تائیوان، صدر تائی اِنگ وین کی قیادت پر اُٹھتے سوالات
مُصنّف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
تائیوان کی صدر تائی اِنگ وین نے واشنگٹن فورم اور گلوبل تائیوان انسٹیٹیوٹ تھنک ٹینک میں دعویٰ کیا کہ تائیوان اپنے دفاع کے لیے دوسری ریاستوں پر انحصار نہیں کرے گا۔ اُن کے دعوے تنازعات کو بھڑکانے کے مقصد سے امریکا سے جدید ترین اسلحہ کے حصول میں حکومتی کردار کو نظرانداز کرتے ہیں۔ مزید برآں اِس طرح کے بلند بانگ اور غیرحقیقت پسندانہ دعوے اُس کردار کو بھی باآسانی پسِ پشت ڈالتے ہیں جو موجودہ صورتحال میں تائیوان کا جارحانہ دفاع کرنے کے امریکی عزائم نے ادا کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تائی اِنگ وین کی قیادت نے امریکا کی حفاظتی آڑ میں تائیوان کو اسلحے کے ذخیرے میں تبدیل کر دیا ہے جو مُضرِ امن اور ڈھٹائی پر مبنی جارحیت کی مثال ہے۔ سرزمینِ چین سے تائیوان کا پُرامن انضمام ایک حقیقت ہے جو عملاً واقع ہو گا اور زمینی حقائق کے منافی بیانات جاری کرنے سے قبل تائی کے لیے غور و فکر کر لینا فائدہ مند ہے۔
سفارتی نامہ نگار ایڈورڈ وونگ اور نیویارک ٹائمز کے لیے پینٹاگون کے نمائندے جان اِزمے دونوں نے اعتراف کیا کہ امریکی حکام تائیوان کو گولہ بارود کے محفوظ ٹھکانے میں تبدیل کرنے کی کوششوں میں شدّت لا رہے ہیں۔ ایک تجزیے میں تائیوان کو “ہتھیاروں کے دیوہیکل ذخیرے” میں تبدیل کرنے کے ہدف کا حوالہ دیتے ہوئے بحرالکاہل میں امریکی بحری افواج کے کمانڈر ایڈمرل سیموئیل پاپارو کے بیانات کی توثیق کی گئی جن کا کہنا تھا کہ امریکا بحیرہ جنوبی چین میں چین کی عسکری تشکیلات کو کامیابی سے اُکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تائیوان میں اسلحے کی فروخت کے لیے اعلیٰ پذیرائی، اپنے دفاع کے لیے کسی اتحادی کی ضرورت نہ رکھنے کے صدر تائی کے بیان کے بالکل برعکس ہے جبکہ حقیقت میں اُن کی قیادت میں امریکی چھتر چھایا تلے تائیوان مُسلسل چینی خودمختاری کو اُکسانے اور دھمکانے کی کوشش کرتا آیا ہے۔ “ہم اپنے دفاع کے لیے دوسروں پر بھروسہ نہیں کریں گے” کا بیانیہ یہ دعوٰی بھی ہے کہ قیادت نے کبھی علیحدگی یا بغاوت کا مطالبہ نہیں کیا۔ یہ غلط ہے کیونکہ نائب اسپیکر تائی چی چانگ (Tsai Chi-chang)، وزیر خارجہ جوزف وُو اور تائی پے کے واشنگٹن میں نمائندے شاؤ بی کِم (Hsiao Bi-khim)جیسی شخصیات کی مذموم سرگرمیوں کو چین نے بارہا آبنائے پار تعلّقات کے پُرامن فروغ کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کہا ہے۔ صدر تائی اِنگ وین نے آبنائے پار محاذ آرائی کو بھڑکانے اور علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کی خاطر امریکی قانون سازوں اور کانگریس اراکین کی سیاسی حمایت کے حصول پر باآسانی پردہ ڈال دیا ہے جیسا کہ ملکی سیاست کا امریکی ہتھیاروں کی فروخت کو دعوت دے کر مسائل کو ہوا دینے میں کردار ہے۔ بات چیت یا تناؤ میں کمی کے اقدامات کی عدم موجودگی میں انتشار اور بے چینی پھیلانے میں ایسی قوتوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
