اعجاز حیدر

20th Nov, 2022. 09:00 am

ہمارے چیلنجز اور اندرونی خلفشار

چاہے جیسا بھی ہو اور پسِ پردہ پیچیدہ سیاست کے پیشِ نظر اس تاریکی میں ڈوبی جمہوریہ کی اُصول پسندی، قانون اور ضوابط کے خلاف کوئی بھی اشتعال ممکن نظر آتا ہے

مُصنف سلامتی اور خارجہ پالیسیوں میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ہیں

اس ملک میں کوئی بھی بحث پاکستان کو درپیش متعدد چیلنجز کے حوالے کے بغیر نہیں ہوتی۔ یہ چیلنجز اندرونی اور بیرونی دونوں ہیں۔

     ایک بیرونی چیلنج یہ ہے کہ دنیا نیو لبرل عالمگیریت (Neoliberal Globalisation) سے تحفّظ پسندی (Protectionism) جسے کچھ لوگ سکیورٹائزیشن (Securitisation) بھی کہتے ہیں، اور جیو اکنامکس (Geoeconomics) کی طرف بڑھ رہی ہے بلکہ کچھ طرح سے پہلے ہی بڑھ چکی ہے۔ میں جیو اکنامکس کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں جسے درحقیقت ایڈورڈ لٹویک (Edward Luttwak) نے دی نیشنل انٹرسٹ کے لیے 1990ء میں لکھے گئے مضمون میں وضع کیا تھا۔ “جیو پولیٹکس سے جیو اکنامکس تک: تنازعات کی منطق، تجارت کی گرامر” کے عنوان سے لٹویک نے استدلال کیا کہ کامرس کی گرامر نے تنازعات کی منطق کو آگے نہیں بڑھایا ہے لیکن جیسا کہ اس نے لکھا ہے، “تجارت کے طریقوں کے ساتھ تصادم کی منطق کی آمیزش کو بیان کرتے ہوئے میرے خیال میں جو بہترین اصطلاح آتی ہے وہ جیو اکنامکس ہے”۔

          اس کا کیا مطلب ہے؟ بنیادی طور پر اِس نیو لبرل عالمگیریت کو دنیا میں ایک ایسے بحران کا سامنا ہے جو تنازعات، بڑی طاقتوں کی دشمنی اور معاشی جبر کی جانب پلٹ چکا ہے۔ اس لحاظ سے تجارت کو نہ صرف مشترکا تعاون کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جو عالمگیریت کی اصل بنیاد ہے، بلکہ بہت سے معاملات میں مخالفین کو سزا دینے کے لیے اتحادیوں کے درمیان تعاون پر مبنی حکمتِ عملیوں کے ساتھ یا تو پابندیوں کے ذریعے یا انہیں اہم ٹیکنالوجیز سے انکار کر کے زبردستی کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ باالفاظ دیگر جب موقع کا تقاضا ہوتا ہے، ریاستوں کی جانب سے اپنی خارجہ اور سلامتی کی پالیسیوں کی معاونت میں اِس معاشی بوجھ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

Advertisement

          امریکا اور چین کے درمیان ہم مرتبہ مُسابقت ایک بنیادی مثال ہے، جیسا کہ روس کے خلاف عالمی پابندیاں ہیں جب سے اُس نے یوکرین کے خلاف جارحیت کی ہے۔ ایران اور شمالی کوریا طویل عرصے سے پابندیوں کی زد میں ہیں۔ چین نے بھی اسی ہتھکنڈے کو امریکا، یورپی یونین کی ریاستوں اور تائیوان کے خلاف استعمال کیا ہے۔

