جعل سازی اور دراڑیں
غلط اطلاعات ، جعلی خبریں ، ڈیپ فیک نے عالمی رجحان کی حیثیت کر لی
مُصنف سلامتی اور خارجہ پالیسیوں میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ہیں
اکتوبر 1761ء میں ایک نوجوان مارک اونتوان کی خودکشی فرانس میں عوامی تنازع کی حیثیّت اختیار کر گئی۔ حتّٰی کہ والٹیر جو اُس وقت فرانس کا سب سے بڑا مفکّر تھا، اُسے بھی اِس تنازع میں گھسیٹ لیا گیا۔
مارک اونتوان کپڑے کے تاجر یان کیلیس کا سب سے بڑا بیٹا تھا جس کی تُولوز کے تجارتی ضلع میں ایک دکان تھی۔ کیلیس، اُس کی بیوی اور اُن کے چھ بچے دکان کے اوپر ایک مکان میں رہتے تھے۔ 13 اکتوبر کو مارک اونتوان رات کے کھانے کے بعد چلا گیا جبکہ اُس کا بھائی پیئر ایک مہمان کے ساتھ دکان پر آگیا جس نے اِس خاندان کے ساتھ کھانا بھی کھایا تھا۔ بعد ازاں اُنہیں مارک اونتوان کی لاش ملی۔
گھر سے ہونے والی چیخ و پکار کے نتیجے میں دکان کے باہر ایک چھوٹا سا ہجوم جمع ہو گیا۔ خاندان نے ابتدائی طور پر بتایا کہ مارک اونتوان کو گھر میں گھسنے والے ایک ڈاکو نے قتل کیا ہے۔ ایک ڈاکٹر اور دو سرجنوں کو طبی معائنے میں کوئی زخم تو نہیں البتّہ “گردن پر نیل کا ایک نشان” ملا۔ اُن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مارک اونتوان نے “خودکشی کی یا کسی اور نے پھانسی دی”۔
کیلیس اور چار دیگر افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ حوالات میں اُنہوں نے کہانی بدل دی۔ کیلیس کا کہنا تھا کہ اُس نے اِسے خودکشی کہنے سے اس لیے گریز کیا کیونکہ اُس زمانے میں خودکشی کرنے والے کی لاش کو برہنہ کرکے سڑکوں پر گھسیٹا جا سکتا تھا۔
تاہم گرفتاری سے لے کر تشدّد اور پھانسی تک، کیلیس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی اصل وجہ ہجوم میں کسی کی جانب سے کی جانے والی وہ سرگوشی تھی جو ایک مہم کی شکل اختیار کر گئی۔ افواہ کے مطابق کیلیس اور اس کے خاندان نے مارک اونتوان کو اس لیے قتل کیا تھا کیونکہ مارک اونتوان وکالت کے لیے کیتھولک مذہب اختیار کرنا چاہتا تھا۔ اُس دور میں مارک اونتوان جیسے ہیوگونوز (عیسائی فرقہ پروٹسٹنٹ) پر وکالت اور طب جیسے دیگر پیشے اختیار کرنے پر پابندی عائد تھی۔
بعد کی زیادہ تر اطلاعات کے مطابق یہ الزام غلط تھا۔ جیسا کہ کین آرمسٹرانگ نے 2015ء کے ایک مضمون میں لکھا، “اٹھارہویں صدی میں فرانس کے نظامِ انصاف نے مشتبہ ملزمان کے لیے اگر کسی تحفظّات کی پیشکش کی تھی تو محض ایک سرگوشی بھی طاعون کی مانند مہلک ہو سکتی تھی۔ اور یان کیلیس کی دکان کے باہر جمع ہونے والے ہجوم میں سرگوشیاں شروع ہو گئی تھیں۔
