روس یوکرین جنگ اور اُس کا عسکری فلسفہ
مُصنف سلامتی اور خارجہ پالیسیوں میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ہیں
روس یوکرین جنگ اب آٹھویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے۔ شمال مشرق، مشرق اور جنوب میں ابتدائی قبضوں کے باوجود یوکرین کی فوج نہ صرف روسی جارحیت کو روکنے کے قابل ہو چکی ہے بلکہ شاندار منصوبہ بندی اور ماہرانہ عمل درآمد کے ذریعے بروقت جوابی کارروائیاں کر کے کچھ علاقوں کو آزاد کرانے میں بھی کامیاب رہی ہے۔
یہ کیسے ہوا ۔۔ خصوصاً جنگ کے آغاز میں روسی فوج کو حاصل غیر متناسب فوائد کے پیشِ نظر؟
اِس نکتے سے شروعات کرتے ہیں کہ تربیت اور جدید ترین ہتھیاروں کے نظام اور پلیٹ فارمز کے حوالے سے یوکرین کو امریکا اور نیٹو کی عسکری مُعاونت حاصل ہے۔ تاہم جنگ کے میدان بے ترتیب ہیں اور پا پیادہ فوج، دفاعی سامان اور توپ خانے کو”جاری جنگ” میں استعمال کرتا کمانڈر محض ایک “آرکسٹرا کنڈکٹر” نہیں ہوتا۔ یہ محض اہداف پر گولہ باری کرنے جیسا بالکل نہیں ہے۔
اسی طرح ساز و سامان اور میدانِ جنگ کی بروقت معلومات اگرچہ اہم ہیں، تاہم اِنہی سے لڑائیاں نہیں جیتی جا سکتیں۔ کئی دیگر عوامل جن میں تکنیکی صلاحیتوں کے داؤ کھیلنا کہ کس طرح، کہاں اور کس حد تک طاقت کا استعمال کیا جانا چاہیے، شامل ہیں۔ جنگ کے لیے جانے والی قوت کے تنظیمی فوائد یا متبادل طور پر کیا نقصانات ہیں؟ کیا فوج اتنی ہوشیار ہے کہ وہ مخالف کی طاقتوں سے کھیلنے سے گریز کرے اور اُسے اپنی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کا جواب دینے پر مجبور کرے؟ فوج کی تربیت کیسے کی جاتی ہے، یعنی فوج نے کن مشکلات کے خلاف کس طرح سے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، اور کیا اُس کی تربیت اور جس طرح سے وہ لڑے گی اُسے غلبہ دلا پائیں گے۔ ایک اور طرح سے دیکھیں تو، اگر کوئی فوج ہوشیاری سے لڑنا نہیں جانتی تو ہتھیار بھی کچھ نہیں کرسکتے۔
جب روس نے 2014ء میں کریمیا سے الحاق کیا تو دنیا نے یوکرین کے بے بس فوجیوں کی تصاویر دیکھیں جنہیں ہلکے ہتھیاروں سے لیس تھوڑے سے روسی فوجی دھکیلتے ہوئے بیرکوں میں قید کر رہے تھے۔ اُس وقت سے لے کر اب تک کے درمیان کیا ہوا؟ کیا کریمیا یوکرین کے لیے ایک اہم موڑ تھا؟
جاری جنگ کا کئی زاویوں سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم میں یہاں صرف ایک پہلو پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں ۔۔ اور وہ روس کس طرح لڑا ہے اور لڑ رہا ہے اور یوکرینی فوج کیسے اپنی کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کر رہی ہے، میں فرق ہے۔
یہ مرکزی منصوبہ بندی اور محاذ پر فوجیوں کی جانب سے پہل کے درمیان فرق ہے۔ روسی فوجی اعلیٰ کمانڈر کے حکم کا انتظار کر رہے ہیں۔ یوکرینی، جیسا کہ دیکھا جا رہا ہے، جنگ شروع ہوتے ہی مُتحرک ہو کر حملہ کرنے میں پہل کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سِرے سے کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں ہے، اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ جونیئر کمانڈر حالتِ جنگ اور انتشار کے عالم میں بھی مجموعی منصوبہ بندی پر بغور عملدرآمد کر رہے ہیں۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ یہ بات کتنی اہم ہے اور اس کا حقیقی مطلب کیا ہے، ہمیں ماضی میں جانا ہوگا کہ کس طرح پروشیا (قدیم جرمن بادشاہت) نے ایک طویل عرصے کے دوران اِس نظریے کو ترویج دی جسے Auftragstaktik، جنگی حکمتِ عملی یا جیسا کہ امریکی فوج اس کا ترجمہ کرتی ہے، مشن کمانڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ عسکری فلسفے Auftragstaktik کے بارے میں بہت زیادہ بحث ہو چکی ہے اور کچھ طرح سے یہ مضحکہ خیز اور گمراہ کن بھی ہو سکتی ہے، حالآنکہ جرمنوں کے لیے ایسا نہیں ہے۔ اِس کے معنی پیشہ ورانہ مہارت اور ایک مکمل فوجی ماحول کے ہیں کیونکہ اِسے پروشیا اور بعد ازاں متحدہ جرمنی میں ایک طویل عرصے کے دوران بتدریج فروغ دیا گیا۔
بڑے یونٹ کمانڈروں کے لیے اپنی ہدایات میں ہیلمٹ کارل برن ہارڈ وون مولٹکے (دی ایلڈر) نے 1869ء میں لکھا: “عام طور پر کسی کو انتہائی ضروری حکم کے علاوہ کوئی اور حکم نہ دینا ہی اچھا ہوتا ہے اور اُس صورتحال سے آگے کی منصوبہ بندی سے بھی گریز کیا جانا چاہیے جس کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ جنگ میں صورتحال بہت تیزی سے بدلتی ہے۔ شاذ و نادر ہی ایسے احکامات ہوں گے جن کی پیشگی توقع ہو اور یہ کامل عمل درآمد میں کامیاب ہو جائیں۔
امریکی فوج کے ایک سابق میجر ڈونلڈ ای وینڈرگرف کی کتاب “جرمنوں نے عسکری فلسفے Auftragstaktikکی تعریف کیسے کی” میں بیان کیا گیا ہے۔ “اختیار (اتھارٹی) جتنا اعلیٰ ہوگا، احکامات اتنے ہی مُختصر اور عام ہوں گے۔ اِس کے بعد نچلی سطح کی کمانڈ اِن میں اضافہ کرتی ہے جو مزید درستگی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ کمان کی جانب سے عملدرآمد کی تفصیل زبانی حکم پر چھوڑ دی جاتی ہے۔ اس طرح ہر ایک اپنے اختیار میں عمل اور فیصلے کی آزادی کو برقرار رکھتا ہے۔”
وینڈرگرف لکھتے ہیں، “مجموعی طور پر کمانڈر کا ارادہ فوجی کی جانب سے پیشہ ورانہ مہارت کی کوشش کرنا ہے۔ بدلے میں فوجی کو اُن کے تفویض کردہ مشن کی تکمیل میں چھُوٹ دی جائے گی۔”
ولیم لِنڈ کے مطابق، “19 ویں صدی کے جنگی حربوں کے دوران جرمن جونیئر افسروں کو عام طور پر ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا جو صرف احکامات کی نافرمانی سے ہی حل ہو سکتے تھے۔ احکامات واضح ہوتے تھے کہ نتائج حاصل کیے جائیں تاہم عسکری فلسفے (Auftragstaktik) کے طریقے سے کبھی نہیں۔ پہل اطاعت سے زیادہ اہم تھی۔ غلطیاں اس وقت تک برداشت کی جاتی تھیں جب تک کہ وہ بہت کم کی بجائے بہت زیادہ پہل کی وجہ سے ہوں۔”
ایسا لگتا ہے کہ یوکرینی فوجیوں نے مجموعی منصوبے اور میدانِ جنگ میں اِس پر پل پل بدلتے، اختراعی عمل کے درمیان تعلّق کو سنبھال لیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور مقامی کمانڈروں کو “جو مزید درستگی ضروری معلوم ہوتی ہے شامل کرنے” کی گنجائش فراہم کرتی ہے۔
اپریل 2002ء میں فورٹ لیوِن ورتھ میں طلباء سے کی گئی ایک گفتگو میں جرمن فوج کے میجر جنرل ویرنر وِیڈر (Werner Widder) نے عسکری فلسفے Auftragstaktik اور Innere Führung (قیادت کی ترقی اور شہری تعلیم) کو “جرمن قیادت کے تجارتی نشان” کے طور پر بیان کیا۔ اُنہوں نے اپنی گفتگو کا آغاز اس طرح کیا، “مئی 1940ء میں ایبن ایمیل کے بیلجیئم کے قلعے پر قبضہ دوسری جنگِ عظیم میں جرمن ویہرماخٹ (Wehrmacht) کے ذریعے فرانسیسی مہم کے کامیاب انعقاد کے لیے انتہائی اہم تھا۔ اور پھر بھی اس خصوصی آپریشن کی تیاری اور انعقاد کی ذمے داری چھاتہ برداروں کے ایک فرسٹ لیفٹیننٹ کو سونپ دی گئی جو اُس وقت فضائیہ کی ایک شاخ تھی۔
