ایران کے انقلابی نظام کو شدید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے
مصنف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
ایران میں 22 سالہ مہاسہ امینی کی موت سے شروع ہونے والی بے امنی کو دو ماہ ہونے والے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں روحانی پیشواؤں کی آہنی گرفت رکھنے والی حکومت میں اسکارف کا مسئلہ اس قدر کس طرح بڑھ سکتا ہے۔ عجب بات یہ ہے کہ ایرانی خواتین ایرانی انقلاب کے بنیادی اُصولوں کو چیلنج کر رہی ہیں جن میں حجاب یا خواتین کا سر ڈھانپنا ایک ضروری اُصول ہے۔ ایرانی حکومت صورتحال پر قابو پانے کے لیے بتدریج جوابی اقدامات کر رہی ہے۔ تاہم اس بار مظاہرین نے اپنی حکمت عملی میں جدت دکھائی ہے۔ سوشل میڈیا کی تیز رفتاری کی بدولت نوجوان مظاہرین کم سے کم وقت میں کسی مقام پر جمع ہوتے اور اِس سے پیشتر کہ حکام کوئی ردعمل ظاہر کریں، وہ مُنتشر ہو جاتے۔
اس وقت ایران میں مظاہرے کئی شہروں اور قصبوں تک پھیل چکے ہیں۔ مظاہرین کے نعرے زن، زندگی، آزادی نے ایرانی معاشرے کے وسیع تر تصوّر کو جکڑ لیا ہے۔ آیا یہ زور پکڑے گا اور ایران میں روحانی پیشواؤں کے نظامِ حکومت (Theocratic Order) کے لیے ایک زبردست خطرہ بنے گا یا نہیں، یہ دیکھنا باقی ہے۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ پوری تحریک کا رخ حکمراں روحانی پیشواؤں کے خلاف ہے۔ روحانی پیشواؤں کی تذلیل کے کئی وڈیو کلپس وائرل ہو چکے ہیں۔ حکومتی اہلکار بھی مظاہرین کا نشانہ بن رہے ہیں جن میں زیادہ تر 20 سال کے آس پاس کی عمر کے نوجوان شامل ہیں۔
2009ء میں سبز تحریک کے لاکھوں مظاہرین تہران اور دیگر بڑے شہروں کی سڑکوں پر اُمڈ آئے تھے۔ ان مظاہروں کی وجہ مبینہ انتخابی دھاندلی تھی جس سے صدر احمدی نژاد کی دوسری مدتِ صدارت کی راہ ہموار کی گئی تھی۔ آنے والے پانچ سے چھ ماہ میں ایرانی حکام نے صورتحال کو قابو کیا اور سیکڑوں مظاہرین کو مختلف سزائے قید دی گئیں۔ ایک بار پھر خواتین سبز تحریک کے مظاہروں میں سب سے آگے تھیں۔
اِس بار مظاہرین کا طریقہ کار منفرد ہے۔ مظاہرین ایک جگہ کی بجائے شہر کے مختلف علاقوں میں جمع ہو جاتے ہیں جن پر قابو پانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے حربے نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی بہت کمزور کر دیا ہے۔ مزید یہ کہ حکومت کی طرف سے ہر ایک ردعمل کو سیل فون پر ریکارڈ کر کے بین الاقوامی چینلز کو بھیج دیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ میں رکاوٹ سمیت تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت سوشل میڈیا کو مؤثر طور پر قابو کرنے میں ناکام رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایران کی سڑکوں پر پیش آنے والا کوئی بھی واقعہ لمحوں میں وائرل ہو جاتا ہے۔ ایرانی تارکینِ وطن بھی مظاہرین کی حمایت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
دوسرا، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی اور امریکی پابندیاں ملک میں مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔ 20 سال کی عمر تک کے نوجوان جن کا بنیادی طور پر انحصار والدین پر ہے، جوش و خروش سے احتجاج میں حصہ لے سکتے ہیں جبکہ 30 سال کی عمر تک کے دیگر افراد اپنی زندگی اور معاش کے بارے میں زیادہ فکرمند ہوتے ہیں۔ ایسے میں مظاہرین کب تک اپنا احتجاج جاری رکھ سکتے ہیں یہ قیاس کی بات ہے۔
تیسرا، ایران انقلاب کے بعد سے ہی انتشار کی زد میں ہے۔ مہاسہ امینی کے واقعے نے مغرب کو ایران میں تحریکِ آزادی کی حمایت کے نام پر مظاہرین سے گٹھ جوڑ کرنے کے لیے ایک بنا بنایا بہانہ فراہم کیا ہے۔ جرمنی، فرانس اور کینیڈا میں ایرانی تارکینِ وطن کے بڑے مظاہرے دیکھے گئے۔ یورپی یونین ایرانی حکومت پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ امریکا نے مشترکا جامع اقداماتی منصوبے (جے سی پی او اے) کے نام سے مشہور جوہری معاہدے پر مذاکرات تقریباً معطل کر دیے ہیں۔ غالباً امریکی اِس بے امنی سے تبدیلی کی توقع کر رہے ہوں گے، حالآنکہ ملک میں ایسا کچھ ہونے کی شاید ہی کوئی اُمید ہو۔
