادہ مُتموّل مغربی یورپ کو مزدور قوّت فراہم کرتا ہے، “آنے والے دور میں تین وجوہات کی بنا پر ان خلا کو پُر نہیں کر سکے گا۔ ایک، اِس خطے کی زیادہ تر ریاستیں اب یورپی یونین کی رکن ہیں، دوسری وجہ مشرقی یورپ کی معیشتیں مغربی یورپ سے باہم مل رہی ہیں، بعض صورتوں میں تو غیرمعمولی رفتار سے اور تیسری مگر حتمی نہیں، کہ اُن کی آبادی میں مغربی یورپ کی طرح کم شرحِ پیدائش اور ہجرت کے باعث کمی واقع ہو رہی ہے۔”

اِس کے ساتھ بہت سی یورپی ریاستیں “خاندانوں کی امداد کے اقدامات متعارف کرانے اور بچوں کی دیکھ بھال کی سہولیات کی تعداد میں اضافہ کر کے اپنی آبادی میں اضافے کی کوشش کر رہی ہیں۔” ایک بار پھر، یہ معاملہ انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی دلچسپی کا محور ہے جو امیگریشن پر پابندی کا مطالبہ کرتی ہیں، خاندانی اقدار (اور خاندانوں کی بڑی تعداد) پر زور دیتا ہے اور اسقاطِ حمل کے خلاف بحث کرتی ہیں۔

یہ وہ اُبھرتا ہوا منظر نامہ تھا اور ہے، جس میں پیوٹن داخل ہوئے ہیں۔ زیادہ تر اندازوں کے مطابق، پیوٹن کی جنگ اُس طرح سے نہیں چل رہی ہے جس طرح اُنہوں نے اور اُن کے منصوبہ سازوں نے سوچا تھا۔ یوکرین نے جوابی جنگ لڑی ہے اور جبکہ اِسے امریکا اور نیٹو اتحادیوں کی طرف سے بھاری ہتھیاروں سے لیس کیا جا رہا ہے اور فوجی تربیت فراہم کی جا رہی ہے، کسی کو بھی یوکرینی فوج اور رضاکاروں کو ایک ایسے مخالف کے خلاف سخت مزاحمت کرنے کا سہرا دینا چاہیے جسے غیرمتناسب فائدہ حاصل تھا (اور اب بھی ہے)۔

Advertisement

یوکرینیوں نے شمال اور شمال مشرق میں کچھ مقبوضہ علاقے دوبارہ حاصل کر لیے ہیں۔ جنوب میں ایسا کرنا ممکنہ طور پر زیادہ مشکل ہوگا۔ تاہم جوابی کارروائی نے پیوٹن کو جزوی طور پر متحرک ہو کر مزید فوج میدان میں اُتارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اُنہوں نے قازقستان، جارجیا اور آرمینیا کی سرحدوں سے ہزاروں روسی مرد فوجیوں کو محاذِ جنگ پر بھیج دیا ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ کم از کم وہ لوگ جو اِس فہرست میں شامل ہونے سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ پیوٹن کے لیے مرنے میں خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔

اِن مشکلات اور ناکامیوں کے باوجود صدر پیوٹن کے پاس اب بھی کھیلنے کے لیے پتّے موجود ہیں۔ اُنہوں نے یورپ کو سخت سردی سے خبردار کیا اور وہ اُسے کوئی چکمہ نہیں دے رہے تھے۔ جس دوران یورپی حکومتیں مُتبادل ذرائع تلاش کرنے کی کوشش میں اِدھر اُدھر بھاگ رہی ہیں تب ہی ذرائع توانائی یعنی تیل اور اِس سے بھی اہم گیس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

فارن پالیسی میں شائع ہونے والے ایک حالیہ مضمون جس کا عنوان ہے “پیوٹن کی توانائی کی جنگ یورپ کو توڑ رہی ہے”، کہتا ہے کہ “یورپ بھر میں فیکٹریاں، کاروبار اور خاندان بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ براعظم کو قدرتی گیس کی فراہمی پر روسی ناکابندی قیمتوں کو آسمان پر پہنچا رہی ہے جس نے ایک سخت اقتصادی بحران کو جنم دیا ہے جو یوکرین میں روسی جنگ کے بارے میں یورپی یکجہتی کو آزما رہا ہے اور آنے والی کساد بازاری کے خدشات کو ہوا دے رہا ہے۔”

