آصف درانی

23rd Oct, 2022. 09:00 am

سوات واقعہ، مظلوم کی آہ سے ڈریں

گزشتہ ہفتے سوات میں حملے سے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی واپسی کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجنی چاہیے

مصنف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔

10 اکتوبر کو سوات میں ایک اسکول وین کے ڈرائیور کی ہلاکت پر شدید احتجاج کیا گیا۔ اِس واقعے نے جس میں دو طالب علم بھی زخمی ہوئے تھے، ایک دہائی قبل نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی پر ہونے والے حملے کی یاد تازہ کر دی۔ اگر ملالہ کے واقعے نے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائیوں کا رخ موڑ دیا تھا تو گزشتہ ہفتے کے حملے سے خوفناک مذہبی گروہ کی واپسی کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجنی چاہیے۔ تاہم بندوق کے زور پر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ٹی ٹی پی اور دیگر مذہبی متعصبوں کے خلاف ہزاروں مظاہرین کا زبردست ردعمل اُمید کی کرن جیسا تھا۔

محض ایک دہائی قبل ٹی ٹی پی کے کارندوں نے سوات اور مالاکنڈ ڈویژنوں میں عدالتیں لگا کر اور لوگوں کو کھلم کھلا سزائیں دے کر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی تھی۔ مقامی انتظامیہ بے بس دکھائی دے رہی تھی کیونکہ گزشتہ برسوں کے دوران ریاست مذہبی متعصبوں پر اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام ہو چکی تھی۔ چاروں طرف دہشت کا راج دکھائی دے رہا تھا۔ لوگوں کو طالبان کے حکم کی تعمیل کرنے پر مجبور کیا گیا جبکہ خواتین کو ان کے ظلم و بربریت کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

مبینہ طور پر ٹی ٹی پی نے واضح وجوہات کی بنا پر اسکول وین حملے کی تردید کی، جبکہ کسی دوسرے گروہ نے حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان اور ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے والی حکومتی ٹیم کے ایک رکن بیرسٹر محمد علی سیف نے دعویٰ کیا کہ واقعے میں مرکزی ٹی ٹی پی ملوث نہیں ہے، لیکن مذاکرات کے مخالف عسکریت پسند گروہ صوبے میں حکومت کے خلاف سرگرم ہیں۔ انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ طالبان کے سات منقسم گروہوں میں سے کوئی بھی، جو حکومت سے مذاکرات کی مخالفت کرتا ہے، اس حملے کا ذمہ دار ہوسکتا ہے۔ ٹی ٹی پی کی “بے گناہی” کے بارے میں بیرسٹر سیف کے دعوے کی صداقت پر بحث کی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود وہ ملک میں اس نقطہء نظر کی نمائندگی کرتے ہیں کہ ٹی ٹی پی ایک حقیقت ہے اور اِسے قومی دھارے میں شراکت دار (اسٹیک ہولڈر) بنا کر ہی مطمئن کیا جا سکتا ہے۔

Advertisement

تاہم ملک میں غالب نظریہ ٹی ٹی پی یا اس سے وابستہ تنظیموں کو انتہا پسند اور دہشت گرد سمجھتا ہے جس کا واحد مقصد اسلام کی آڑ میں جبر کے ذریعے اپنے احکامات کو نافذ کرنا ہے۔ اس نقطہء نظر کو ملکی مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے جیسے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی، جنہوں نے اقتدار کے لیے آئینی راستہ اختیار کیا ہے اور پاکستان کی آزادی سے قبل ہی قومی سیاست میں سرگرم رہی ہیں۔ ان جماعتوں نے ملک میں آئینی عمل کی تشکیل اور اس بات کو یقینی بنانے میں فعال کردار ادا کیا ہے کہ ملکی قوانین اسلامی احکامات کے خلاف نہیں ہیں۔ اس لیے مستند مذہبی جماعتوں کی موجودگی میں مذہبی متعصبوں کے لیے ملک پر تاوان کے عوض قبضے کی شاید ہی کوئی گنجائش ہے۔

سوات، مینگورہ، بٹگرام اور ملحقہ اضلاع کے ساتھ ساتھ ہری پور میں عوام کے شدید غم و غصے کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور یہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ان علاقوں میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلی کی علامت ہے۔ احتجاجی ریلیاں معاشرے کے ایک وسیع حلقے کی نمائندگی کرتی تھیں جن میں طلباء، اساتذہ، وکلاء، ڈاکٹرز، ٹرانسپورٹرز اور نوجوان شامل تھے۔ اُنہوں نے واضح طور پر طالبان کی بربریت، بالخصوص اسکول کے معصوم بچوں کو نشانہ بنانے پر اپنی نفرت کا اعلان کیا۔

سوات میں ہونے والے مظاہروں کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ علاقے کے تمام سیاسی حلقوں نے احتجاج میں شرکت کی۔ یہ طالبان یا ان کے ساتھیوں کو اپنے علاقوں سے دور رہنے کا واضح پیغام تھا۔ مظاہروں میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم)، اے این پی، پی پی پی، پی ٹی آئی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے شرکت کی۔ احتجاجی جلوس میں بزرگ رہنما افراسیاب خٹک، اے این پی رہنما ایمل ولی خان، پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین اور سوات اولاسی پسُون کے صدر فواد خان نے نمایاں شرکت کی۔