جعلی خبریں اور بیانیہ بنانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جیسا کہ جیکب سول نے پولیٹیکو کے لیے لکھے گئے 2016ء کے ایک مضمون میں دلیل دی، “1439ء میں جوہینس گوٹنبرگ کے پرنٹنگ پریس ایجاد کرنے کے بعد جعلی خبریں بنانے کی ابتدا اُس وقت ہوئی جب خبریں بڑے پیمانے پر گردش کرنے لگیں۔” اور اُن صدیوں کے دوران یورپ میں مذہبی طور پر متاثرہ بہت سی جعلی روایتیں موجود تھیں۔ سول کا کہنا ہے کہ، ’’آخرکار کیلیس کے قصّے نے اِس طرح کی جعلی قانونی کہانیوں، تشدّد اور یہاں تک کہ پھانسیوں کے خلاف عوامی اشتعال کو بھڑکا دیا۔ یہ روشن خیالی کے لیے از خود ایک معیار بن گیا”۔
لیکن کیلیس کا قصّہ غیر معمولی نہ تھا۔ سول کا دوبارہ حوالہ دیتے ہوئے کہ، “16 ویں صدی میں جو لوگ حقیقی خبریں چاہتے تھے، اُن کا ماننا تھا کہ افشا ہونے والی خفیہ سرکاری اطلاعات قابلِ اعتماد ذرائع ہیں۔ جیسے کہ وینس حکومت کی خط و کتابت، جسے ریلازیونی (Relazioni) کہا جاتا ہے۔ تاہم زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ افشا ہونے والی اصل دستاویزات کے بعد جلد ہی جعلی ریلازیونی بھی افشا ہو گئے۔ 17 ویں صدی تک مؤرّخین نے اپنے ذرائع کو بطور قابلِ تصدیق اضافی اطلاعات (Footnotes) شائع کرکے خبروں کی تصدیق میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔
لہٰذا تاریخ میں حقیقت کے بعد یا متبادل حقیقت کا ماحول موجود رہا ہے۔ اب اہم فرق وہ رفتار ہے جس سے اس طرح کی خبریں آج پھیلائی جا سکتی ہیں۔ جدید ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور ایپس، سوشل میڈیا صارفین کو روشنی کی رفتار سے اور وائرس کی طرح جھوٹے، آدھے سچے اور متبادل حقائق پھیلانے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ لہٰذا اصطلاح “وائرل” مقبولِ عام ہو گئی۔
نتیجتاً اب اطلاعات کو اِن اطوار سے ہتھیار بنا لیا گیا ہے جو گزشتہ 500 برسوں میں سرگوشیاں کرنے والوں کے لیے دستیاب نہیں تھے۔ اِس بنیاد پر جعلی خبروں کا تصوّر آسان ہے۔ یہ وصول کنندہ کے مذہبی، سیاسی، نسلی یا لسانی رجحان پر مُنحصر ہیں۔ اس کے علاوہ، جیسا کہ ٹوَرسکی (Tversky)، کینامن(Kahneman) اور دیگر ماہرین نفسیات نے لکھا ہے کہ، تعصّبات اور اندازے (Heuristics) اس بات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کہ ہم چیزوں اور حالات سے کیسے متاثر ہوتے ہیں۔
آج کی دنیا میں متعصّب اور اثر و رسوخ رکھنے والے بھی وسیع تر آبادی میں موجود تعصّبات اور اُن کے اظہار، دونوں کو ہدف اور مضبوط بنانے کے لیے جان بوجھ کر حقائق کو توڑ مروڑ کر خبریں تیار کرتے ہیں۔ ان میں کچھ گھٹیا جبکہ دیگر بہت نفیس ہتھکنڈے ہو سکتے ہیں۔ تاہم اس طرح کے تمام حربے زیادہ حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں اجتماعی سوچ (Groupthink) پر انحصار کرتے ہیں۔
رواں برس اپریل میں سابق امریکی صدر باراک اوباما نے اسٹینفورڈ میں خطاب کیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے جمہوریت کو فوائد اور لاحق خطرات کے حوالے سے بات کی۔ مصنوعی ذہانت (AI) کی شمولیّت اور ڈیپ فیکس (Deepfakes) تیار کیے جانے سے خطرات فوائد کی نسبت کہیں زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ کیا جمہوریت اور ڈیجیٹل اختراع ایک ساتھ ممکن ہیں؟ یا کیا ہم، جیسا کہ سقراط نے پانچویں صدی قبل مسیح میں لکھا تھا، ہجوم کے ظلم کی مذمت کرتے رہیں گے؟
