ڈار کی واپسی ۔۔ مُفید یا زہرِ قاتل؟
اسحاق ڈار کی تقرری کا اعلان ہوتے ہی امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر بڑھنے لگی
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما اسحاق ڈار کے وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کا اعلان ہوتے ہی امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر بڑھنے لگی۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد سے روپیہ گراوٹ کا شکار ہے، گزشتہ چھ ماہ میں ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 56 روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اگرچہ ڈالر کی آمد، خاص طور پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے، کی خبریں آنے پر اِس گراوٹ کے رجحان کو وقفے وقفے سے روک دیا گیا تھا، لیکن انٹربینک ریٹ 240 روپے کی سطح کو چھُونے کے بعد روپے کی قدر گر گئی۔ ڈار کو نہ صرف معیشت کی بحالی اور افراطِ زر کی شرح میں کمی کی اہم ترین ذمے داری کا سامنا ہے بلکہ اُنہیں اس بات کو بھی یقینی بنانا ہو گا کہ پاکستانی حکومت غیرملکی و ملکی سرمایہ کاروں اور غیرملکی قرض دہندگان کا اعتماد بحال کرنے کے قابل ہو۔ سیلاب کے بحران کے باعث اِن مشکلات میں مزید اضافہ ہو چکا ہے جو حکومت کو برباد انفراسٹرکچر کی تعمیرِ نو اور متاثرین کی بحالی کے لیے خاصے فنڈز دینے پر مجبور کرتی ہیں۔
سب سے پہلے موجودہ معاشی حالات پر غور کریں۔ چونکہ ڈار پاکستانی روپے کی شرحِ تبادلہ کو ایک خاص قدر پر مستحکم رکھنے کے حامی رہے ہیں، اس لیے اُنہیں امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے خلاف دفاع کے لیے نہ صرف غیر ملکی کرنسی کے معمولی ذخائر کو استعمال کرنے کی ضرورت ہو گی، بلکہ کرنسی مارکیٹ میں زیرِ گردش قیاس آرائیوں کا بھی خاتمہ کرنا ہو گا۔ اُن کے پاس غیرملکی کرنسی کے کافی ذخائر ہونے چاہئیں جو 2 ستمبر 2022ء کو آئی ایم ایف سے قسط ملنے کے بعد بڑھ کر 8 اعشاریہ 8 بلین امریکی ڈالر ہو گئے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس 16 ستمبر 2022ء کو غیرملکی زرِمبادلہ کے ذخائر تقریباً 8 اعشاریہ 35 بلین امریکی ڈالر تھے جو 26 اگست 2022ء کو 7 اعشاریہ 7 بلین امریکی ڈالر کی سطح پر آگئے تھے۔ اگست 2021ء میں زرِمبادلہ کے ذخائر 20 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئے تھے جو اطلاع کے مطابق اب تک کی سب سے زیادہ رقم ہے۔
جولائی 2022ء میں حقیقی مؤثر شرحِ تبادلہ (REER) 93 اعشاریہ 2 بتائی گئی۔ حقیقی مؤثر شرحِ تبادلہ (REER)کسی ملک کی کرنسی کی قدر کی اوسط سے نکالی جاتی ہے۔ اگر یہ 100 سے زیادہ ہے تو اِس سے واضح ہوتا ہے کہ کرنسی کی قدر زیادہ ہے، جبکہ 100 سے کم ہونے کا مطلب ہے کہ کرنسی کی قدر کم ہے۔ پاکستان میں جون 2021ء سے حقیقی مؤثر شرحِ تبادلہ 100 سے نیچے ہے۔ حقیقی مؤثر شرحِ تبادلہ عام طور پر پی ٹی آئی حکومت کے تمام دور میں 100 سے نیچے تھا، یہ صرف چند مہینوں میں 100 سے قدرے اوپر تک بڑھ گیا تھا۔ دوسری جانب اسحاق ڈار کے گزشتہ دورِ حکومت میں حقیقی مؤثر شرحِ تبادلہ 100 سے کافی اوپر بتائی گئی تھی۔
