جے شنکر جدید دور کا چال باز “چانکیا”
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر گزشتہ پندرہ دن کے دوران کافی سرگرم رہے ہیں۔ جب اُنہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی (UNGA) سے خطاب کیا تو اُنہوں نے امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن اور امریکا میں بھارتی تارکینِ وطن سے دو طرفہ ملاقاتیں کیں۔ گویا “ہندوستانیت” کو دریافت کرتے ہوئے جے شنکر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قائدانہ نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جو بھارت کو بطور ایک “عظیم قوم” پیش کرنے کے بارے میں انتہائی جذباتی ہے حالآنکہ اِس ملک میں دنیا کے سب سے زیادہ غربت زدہ لوگ بستے ہیں اور یہ ملک اپنے چھوٹے پڑوسیوں سے ایک بدمعاش کا سا برتاؤ کرتا ہے۔ “عظیم” دکھائی دینے کی کوشش میں بھارتی رہنما اپنے مخالفین خصوصاً پاکستان کو شکست دینے کے لیے شائستگی کی تمام حدیں پار کر دیتے ہیں۔ انکساری کی بجائے تکبّر بھارتی سفارت کاری کی پہچان بنتا جا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران جے شنکر نے اُس وقت اپنے “بلند اخلاق” کا مظاہرہ کیا جب اُنہوں نے بھارت کو”دہائیوں سے سرحد پار دہشت گردی” کے شکار کے طور پر پیش کیا۔ اُن کا واضح مقصد پاکستان کو بدنام کرنا تھا۔ وطن واپسی پر گجرات کے شہر وڈودرا میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جے شنکر نے کہا،”جس طرح بھارت انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کا ماہر ہے اِسی طرح ہمارا پڑوسی بین الاقوامی دہشت گردی (آئی ٹی) کا ماہر ہے۔”
امریکی دورے میں جے شنکر کو امریکا کی جانب سے پاکستان کوF-16 طیاروں کے لیے پرزے فراہم کرنے پر رضامندی سے مسائل درپیش تھے جن کا تخمینہ 460 ملین ڈالر ہے۔ انہوں نے تکبّرانہ انداز سے امریکا کے پاکستان سے تعلّقات کے استدلال پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے یہ تاثر دیتے ہوئے کہ یہ طیارے بھارت کے خلاف استعمال کیے جائیں گے، دہشت گردی سے لڑنے کے لیے پاکستان کو F-16 طیاروں کے پُرزے فراہم کرنے کے امریکی جواز کا مذاق اڑایا۔ بجا طور پر اگر بھارتی کتاب ’’چانکیہ حکمتِ عملی‘‘ کا ایک صفحہ پڑھا جائے تو یہ اچھی طرح سے جانتے ہوئے بھی کہ چین کے ساتھ بھارتی سرحد ایک پہاڑی علاقہ ہے، بھارت کا چین کے خلاف بھاری ہتھیاروں کا حصول “جائز” ہو جاتا ہے۔ تاہم ایسے بھاری ہتھیاروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ پاکستان کے خلاف میدانی علاقوں میں استعمال ہوئے تھے۔
جے شنکر نے یوکرین کے بحران پر امن کی فاختہ بنتے ہوئے اِس بات پر زور دیا کہ “بھارت امن کا حامی ہے اور مضبوطی سے رہے گا، ہم اُس کے ساتھ ہیں جو اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور اِس کے رہنما اُصولوں کا احترام کرتا ہے، ہم اُس کی طرف ہیں جو بات چیت کا مطالبہ کرتا ہے اور سفارت کاری کو ہی واحد راستہ سمجھتا ہے۔”
اِس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں تک یوکرین کا تعلق تھا اُن کے الفاظ بہت عمدہ تھے۔ ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ اپنے قریبی پڑوسیوں کے لیے بھی اِسی طرح کے جذبات کا اظہار کرنے کی اخلاقی جرأت کریں، یا دو طرفہ تنازعات کے حل کے لیے امن یا “اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا احترام”، یا “مذاکرات اور سفارت کاری” کی درخواست کریں۔ جموں و کشمیر کے تنازع کے حوالے سے وہ اور اُن کی قیادت کسی بھی قابض فوج سے مختلف نہیں تھے، جیسے یوکرین میں روس ہو، عراق میں امریکی افواج ہوں یا جیسے فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضہ۔