وفاق کے سابق زیرِانتظام قبائلی علاقے (فاٹا)، سوات اور مالاکنڈ کے علاقوں میں ٹی ٹی پی کے دوبارہ سر اٹھانے کے حوالے سے طویل عرصے سے سوالات موجود ہیں۔ اس سال کے آغاز سے ٹی ٹی پی کے کارندوں نے سرحدی علاقوں پر حملے شروع کر دیے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر علاقے میں تعینات ایف سی اور فوج کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ اطلاعات تھیں کہ اس سال جون تک ٹی ٹی پی کے حملوں میں 150 سے زائد افسران اور جوانوں نے شہادت کو گلے لگایا۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہوا جب وہ افغان طالبان کی حمایت اور پناہ میں تھے۔

افغان طالبان کی ثالثی میں ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکام کے درمیان “امن مذاکرات” کی اطلاعات سے سب اندازہ لگانے لگے کہ کیا یہ ٹی ٹی پی کی بحالی کا آغاز ہے۔ ٹی ٹی پی سے متعلق افشا ہونے والی خبروں نے ٹی ٹی پی کارندوں کے لیے عام معافی کے امکان کی جانب اشارہ کیا۔ تاہم ٹی ٹی پی کے نئے حملے مذاکرات میں بہت کم پیش رفت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے اِن خدشات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ تنظیم کو افغان طالبان کی حمایت حاصل ہے۔ پہلا تاثر یہ ملتا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے آئین سے اپنی وفاداری کا اعلان کرنے سے گریزاں ہے اور سابقہ فاٹا کی بحالی پر اصرار کرتی ہے۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ تنظیم کی قیادت ہتھیار پھینکنے اور خاص طور پر آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم بچوں سمیت لوگوں کے قتلِ عام کے حوالے سے ملکی قانون کا سامنا کرنے سے انکاری ہے۔

سفارتی نقطہء نظر سے افغان طالبان ٹی ٹی پی کے کارکنوں کو پناہ دینے اور پاک افغان سرحد کے ساتھ اِن کی نقل و حرکت کو قابو نہ کرنے کے لیے پاکستان کو وضاحت دینے کے پابند ہیں۔ اگرچہ یہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان امن کے ثالث کا کردار ادا کرتے ہیں تاہم دونوں مذہبی عسکریت پسند گروہوں (ملیشیا) کی نظریاتی جڑیں ایک جیسی ہیں۔ سیاسی میدان میں افغان طالبان کا ایماندار ثالث کا کردار ادا کرنے کا امکان نہیں ہے۔ پھر بھی یاد رکھنے کے قابل ایک اور اہم عنصر یہ ہے کہ ٹی ٹی پی مُلّا ہیبت اللہ اخُوند کی وفاداری (بیعت) کی پابند ہے، جو مؤخر الذکر کو پابند کرتی ہے کہ اگر سابقہ یعنی ٹی ٹی پی چاہے تو وہ اِسے تحفظ فراہم کریں۔ افغان طالبان کا اب تک کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ نرم رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔

Advertisement

افغان طالبان کے ٹی ٹی پی سے نرم رویہ اختیار کرنے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سب سے اہم دولتِ اسلامیہ خراسان صوبہ (ISK) کا خطرہ ہے جو ٹی ٹی پی کو اپنی صفوں میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہا ہے۔ دوسرا، اگر حکومتِ پاکستان افغان طالبان کے خلاف ہو جائے تو طالبان کے سخت گیر عناصر پاکستان میں ایک ٹھکانہ بنانے کے لیے ٹی ٹی پی کی حمایت کر سکتے ہیں۔ تیسرا، حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان کامیاب مذاکرات کی صورت میں افغان طالبان پاکستان کے اندر، کم از کم ملک کے سابق قبائلی علاقوں میں ایک “تزویراتی گہرائی” پیدا کریں گے۔ تاہم مذکورہ بالا امکانات محض قیاس آرائی ہیں تآنکہ بات چیت ختم نہ ہو جائے۔

اِن اطلاعات پر کہ اِن ممالک کے شدّت پسند گروہ افغان طالبان کی حفاظت میں پناہ لیے ہوئے ہیں، چین، اُزبکستان اور تاجکستان کی مایوسی بھی اتنی ہی اہم ہے۔ ایمن الظواہری کی ہلاکت نے امریکا اور مغربی دارالحکومتوں میں دوحا معاہدے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے مختلف قراردادوں میں عائد کردہ بین الاقوامی ذمے داریوں کے تحت القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ خراسان صوبہ (آئی ایس کے) کا احتساب کرنے میں طالبان کے اخلاص کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کا نتیجہ کچھ بھی نکلے، سوات کے احتجاج کو سب کے لیے سبق آموز ہونا چاہیے۔ عوام میں اُن کے انتخاب اور طرز زندگی کے حوالے سے بیداری کو طاقت کے ذریعے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ بصورت دیگر “مظلوم کی آہ” سے ڈریں، جیسا کہ معروف چیک رہنما ویکلاو ہیول نے 1978ء میں اپنے مشہور مضمون میں کہا تھا۔

Advertisement

Next OPED