          اس میں کورونا وبا کے اثرات کو شامل کریں جس نے فراہمیء رسد (سپلائی چین) کے نظام کو درہم برہم کر دیا ہے اور اس بات پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس کا انتظام کن طریقوں سے کیا جائے جو اِسے تنازعات، وبائی امراض اور موسمیاتی آفات کے دھچکے سے محفوظ رکھ سکیں۔ یہ سب حقیقی دنیا کے بڑے مسائل ہیں اور اس وقت دنیا میں جاری سب سے اہم بحث کا مرکز ہیں۔ یہ تمام عوامل تباہ کن ہیں اور پاکستان کے لیے بڑے چیلنجز پیش کر رہے ہیں جس کی معیشت پہلے ہی تباہی کے دہانے پہ کھڑی ہے۔

          یہ چیلنجز ملک کو درپیش سخت حفاظتی چیلنجوں کے علاوہ ہیں۔ بھارت بدستور ایک خطرہ ہے۔ افغانستان بدستور غیر مستحکم ہے اور یہ عدم استحکام پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں ایک بار پھر خطرناک اضافے کی طرف لے جا رہا ہے۔

سخت سلامتی خدشات میں جنگ کا بدلتا ہوا طرزِعمل بھی شامل ہے جیسا کہ روس یوکرین تنازع سے ظاہر ہوتا ہے۔ اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز جنگ کی ہئیت کو تبدیل کر رہی ہیں اور جنگی اُصولوں، حصولیات اور فیصلوں کے بارے میں مسلسل دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کون سے پلیٹ فارمز اور سسٹمز کو حاصل یا تیار کیا جانا چاہیے۔

          فہرست طویل ہے اور یہ محض ایک سرسری سا جائزہ ہے۔ تاہم ہمیں ایک بنیادی فکر دینے کے لیے کافی ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔

          آئیے اب اپنے اندرونی چیلنجوں کا جائزہ لیں۔ سب سے پہلے معیشت ہے۔ گزشتہ بدھ کو میں نے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کو اپنے یوٹیوب پروگرام میں مدعو کیا۔ کیونکہ میں کوئی ماہر معاشیات نہیں، غالباً ایک بہترین باخبر شخص ہوں جس کا مقصد بہت زیادہ بھاگ دوڑ یا تحقیق کرنا ہے، یہ جاننے کے لیے کہ ماہرین پاکستانی معیشت کے عروج و زوال کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔

Advertisement

          مجھے چند ماہ قبل پاکستان کے موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ایک بیان نے بھی متاثر کیا تھا جب انہوں نے میڈیا کو بتایا تھا کہ کسی کو فکر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ 25 سال سے آئی ایم ایف سے معاملات چلاتے آئے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ اس بیان کا مقصد معیشت سے نمٹنے کے بطور بہترین انتخاب کے اُن کی قابلیت کو اُجاگر کرنا تھا لیکن اُنہیں واضح طور پر اپنے ہی بیان کی مضحکہ خیزی سمجھ نہیں آئی یعنی 25 سال یا اس سے زیادہ عرصے پر مُحیط یہ کس قسم کی معاشی بدانتظامی تھی جو کسی ملک کو آئی ایم ایف کے در پر بھیجتی رہی؟

بہرحال ہر ماہر معاشیات معیشت کو سنوارنے کا ماہر دکھائی دیتا ہے، بشمول اُن افراد کے جنہوں نے حقیقت میں ایسا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ بری طرح ناکام رہے۔ تو میرا خود سے سوال یہ تھا کہ، اگر ماہرین جانتے ہیں کہ کیا کرنا ہے تو وہ اسے ٹھیک کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ تعلیمی و تصوراتی معاشیات اور حقیقی معاشیات میں فرق ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ انسدادِ بغاوت، ایک ایسا موضوع جس سے میں واقف ہوں، کی طرح ہے۔ کوئی بھی شخص بہت سے نظریات پیش کر سکتا ہے لیکن حقیقت بہت مایوس کن ثابت ہوتی ہے۔