بدقسمتی سے مغرب نے بین الاقوامی تعلقات میں دوہرا معیار اپنا رکھا ہے۔ وہ یوکرینی بحران پر اپنے مؤقف کی صداقت کے حوالے سے دنیا کو قائل کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔ وہ روس کو اجتماعی سزا کا مستحق ولن ثابت کرنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک کو اپنے دعوے کی حمایت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ تاہم جب بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جس میں نوے کی دہائی کے اوائل سے لے کر اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کا قتل بھی شامل ہے، “کشمیری عسکریت پسندوں” سے جعلی مقابلے، ان ہزاروں “نصف بیواؤں” کی قسمت پر مجرمانہ خاموشی جن کے شوہر برسوں سے لاپتا ہیں اور اپنے حقِ خودارادیت کے لیے لڑنے والے کشمیریوں کو زیر کرنے کے لیے بھارتی افواج کی جانب سے عصمت دری کو بطور ہتھیار استعمال کیا جانا، تو یہ دوہرا معیار عیاں ہو جاتا ہے۔ پیلٹ گنوں کے ذریعے کشمیریوں بالخصوص نوجوانوں کو زندگی بھر کے لیے اندھا کر کے بھارتی مظالم میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ بھارتی حکومت اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) کو مقبوضہ ریاست میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے رسائی دینے سے مسلسل انکار کرتی آئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی ایک ایسا فورم ہے جہاں عالمی برادری کی توجہ مشترکا دلچسپی کے مختلف مسائل پر مبذول کرائی جاتی ہے۔ یہ عالمی برادری کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کا ایک فورم بھی ہے تاکہ امن، سلامتی اور رُکنیت کی اقتصادی بہبود کو برقرار رکھا جا سکے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک ایسا فورم ہے جہاں وہ عالمی برادری کو ان وعدوں کی یاد دلا سکتا ہے جو اُس نے اقوامِ متحدہ کی زیرِنگرانی استصوابِ رائے کے ذریعے کشمیری عوام کو حقِ خودارادیت دینے کی اجازت دینے کے لیے کیے تھے۔ تاہم اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر موجود بھارتی قیادت کے لیے “کشمیر اور حقِ خودارادیت” کے الفاظ اشتعال انگیز ہیں۔ “دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت” کے لیے یہ سراسر شرمندگی کا باعث ہونا چاہیے کہ ایک پڑوسی کی جانب سے عالمی فورمز پر کشمیری عوام کے تئیں اِس کی ذمے داریوں کی یاد دہانی کرائی جائے۔ اِس لیے بھارت اپنی شرمندگی چھُپانے کے لیے “سرحد پار دہشت گردی” کا بہانہ استعمال کرتا ہے۔ اُس نے کشمیر کو بھارت کا “اٹوٹ انگ” قرار دے کر دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلی ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ مسئلہء کشمیر کو دبانے کے لیے بڑی طاقتوں کی سیاسی مصلحتیں بھارتیوں کے لیے کچھ وقت کا زیاں بن سکتی ہیں۔ پھر بھی بھارت کو کشمیریوں کو ہمیشہ کے لیے محکوم رکھنے کی اجازت یا پاکستان کو اِس تنازع پر خاموش رہنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا جس کا وہ ایک فریق ہے۔