بین الاقوامی تجارت کے اعداد و شمار پر غور کریں تو اگست 2022ء میں پاکستان کی برآمدات تقریباً 2 اعشاریہ 5 بلین ڈالر تھیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سالانہ 10 اعشاریہ 5 فیصد اضافہ اور ماہانہ 10 اعشاریہ 1 فیصد اضافہ۔ دوسری جانب درآمدات 7 اعشاریہ 7 فیصد سالانہ کمی اور 21 اعشاریہ 6 فیصد ماہانہ اضافے کے ساتھ 6 اعشاریہ 1 بلین ڈالر رہیں۔ مالی سال 2023ء کے پہلے دو ماہ میں تجارتی خسارہ 6 اعشاریہ 3 بلین ڈالر تھا، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریباً 16 اعشاریہ 4 فیصد کم ہے۔ مالی سال 2022ء میں درآمدات میں تقریباً 42 فیصد جبکہ برآمدات میں 25 اعشاریہ 6 فیصد اضافہ ہوا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق مالی سال 2022ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17 اعشاریہ 3 بلین ڈالر تھا جبکہ مالی سال 2021ء میں یہ صرف 2 اعشاریہ 8 بلین ڈالر تھا۔ درآمدات میں اضافے، بنیادی طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے، نے پالیسی سازوں کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ انہوں نے درآمدات کو کم کرنے کے لیے ایسے اقدامات کیے جن سے زرِمبادلہ کا اخراج محدود ہونے کا امکان نہیں تھا۔ جب ایسے اقدامات نافذ کیے جاتے ہیں تو درآمد کنندگان اکثر اپنے کاروبار کو چلانے کے لیے دیگر غیر رسمی ذرائع تلاش کر لیتے ہیں جس سے زرِمبادلہ کے ذخائر پر مزید دباؤ پڑتا ہے۔
اس حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج، جیسا کہ حالیہ برسوں میں تمام حکومتوں کے لیے رہا ہے، پاکستان سے برآمدات کی کم سطح کو بڑھانا ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ دور حکومت میں ڈار کی پالیسیوں نے برآمدات میں اضافے کی حمایت نہیں کی ہو گی کیونکہ وہ شرحِ تبادلہ کا تعین کرنے کے لیے اپنی پالیسیوں میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھا رہے تھے۔
جیسا کہ بزنس کانفیڈنس سروے کی اطلاعات کے مطابق، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA)کراچی کے درمیان ایک مشترکہ کوشش، جون 2022ء میں کاروباری اعتماد میں کمی کو نُمایاں کرتی ہے۔ کاروباری اعتماد جون 2021ء میں 64 کی بلند ترین سطح سے گر کر جون 2022ء میں 42 تک پہنچ گیا جو اطلاعات کے مطابق اپریل 2022ء میں 55 سے کم ہو گیا تھا۔ موجودہ اور اگلے چھ ماہ میں متوقع کاروباری اعتماد دونوں ہی 50 سے نیچے ہیں جو معاشی حالات کے بارے میں کاروباری برادری کے منفی تاثرات کو ظاہر کرتا ہے۔ افراطِ زر کی توقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے جبکہ روزگار کے مواقع کے بارے میں تاثرات کم ہوئے ہیں۔ صلاحیت کا استعمال بھی کم ہو رہا ہے کیونکہ کاروبار بے پناہ مشکلات کے سبب محدود ہو رہے ہیں۔ یہ بٹے ہوئے اعداد و شمار اقتصادی پالیسی سازوں کے لیے گہری تشویش کا باعث ہیں۔