جیسا کہ یہ ہوا، لیفٹیننٹ روڈولف وٹزگ کے گلائیڈر کو “کولون کے قریب ایک میدان میں ہنگامی طور پر اُترنا پڑا جو ہدف سے تقریباً 100 کلومیٹر دور تھا۔” پھر”Eben Emael تک لینڈنگ کے دوران ایک اور گلائیڈر کو اپنے ہدف سے تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر مجبوراً اُترنا پڑا۔ حملہ آور سیکشن کے قائد اسٹاف سارجنٹ مائیر نے دو گاڑیاں مختص کیں اور پھر سرحد پر موجود اہم حملہ ڈویژنوں کے کالموں سے گزرتے ہوئے فیصلہ کن کارروائی کی۔”
مائیر پھر (Maastricht) پہنچا اور Eben Emael کی طرف بڑھنے سے پہلے دریائے میوس (Meuse River)کو عبور کیا۔ لیکن وہ قلعے کے اردگرد نہر ہونے کی وجہ سے اس پر حملہ نہیں کر سکتا تھا۔ مائیر نے کیا کیا؟ اُس نے اپنے طور پر”قلعے کے اندر بیلجیئم کی افواج پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لڑائی کے دوران زخمی ہوئے مائیر نے بیلجیئم کے 121 جنگی قیدیوں کو پکڑ لیا جنہیں اُس نے اگلے دن اِس بات کے ثبوت میں کہ اُس نے اپنے مقصد کو مکمل کرنے کی خاطر اپنے اختیار میں سب کچھ کر ڈالا تھا۔”
دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسا کہ ایم جی وِیڈر نے لکھا،Auftragstaktik کی اصطلاح 1890ء کی دہائی میں ناقدین نے بنائی تھی جن کا خیال تھا کہ نچلے درجے کے کمانڈروں کو اتنا اختیار دینے سے فوجی نظم و ضبط کو خطرہ ہو گا۔ لیکن مولٹکے نے اس تصور کو مختلف انداز میں دیکھا۔ ماتحت کے اقدامات یا پہل بے راہ روی یا مجموعی منصوبوں سے انحراف نہیں تھے۔ کیا ماتحت یونٹوں اور ذیلی یونٹوں یا اُن کے کمانڈروں کو شدید دباؤ کے حالات میں احکامات کا انتظار کرنا چاہیے جہاں انہیں وہ احکامات نہیں مل سکتے؟
مولٹکے کے لیے Auftragstaktik کا کلیدی اصول یہ تھا کہ “ماتحت اپنے اعلیٰ افسر کے ارادے کے رہنما اصولوں کے مطابق عمل کرے۔ اپنے اعلیٰ افسر کے ارادے کو جانتے ہوئے ماتحت اس کے حصول کے لیے کام کرتا ہے۔” بعد کی جنگوں میں جرمن فوج کی کارکردگی نے اس نظریے کی تاثیر اور اس کے مطابق بننے والے ماحول اور پیشہ ورانہ مہارت کو ثابت کیا۔
کریمیا میں 2014ء اور آج کی یوکرینی فوج کے درمیان فرق اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ایک ناقص تربیت یافتہ اور غیرمنظّم فوج کو ایک مؤثر جنگی قوت میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو اِسے حاصل مدد کو بروئے کار لا سکتی ہے اور مخالف کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ یہ جاری جنگ پر کوئی حتمی مؤقف نہیں ہے۔ خالصتاً آپریشنل شرائط میں بات کرتے ہوئے روسی اِن حالات سے سبق سیکھنا شروع کر سکتے ہیں، اپنے منصوبوں پر نظرِثانی کر سکتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کی بہتر کوشش کر سکتے ہیں۔ تاہم فی الحال وہ یوکرینی فوجیوں سے شکست کھا رہے ہیں جنہوں نے خود کو بہتر منصوبہ ساز اور عملدرآمد میں لچکدار ثابت کیا ہے۔






