رؤف حسن

04th Dec, 2022. 09:00 am

نجات کی جانب مُنتقلی ۔۔۔

مُصنّف سیاسی و سلامتی کی حکمت عملیوں کے ماہر اور اسلام آباد میں قائم ایک آزاد تھنک ٹینک، علاقائی امن انسٹیٹیوٹ کے بانی ہیں۔ ٹوئٹر: @RaoofHasan

پچھلے چند دنوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے، بہت کچھ ابھی بدلنے کے مراحل میں ہے، اور مستقبل قریب میں بھی بہت کچھ بدلتا رہے گا۔ یہ اس لیے ہو رہا ہے کہ جس قسم کا توازن حکومتی عہدوں پر فائز کچھ بد دماغ لوگ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہ ناقابلِ دفاع تھا۔ اسے ریزہ ریزہ ہی ہونا تھا۔ یہ محض امید ہی ہے کہ ایک نئی سوچ کی جانب حالیہ مُنتقلی، ایک نیا توازن نسبتاً پُرامن ہوگا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پرانے نظام سے بھی بہت کچھ بدلا جانا چاہیے۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے اس پیچیدہ نظام کے فروغ میں کافی وقت صرف کیا تھا وہ نچلے نہیں بیٹھیں گے اور اپنی سرمایہ کاری کو ضائع ہوتے نہیں دیکھیں گے۔ وہ اس اقدام کے خلاف ان تمام وسائل کے ساتھ مزاحمت کریں گے جو ان کے اختیار میں ہے جس میں مال و دولت کے ڈھیروں سمیت میکیاولی چالوں کی ایک وسیع اقسام شامل ہیں جو اُن لوگوں میں گردش کریں گے جو شیطانی کردار ادا کرنے میں اپنی مطابقت برقرار رکھتے ہیں۔ کسی بھی تبدیلی کے مستقل ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان عناصر سے مؤثر طریقے سے نمٹا جائے اور ان کا خاتمہ اس پرانی بیماری کو دوبارہ پروان چڑھنے سے روکنے سے یقینی بنایا جائے جو انفرادی مفادات کو ریاستی مفادات پر ترجیح دینے کو فروغ دینے کی خواہش سے پیدا ہوئی تھی۔

اپنی الوداعی تقریب میں سبکدوش ہونے والے فوجی سربراہ نے خود اعتراف کیا کہ گزشتہ 75 برسوں میں ریاست کے معاملات میں مسلسل فوجی مداخلت جاری ہے۔ اس مداخلت نے عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران تمام آئینی، قانونی اور اخلاقی حدود کو پامال کیا۔ مشکوک پس منظر کے حامل افراد کو حکومت میں اہم تقرریوں پر ترقی دی گئی جبکہ نسبتاً قابلِ اعتبار اسناد کے حامل افراد کو پریشان کیا گیا اور نشانہ بنایا گیا۔ وزیراعظم کی طرف سے دیے گئے پالیسی بیانات کی عوامی پلیٹ فارمز پر نفی کی گئی جس میں سب سے قابلِ ذکر واقعہ اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ تھا جہاں (اُس وقت کے) آرمی چیف نے اپنے خطاب میں ایک ایسے بیانیے کو فروغ دیا جو (اُس وقت کے) وزیراعظم کی جانب سے محض ایک دن پہلے پیش کیے جانے والے بیانیے کے مخالف تھا۔ لوگوں اور واقعات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے حکومت کو بار بار گمراہ کن معلومات فراہم کی گئیں۔ یہ ایک ایسا دائمی رُجحان تھا جس نے حکومت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کی وجوہات اسی وقت واضح ہوئیں جب ایک نئی مجرمانہ من گھڑت سازش رچی گئی اور اس غیرملکی چال کے تسلسل کے طور پر اُسے اقتدار میں لایا گیا جس نے اس غیر ملکی سازش کو مقامی سہولت کاروں نے عملی جامہ پہنایا۔

مختصر ملکی تاریخ میں کئی ناخوشگوار واقعات رونما ہونے کے باوجود گزشتہ آٹھ مہینوں کے واقعات سے حقیقتاً کوئی ایسی چیز مماثلت نہیں رکھتی جب پورے ریاستی نظام کو الٹا کر رکھ دیا گیا ہو۔ ایسا ملک کی بھلائی کے لیے نہیں کیا گیا بلکہ اقتدار کے عہدوں سے ملکی تقدیر پر حکمرانی کرنے والے افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا گیا۔ آئین کا غیرمناسب احترام کرتے اور ریاست و معاشرے کی بقا کے لیے لازم و ملزوم تمام اخلاقی اقدار کو ختم کرتے ہوئے انہوں نے پہلے غیر ملکی ہدایات کے ساتھ جمہوری حکومت کو ختم کرنے کی سازش کی اور پھر گٹھ جوڑ کے ذریعے طاقتور بدمعاشوں، مجرموں، قانون شکنوں اور عدالتوں سے بھاگنے والوں نے اس کی جگہ لے لی۔ یہاں تک کہ بدترین مافیاز جنہیں دنیا جانتی ہے وہ اس مجرم ٹولے سے کہیں بہتر تھے جو قومی ساکھ کو داغدار کرنے کے لیے اقتدار میں لائے گئے ہیں۔