یہاں ایک تضاد پایا جاتا ہے۔ جھوٹی سرگوشیوں نے کیلیس کی مذمت کی کیونکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اُس بات پر یقین کرنے لگے تھے جو اِس کے بارے میں کہی جا رہی تھی یعنی اُس نے اپنے بیٹے کو مار ڈالا۔ والٹیر جب اس معاملے میں ملوّث ہوا تو ’’براہِ راست لوگوں سے درخواست کی (اور اِس طرح) ناانصافی سے لڑنے کے لیے بطور ہتھیار رائے عامہ کی طاقت کو مضبوط کرنے میں مدد کی‘‘۔ پہلا خطرے کو ظاہر کرتا ہے جبکہ دوسرا فائدے کو۔ مسئلہ یا ستم ظریفی، آپ جو بھی کہیں، یہ ہے کہ دونوں افعال کے لیے اطلاعات کو ہتھیار بنانا پڑے گا۔
غلط اطلاعات، جعلی خبریں، ڈیپ فیکس اب ایک عالمی رجحان ہیں۔ اِس ملک میں پاکستان تحریک انصاف نے جماعت کے فائدے کے لیے آدھے سچ اور مُنتخب حقائق کو استعمال کرنے میں سبقت حاصل کی۔ اس کے بعد دیگر جماعتوں نے بھی اپنے ٹرول فارمز (Troll farms) قائم کر لیے ہیں لیکن وہ اب بھی مذاکرات مذاکرات کھیل رہے ہیں۔ اس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو، زیادہ تر اشاروں کے مطابق، نوجوانوں کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے جو آبادی کا تقریباً 64 فیصد ہیں۔
یہ آبادی اشرافیہ سے شدید غیرمطمئن اور اِسے تبدیل کرنے کی انتہائی جلدی میں بھی ہے۔ اسمارٹ فون سے لیس، اکثر تاریخ کے علم سے محروم اور تضادات کے کام کرنے سے بے خبر نوجوان جنہیں عمران خان کی صورت میں ایک مسیحا ملا ہے اور یہ انہیں واضح کرنے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے خطرات کی ایک مثالی صورتحال ہے۔
نتیجہ، آج ملک انتہائی مُنقسم ہے جہاں جعلی خبروں اور تیار کردہ بیانیے کے باعث دراڑیں وسیع ہو رہی ہیں۔ میں اِس کی تفصیلات یا خصوصیات میں تو نہیں جاؤں گا کہ کیا ہو رہا ہے، تاہم تازہ ترین بات صحافی ارشد شریف کا قتل اور پی ٹی آئی کے حامیوں کا اِس پر ردعمل ہے۔ میری وسیع تر رائے یہ ہے کہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ضرورت اِس بات کی ہے کہ غیر جانبدار صحافی بحث اور تجزیہ کریں کہ کیا ہو رہا ہے اور کس طرح سے ہو رہا ہے، اور اِس صورتحال کو بہتر کیسے کیا جا سکتا ہے۔
باراک اوباما نے اسٹینفورڈ میں اپنے خصوصی خطاب میں اسمارٹ ضوابط کے بارے میں بات کی۔ ایک ایسی جگہ کے بارے میں جہاں آپ کو اظہارِ خیال کی آزادی ہو؟ انفرادی آزادیوں کے ساتھ رہنے کے لیے ضابطے میں کس قسم کا توازن درکار ہے؟ کیا یہ ممکن بھی ہے؟ میرے پاس اِن اور بہت سے دیگر سوالات کا کوئی جواب موجود نہیں۔ مجھے تو اِس بات کا بھی یقین نہیں کہ کیا اجتماعی فلاح، کوئی بھی اِس کی وضاحت کر سکتا ہے، اور انفرادی آزادیوں کے درمیان کشمکش کو کبھی بھی مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔
یہاں ایک بار پھر تضاد پایا جاتا ہے!