بھارت دہشت گردی کے معاملے پر اپنے جھوٹ اور فریب پر پردہ نہیں ڈال سکتا کیونکہ پڑوسیوں میں اِس کا ریکارڈ انتہائی خراب ہے۔ افغانستان (قندھار اور جلال آباد) اور ایران (زاہدان) میں بھارتی قونصل خانے برسوں سے پاکستان کے خلاف جاسوسی کے اڈے ہیں۔ بھارتی بحریہ کا ایک افسر کلبھوشن یادیو جو اِس وقت پاکستان کی حراست میں ہے، پاکستان کے خلاف بھارتی دہشت گردانہ کارروائیوں کی زندہ مثال ہے۔ وہ چابہار (ایران) سے اپنی کارروائیاں کر رہا تھا اور اُس نے صوبہ بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو مُنظّم اور فنڈ فراہم کرنے کا اعتراف کیا جہاں درجنوں بے گناہ لوگ مارے گئے تھے۔
بھارت نے جان بوجھ کر 9/11 کے بعد پاکستان کو درپیش مشکلات کو نظرانداز کرتے ہوئے “سرحد پار دہشت گردی” کی کارروائیوں میں اضافہ کر کے، جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 8 ہزار اہلکاروں سمیت 80 ہزار سے زائد جانیں ضائع ہوئیں، دونوں ممالک کے درمیان معاملات کے مذاکراتی حل کی راہیں مسدُود کر دیں۔ جہاں بھارتیوں کا پاکستان سے ممبئی اور پٹھان کوٹ واقعات کی تحقیقات کے نتائج کے بارے میں پوچھنے کا جواز ہو سکتا ہے وہاں وہ 18 فروری 2007ء کو سمجھوتہ ایکسپریس دہشت گردی کے واقعے کی وضاحت کے لیے بھی برابر کے جواب دہ ہیں جس میں 50 پاکستانی مسافروں کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اس اندوہناک واقعے میں ملوث افراد کو مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد رہا کر دیا گیا کیونکہ مجرموں کا تعلق راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور سنگھ پریوار کی دیگر ذیلی تنظیموں سے تھا۔
جہاں پاکستان بھارتی سازشوں کا مقابلہ کر سکتا ہے اور بھارت کو اُسی کے لہجے میں جواب دے سکتا ہے، وہیں اُس کے دیگر چھوٹے پڑوسیوں کی بدقسمتی ہے جنہیں بھارتی آزادی کے بعد سے اُس کی غنڈہ گردی اور دہشت گردی کی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت نے سری لنکا کی حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے وہاں لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (LTTE) کو آگے بڑھایا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایل ٹی ٹی ای خود بھارت کے لیے ایک عفریت بن گئی اور اُسے اُس وقت اِس کی بھاری قیمت چکانا پڑی جب ایک خودکش حملے نے تامل سری لنکا”گٹھ جوڑ” کے منصوبہ ساز راجیو گاندھی کی جان لے لی۔ نیپال بھارتی غنڈہ گردی کا شکار بنتا رہتا ہے، جب بھی نیپالی رہنما آزادانہ مؤقف اختیار کرتے ہیں تو بھارت نیپال کی ٹرانزٹ ٹریڈ کو بند کر دیتا ہے۔ بھوٹان اور مالدیپ کا تو بھارت نے تقریباً گلا ہی گھونٹ دیا ہے۔
جے شنکر کے جارحانہ مؤقف اور امریکا میں پاکستان کو بُرا بھلا کہنے کی کوششوں کو امریکی میزبانوں یا پاکستان کی جانب سے کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ بھارت نے ماضی میں بھی یہ ناکام حربے آزمائے ہیں اور یہ مُستقبل میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کا واحد راستہ بات چیت اور تعاون کے جذبے کے ساتھ ناسور نُما مسائل کا حل ہے۔ فی الحال جے شنکر اور اُن کی حکمراں جماعت کے اِرادوں میں امن دکھائی نہیں دیتا۔
مُصنف سابق سفیر ہیں اور فی الحال اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بطور سینیئر ریسرچ فیلو کام کر رہے ہیں