اپنے گزشتہ دور میں ڈار ایک فکس ایکسچینج ریٹ برقرار رکھتے ہوئے مہنگائی اور شرحِ سود کو نچلی سطح تک لے آئے تھے۔ ورلڈ ڈیولپمنٹ انڈیکیٹرز (WDI) سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، 2013ء اور 2017ء کے درمیان سرکاری شرحِ مبادلہ کی مدتِ اوسط (PKR/USD) 101 اعشاریہ 63 سے 105 اعشاریہ 46 پاکستانی روپے تھی۔ مہنگائی کی شرح 2015ء میں 2 اعشاریہ 5 فیصد اور 2018ء میں 5 اعشاریہ 1 فیصد تھی۔ ڈپازٹ پر شرحِ سود 2014ء میں 7 اعشاریہ 3 فیصد سے گھٹ کر 2017ء میں 4 اعشاریہ 5 فیصد رہ گئی۔ تیل کی عالمی قیمتیں بھی کم تھیں جس کی وجہ سے پاکستانی روپے پر تیل کی قدر میں کمی سے دباؤ کم ہوا کیونکہ تیل پاکستان کی درآمدی اشیاء میں اہم ترین ہے۔ ڈار کے دورِ حکومت کے ابتدائی حصے میں بھی غیرملکی کرنسی کے ذخائر میں اضافہ ہوا تھا جسے ممکنہ طور پر 2016ء کے بعد حکومت کے آخری دور میں پاکستانی روپے کی قدر کے دفاع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ڈار کی عدم دلچسپی کے باعث برآمدی مصنوعات کی پیداواری سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔ ڈبلیو ڈی آئی کے مطابق، پاکستانی برآمدات بطور جی ڈی پی کا فیصد 2014ء میں 13 اعشاریہ 3 فیصد سے کم ہو کر 2017ء میں 8 اعشاریہ 2 فیصد رہ گئیں۔ اس کے بعد سے یہ گزشتہ عشرے کے اوائل میں موصولہ اطلاع کے مطابق اسی سطح پر بحالی میں ناکام رہی ہیں۔ تاہم اس مدت کے دوران ترسیلاتِ زر اور براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔ مؤخر الذکر کا چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) سے وابستہ منصوبوں کے ذریعے کارفرما ہونے کا امکان ہے۔
اسحٰق ڈار کو وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے پر مختلف معاشی حالات کا سامنا ہے۔ زرِمبادلہ ذخائر ختم ہو رہے ہیں اور پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت ہے جو ممکنہ طور پر اس کی زرِمبادلہ ذخائر کو استعمال کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دے گا کیونکہ اُسی کی طرف سے ڈالر کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ مہنگائی کی شرح آسمان پر ہے، عالمی شرحِ سود میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ملکی شرحِ سود بھی بلند ہونے کا امکان ہے۔ امریکی ڈالر خود مضبوط ہو رہا ہے اور بڑی معیشتوں نے ایکسچینج ریٹ مارکیٹ میں مداخلت کے بعد بھی اپنی کرنسیوں کی قدر کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کی ہے۔ کاروباری اعتماد کم ہے اور سیاسی ماحول انتہائی غیر یقینی ہے۔
ڈار کو معیشت میں ڈالر کی آمد بالخصوص برآمدات میں اضافے پر توجہ دینا ہوگی۔ پی ٹی آئی حکومت نے پاکستان میں پیداواری تنوع سے منسلک صلاحیت اور مشکلات کی کمی کے باوجود برآمدات میں نُمایاں نمو حاصل کی۔ شرحِ تبادلہ مُقرر کرنے کی خواہش ممکنہ طور پر برآمد کنندگان کو نقصان پہنچانے اور ڈالر کی آمد کے ذرائع کو کم کرنے کا باعث ہو گی۔ ڈار کو ملکی و غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے کاروباری اعتماد دوبارہ حاصل کرنا ہو گا، ایسی اصلاحات متعارف کرانا ہوں گی جو کاروباری ترقی کو معاونت فراہم کریں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اُنہیں یہ سمجھنا ہو گا کہ اِس بار حالات مختلف ہوں گے۔ اُن کے گزشتہ دور میں معاشی حالات آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ مختلف تھے۔ ہوسکتا ہے کہ اُنہیں وہ آسانیاں حاصل نہ ہوں جو اُنہیں تب حاصل تھیں۔
مُصنّف سی بی ای آر، انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی میں اکنامکس کے اسسٹنٹ پروفیسر اور ریسرچ فیلو ہیں۔