 اسی کو ادب ویک – اے – مول  (Whack-a-Mole) مسئلہ کہتا ہے۔ یہ ایک آرکیڈ گیم ہے جہاں پانچ سوراخوں سے مولز (Moles) اُبھرتے ہیں اور آپ اسکور کرنے کے لیے ایک چوبی ہتھوڑے (Mallet) سے انہیں مارتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے کھیل آگے بڑھتا ہے، مولز آپ کے ہتھوڑے کی حرکت سے زیادہ تیزی سے اُبھرنے لگتے ہیں۔ تو مفتاح اسماعیل سے میرا سوال یہ تھا کہ کیا متعدد مفادات کے پیش نظر معیشت کو ٹھیک کرنا اب ایک ایسا ہی تلخ مسئلہ بنتا جا رہا ہے؟

پروگرام دیکھا جا سکتا ہے اس لیے میں صرف ایک خلاصہ پیش کروں گا۔ نظریاتی طور پر کوئی بھی کہہ سکتا ہے، ہم یہ کر سکتے ہیں اور ہمیں وہ کرنا چاہیے مگر حقیقت میں کسی بھی حکومت کے پاس قرض نہ بڑھانے والے ذرائع محصولات میں بہتری لانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، ذاتی مفادات جو معاشی ترقی کو روکتے رہتے ہیں اور ہم میں طویل مدتی منصوبہ بندی کرنے اور اس پر عمل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ نتیجہ: ہم کہیں سے ایک ارب، تو کہیں سے دو ارب ڈالر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ بھی اب ختم ہو رہے ہیں۔

پھر ملک میں تقسیم کی سیاست ہے۔ سیاسی رسہ کشی اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں ہر سیاستدان یہ سمجھتا ہے کہ تنازعات کو جاری رکھنے کی متوقع افادیت کھیل کے کچھ بنیادی اصولوں پر تعاون اور اتفاق سے برتر ہے۔ نتیجہ: تنگ نظر اور متعصبانہ حکمت عملیاں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام جاری رہے گا جب تک کہ معیشت ڈوب رہی ہے۔

اس شور شرابے کے درمیان اگلے آرمی چیف کے انتخاب کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ ایک جماعت کو کسی کی تو دوسری جماعت کو کسی اور کی خواہش پر بحث چل رہی ہے۔ یہ محض ایک گھٹیا مذاق نہیں بلکہ ایک گھناؤنا تماشا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حکومت اب آرمی ایکٹ میں ایک اور ترمیم لانا چاہتی ہے۔

Advertisement

’’ترمیم کی تجویز اصل میں جنرل ہیڈ کوارٹرز نے دی تھی، جیسا کہ وزارت دفاع کی سمری برائے کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کیسز (CCLC) کے لیے دی گئی تھی‘‘۔

اگرچہ ابتدائی بحث یہ تھی کہ موجودہ حکومت ایک ایسے لیفٹیننٹ جنرل کو برقرار رکھنا چاہتی ہے جو موجودہ آرمی چیف سے چند روز قبل ریٹائر ہو رہے ہیں، لیکن مجوزہ ترامیم میں ایک خاص بات، بنیادی طور پر اب “ایسا لگتا ہے کہ اس مقصد کا حصول ہے کہ جنرل قمر باجوہ عہدے پر برقرار رہیں”۔ چاہے جیسا بھی ہو اور پسِ پردہ پیچیدہ سیاست کے پیشِ نظر اس تاریکی میں ڈوبی جمہوریہ کی اُصول پسندی، قانون اور ضوابط کے خلاف کوئی بھی اشتعال ممکن نظر آتا ہے، میں چاہوں گا کہ قارئین ملک کو درپیش چیلنجوں کے ساتھ اِس جاری تماشے کا موازنہ کریں اور پھر اخذ کریں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔

اس سے بھی زیادہ خوفناک یہ دعوے ہیں کہ ہر قانون اور اُصول سے کھلواڑ وسیع تر قومی مفاد میں ہے۔ اگر یہ عوام کو بے وقوف سمجھنا نہیں تو اور کیا ہے۔

Advertisement

Next OPED