اگرچہ روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای اور صدر ابراہیم رئیسی سمیت اعلیٰ ایرانی حکام نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں مظاہرے امریکیوں اور صیہونیوں کے اُکسانے پر کیے جا رہے ہیں، تاہم ان مظاہروں کا تعدّد حکام کے لیے یقیناً باعثِ تشویش ہوگا۔ حجاب مخالف مظاہرین کا مقابلہ کرنے کے لیے ایرانی حکام نے گزشتہ اتوار (6 نومبر) کو حکومت کے ہزاروں حامیوں کو جمع کر کے عالمی یوم خلافِ تکبّر کے ایک عظیم الشّان مظاہرے کا انعقاد کیا۔ یہ دن گزشتہ جابرانہ حکومت کی یاد دلاتا ہے جو امریکیوں کی پروردہ حکومت کے طور پر کام کرتی تھی۔ درحقیقت اِس مظاہرے کے ذریعے روحانی پیشواؤں کا پیغام بلند اور واضح تھا کہ کسی کو بھی اسلامی انقلاب کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دریں اثناء 227 ایرانی قانون سازوں نے عدلیہ کو لکھے گئے ایک خط میں حالیہ فسادات کو ہوا دینے والوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایرانی حکومت نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور اِس اُمید پر مظاہرین کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیوں سے گریز کیا ہے کہ مظاہرین اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے بعد بالآخر پیچھے ہٹ جائیں گے۔ ایرانی روحانی پیشواؤں کے لیے تسلّی کا ایک بڑا ذریعہ یہ ہے کہ اُن کے نظامِ حکومت کو فی الحال کسی مُنظّم ادارے کی جانب سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تاہم علما مخالف بیانیے کی مسلسل تکرار مُستقبل میں صورتحال کو یکسر بدل سکتی ہے۔ “غیر ملکی مداخلت” کے خلاف ایرانی حکومت کے اشتعال کے باوجود اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ مظاہرے بنیادی طور پر مقامی اور پھُوٹ پڑنے والے ہوتے ہیں۔ ان مظاہروں کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے مزید متحرّک کیا ہے جنہیں یا تو ایران سے باہر یا خفیہ طور پر ملک کے اندر سے چلایا جاتا ہے۔
ایرانی معاشرہ اپنے شاندار ماضی پر فخر کرتا ہے جس نے اپنی تین ہزار سالہ قدیم تاریخ میں عظیم بادشاہتیں دیکھی ہیں۔ اِن بادشاہتوں نے ایرانی معاشرے پر بیرونی اثرات سے ہم آہنگ ہونے کی گنجائش کو ختم کیا۔ تاہم ایران میں 1911-1906ء کی آئینی تحریک نے ملک میں جمہوریت کے بیج بوئے حالآنکہ ایرانی بادشاہوں، چاہے قاجار ہوں یا پہلوی، نے ملکی آئینی تاریخ کے نتائج کو پھلنے پھُولنے نہیں دیا۔ اِس کے باوجود ایرانی دانشوروں اور مرکزی سیاسی دھارے نے جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے تحریک جاری رکھی۔
1979ء کا انقلاب ایران کی آئینی تاریخ کا ایک اہم واقعہ تھا جس نے نہ صرف ملک میں بالغ رائے دہی پر مبنی سیاسی عمل کو متعارف کرایا بلکہ ایک آئینی ڈھانچہ بھی دیا جسے عوام نے تشکیل دیا، چاہے وہ روحانی پیشواؤں کے زیر اثر حکومت کی حمایت ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ چار دہائیوں کی جدوجہد اور امریکی تسلّط کے خلاف لڑنے کے بعد ملک ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہے جہاں روحانی پیشواؤں کے نظامِ حکومت کی جگہ مغربی جمہوریت لانے کے لیے بغاوت کی جا رہی ہے۔
اب تک امریکا دشمنی نے ملک میں روحانی پیشواؤں کے نظامِ حکومت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ تاہم ایرانی نوجوانوں کی پرورش اور ایرانی معاشرے کے مغرب نواز جھکاؤ کے پیشِ نظر سوشل میڈیا کی طاقت کے ساتھ موجودہ نظام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایرانی حکمراں اشرافیہ مُستقبل کی مشکلات پر کیسے قابو پاتی ہے، اِس کا انحصار ملک کے موجودہ سیاسی نظام کو چلانے والے روایتی شیعہ نظریاتی طبقہء فکر (Qom School) کی سیاسی صوابدید پر ہوگا۔