یکجہتی کی آزمائش یہاں کلیدی نکتہ ہے۔ پیوٹن اِس نکتے سے بخوبی واقف ہیں اور اِسی پر سارا زور صرف کر رہے ہیں۔ “برطانیہ، مالڈووا، جرمنی، آسٹریا اور اٹلی میں پہلے ہی عوامی مایوسی عروج پر ہے، کیونکہ توانائی کی آسمان کو چھُوتی قیمتوں پر مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں اور وسیع تر بےامنی کے خدشات کو ہوا مل رہی ہے۔ پراگ میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف ستمبر کے اوائل میں “چیک رپبلک فرسٹ” نامی مظاہرے میں حکومت سے عظیم تر اقدامات کا مطالبہ کرنے کے لیے تقریباً 70 ہزار افراد سڑکوں پر نکل آئے۔

جرمنی میں توانائی کمپنیاں “دیوالیہ ہونے کے قریب” ہیں اور حکومت کو اِنہیں بچانے کے لیے قومیانا پڑ سکتا ہے۔ جنگ کا مُحرکاتی اثر، جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، اہم ہے کیونکہ مصیبت کے دوران موجود خامیاں گہری ہونے لگتی ہیں۔

یہ ایک مثالی منظرنامہ بھی ہے، ایک بڑا ہنگامہ جس میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور وہ اپنے مقاصد آگے بڑھائیں گی۔ پیوٹن کی جنگ کی اہمیت یورپی معاشروں کی معاشی اور سماجی و سیاسی بنیادوں میں موجود دراڑوں کو سامنے لانے میں مُضمر ہے۔ اور جیسا کہ ایمیل سمپسن نے “War From the Ground Up” میں دلیل دی کہ جنگیں اکثر “واحد اکائیاں” نہیں ہوتیں۔ پہلی یا دوسری جنگِ عظیم کی اصطلاحات ہمیں یہ احساس دلاتی ہیں کہ وہ واحد اکائیاں تھیں مگر ایسا نہیں تھا، اُن میں بہت سی جنگیں تھیں۔ جیسا کہ ہیو اسٹریچن نے “Strategy and the Limitation of War” میں دلیل دی ہے، “ہر عامل نے اپنے مقاصد کے لیے اپنی ‘جنگ’ لڑی۔”

Advertisement

یہ جنگ کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ روس کے اپنے مقاصد ہیں، یوکرین یقیناً روسی مقاصد کے خلاف جوابی کارروائی کرتا ہے۔ امریکا، نیٹو، یورپی یونین کے مفادات میں کچھ ہم آہنگی ہے، تاہم یورپ میں اس بات پر بھی اختلافات ہیں کہ روس کو کس حد تک دھکیلنا ہے اور وہاں سے باہر نکالنا ہے، اور یوکرین کی کس قدر حمایت کرنی ہے۔ اِن مجموعی حالات میں قوم پرست حکومتیں کساد بازاری، توانائی کی بلند قیمتوں، گرتی ہوئی متعلقہ آمدنیوں اور اندرونی انتشار سے نمٹ رہی ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر، جنگ متعدد طبقات پر اثر ڈال رہی ہے، اُنہیں متاثر کر رہی ہے اور یورپ بھر میں ریاستوں اور معاشروں میں موجود متعدد عوامل اِس کی ترجمانی کر رہے ہیں۔

جب مغربی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقا (MENA) کا خطہ امریکا کی جانب سے شروع کردہ جنگوں میں الجھا ہوا ہے، یہ آگ اب یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ جرمن فلسفی “ایمانوئیل کانٹ” کے نظریے پر مُشتمل”دائمی امن” کا یورپی تجربہ کب تک اُن قُوّتوں کو زندہ رکھ پاتا ہے جو پہلے سے ہی نسلی قوم پرستانہ سوچ کی جانب تیزی سے بڑھتے یورپ میں اِس جنگ کا ممکنہ سبب ہیں۔

مُصنف سلامتی اور خارجہ پالیسیوں میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ہیں

Advertisement

Next OPED