Advertisement

ہم یہاں سے کہاں جائیں؟ پچھلی سات دہائیوں کے تجربات کے نتیجے میں، خاص طور پر گزشتہ ایک سال میں ایک غیرملکی سازش کو نافذ کرنے کی ابتدا سے ایک مجرمانہ حکومت کے قیام اور ہر قسم کی مخالفت سے نمٹنے کے لیے شدید اور فاشسٹ ہتھکنڈوں سے پردہ اٹھنے تک جو کچھ بے نقاب ہوا ہے، کیا ہم اب بھی فوج کو حکومتی اُمور کے انتظام میں ایک جزو کے طور پر دیکھ سکتے ہیں؟ مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی ابہام ہوگا کہ اس طرح کی شراکت داری غیر آئینی اور ناقابلِ دفاع ہے اور ریاست ماضی میں اس کے ہولناک نتائج بھگت چکی ہے۔ ملک کو آگے لے جانے کے لیے جس نئے منشور کا مسوّدہ تیار کرنے اور نافذ کرنے کی ضرورت ہے اس میں فوج کا کردار خصوصی طور پر ان معاملات میں ہے جن کی آئین میں حد بندی کی گئی ہے۔ اس سے آگے منتخب حکومت کا دائرہ اختیار ہے کہ وہ معاملات کو چلائے اور اپنی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد ملک کے عوام کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرے۔

اگرچہ فوج کے کردار کو بہت سے معاملات میں واضح طور پر نئے سرے سے متعین کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے جسے آئین میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے، تاہم کچھ طرز عمل ایسے ہیں جن پر فوری طور پر سختی سے پابندی لگا دی جانی چاہیے، موجودہ سربراہان کو توسیع دینا ان میں سے ایک ہے۔ اس سے ادارے کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے اور بہت سے اہل افسران کے فوج کی کمان سنبھالنے کے امکانات ختم ہو گئے ہیں جس سے ادارے کو اس کی پیشہ ورانہ قابلیت، اہلیت اور تیاری کو بہتر بنانے میں فائدہ پہنچتا۔ یہ ان افسروں کی بے توقیری ہے جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا تین دہائیوں سے زائد عرصہ اس ادارے کی قیادت کے اعلیٰ اعزاز کی تلاش میں وقف کیا جس میں انہوں نے شاندار صلاحیت اور عزم کے ساتھ خدمات انجام دیں۔ اس غلط عمل سے پاکستان غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ترجیحی طور پر مناسب قانون سازی اور اسے آئین میں شامل کرکے اس عمل کو دفن کرنے کی ضرورت ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ پچھلے چند دنوں میں بہت کچھ ہوا ہے، لیکن ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ یہ ان تبدیلیوں کی سمت اور مادیت ہے جسے گزشتہ پچھتر برسوں کے تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے منظّم کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی کو اس امید سے آزمائے اور جانچ کیے گئے افراد کے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ اس بار نتائج مختلف ہو سکتے ہیں۔ ایسے سیاستدانوں سے اسی طرح کے نتائج ہی حاصل ہوتے ہیں۔ ان کے مختلف ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ وہ تبدیل نہیں ہوں گے۔ اگر ماضی میں ان لوگوں نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے تو اس بار پھر ایسا ہی کریں گے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔

 گزشتہ ایک سال کے دردناک تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے منتخب حکومت اور فوج سمیت مختلف ریاستی اداروں کے کردار کو الگ کرتے ہوئے واضح لکیریں کھینچی جانی چاہئیں۔ وہ حکومت کے حصے ہیں اور اپنے کام میں اِس کے ماتحت ہیں۔ کسی قسم کی زیادتی کو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے اور نہ ہی کسی کو جائز سزا سے بچنا چاہیے۔

 یہی وقت ہے۔ ملک کی بھلائی کے لیے سیکھے ہوئے اسباق کو عملی جامہ پہنایا جانا چاہیے۔

Advertisement

Next OPED