صرف اسلحے کی فروخت میں ہی تائی پے نے ستمبر 2022ء میں 11 کروڑ ڈالر مالیت کے بحری جہاز شکن (اینٹی شپ) اور فضا سے فضا میں مار کرنے والے (اینٹی ایئر ٹو ایئر) میزائلوں کے ساتھ ساتھ جارحانہ ہتھیار جیسے سائیڈ ونڈر میزائل، ہارپون اینٹی شپ میزائل اور 665 اعشاریہ 4 ملین ڈالر مالیت کا ایک علاقائی ریڈار سسٹم پینٹاگون کی سلامتی تعاون کی ایجنسی (DSCA)کے تحت حاصل کیا۔ کسی قسم کی مزاحمت کی عدم موجودگی میں جارحانہ ہتھیاروں کا ڈھیر لگانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح صدر تائی انگ وین چینی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے تائیوان کی مدد کے لیے جارحانہ امریکی حمایت کے حصول کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ “اپنے دفاع” کے دعوؤں کے اظہار کی یہ کوشش اس حقیقت کو نہیں چھُپا سکتی کہ تائیوان چین کو مُشتعل کرنے کے لیے امریکی سلامتی کی آڑ کا استعمال کر رہا ہے۔ لہٰذا تائیوان کے قول و فعل میں ایک واضح تضاد نظر آتا ہے۔
صدر تائی اِنگ وین کی قیادت بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے بار بار تائیوان ریلیشنز ایکٹ کے مرکزی اُصولوں کی پاسداری نہ کرنے کے غلط سفارتی اقدامات پر بھی تکیہ کیے ہوئے ہے جس کا اگر درست طور پر جائزہ لیا جائے تو اِس میں چین کے دوبارہ مُلکی انضمام کے عمل میں امریکی فوجی مداخلت شامل نہیں ہے۔ اسلحے کی فروخت پر بھی امریکا نے ون چائنا پالیسی پر فریقین کے مابین تاریخی سمجھوتوں کو نظرانداز کیا۔ صدر تائی انگ وین کے دعوؤں کا کھوکھلا پن درحقیقت تائیوان کے بارے میں صدر بائیڈن کی ناقص خارجہ پالیسی سے مطابقت رکھتا ہے جس کی خصوصیت اسلحے کی بے تحاشا فروخت، فوجی تیاریاں، جارحانہ عزائم، کشیدگی اور کم از کم دفاعی مساوات کو توڑنے کی کوشش ہے۔
اپنے دفاع کے معتبر دعوؤں کو کسی حد تک اہم ضرور ہونا چاہیے۔ مثلاً جمہوریہ کوریا کھلے عام دعویٰ کر سکتا ہے کہ ملک اور اِس کے قریب دونوں جگہ امریکی فوج کی موجودگی اُسے شمالی کوریا سے درپیش جوہری خطرات کو دور رکھ سکتی ہے، خاص طور پر جبکہ شمالی کوریا نے بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کے تجربات بھی کیے ہیں۔ اِسی طرح فومیو کیشیدا کی قیادت میں جاپان بھی چین اور شمالی کوریا کی جانب سے خطرات کے پیشِ نظر امریکی فوجی موجودگی میں اضافے کی بنیاد پر اپنی حفاظت میں اضافہ کر سکتا ہے۔ اِس طرح کی حفاظتی ضمانتوں کو حقیقی حمایت سے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاہم تائیوان کے معاملے میں یہ قطعی برعکس ہے جہاں ہتھیاروں کی خریداری سے فائدہ اٹھانا اور امریکی حمایت کا حصول ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
آبنائے تائیوان میں پائے جانے والے جمود کے تناظر میں اِس طرح کے تبصرے آج کی قابلِ اعتبار کم از کم دفاعی صلاحیت کے ایک عجیب و غریب اعتراف کی عکاسی کرتے ہیں۔ چین خاص طور پر اس طرح کے کھوکھلے بیانات سے باخبر ہے کیونکہ تائی پے کی قیادت اپنی پوری تاریخ میں متعدد بغاوتوں اور علیحدگی پسند سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔ “ایک ملک، دو نظام” کا اُصول ہمیشہ تائیوان پر لاگو ہوگا جو مُسلسل چین کی ریاستی خودمختاری کو چیلنج کرتا آیا ہے اور جزیرہء تائیوان کا چین میں دوبارہ پُرامن انضمام بھی ناگُزیر ہے۔
لہٰذا صدر تائی اِنگ وین کا یہ دعویٰ کہ تائیوان اتحادیوں کو چین کے خلاف جارحیت پر اُکسانے کے لیے نہیں بلائے گا، غلط ہے اور تائی پے کی قیادت درحقیقت جو اقدامات کر رہی ہے اس کے سراسر منافی ہے۔ اِسے ویسے ہی پُکارا جانا چاہیے جیسا کہ یہ ہے۔






