الطاف حسین وانی

04th Dec, 2022. 09:00 am

انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کرنے پر بھارت پر کڑی تنقید

بھارتی نمائندے  یو این اجلاس میں انسانی  حقوق کی  پامالی ، خصوصاً  کشمیریوں کےآزدی  اظہار پر قدغن لگانے کی بابت قابل اعتبار جواب دینے میں ناکام رہے

لکھاری اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تھنک ٹینک، کشمیر انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئر مین ہیں۔

10 نومبر 2022ء کو جنیوا میں اقوام متحدہ کے یونیورسل پیریڈک ریویو کے 41 ویں اجلاس کے دوران  بھارت کو  انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔اقوام متحدہ کا عالمگیر متواتر جائزے (یو پی آر ) کے   ورکنگ گروپ نے لائیو ویب کاسٹ میٹنگ میں چوتھی بار بھارت  کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لیا۔غیر معمولی ملاقات  میں  بھارت  کے لیے چوتھے اقوام متحدہ کا عالمگیر متواتر جائزے( یو پی آر سائیکل) کا آغاز کیا گیا ۔اس سے پہلے  کے جائزے  اپریل 2008ء  ، مئی  2012ء  اور  مئی  2017ء میں  ہوئے تھے ۔

سیشن کے دوران، بھارتی نمائندے اپنی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، خاص طور پر بڑے پیمانے پر من مانی، بلاجواز  حراستوں، اختلاف رائے کو دبانے اور مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کے اظہار رائے  کی  آزادی کے حق کی عدم موجودگی کے بارے میں اٹھائے گئے خدشات کا کوئی بھی  قابل اعتبار جواب دینے میں ناکام رہے۔

Advertisement

نریندر مودی کی قیادت میں بھارت  کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی حکومت طویل عرصے سے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام  کے ایکٹ(یو اے پی اے ) کے استعمال اور خاص طور  پر اقلیتی گروہوں، سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بنانے اور  انہیں منصفانہ ٹرائل کا موقع  نہ دینے کی وجہ سے  حقوق کے گروپوں کے ریڈار پر ہے۔

جب سے  سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس )نے  بھارت  میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو متاثر کیا، ملک میں خطرناک ڈیجیٹل آمرانہ تحریک  کا آغاز ہوگیا۔نریندرمودی کی زیرقیادت حکومت نے انسانی حقوق کے محافظوں اور میڈیا اہلکاروں کے خلاف متعدد دھمکی آمیز کارروائیاں شروع کیں، اور (یو اے پی اے) سمیت سخت قوانین نافذ کیے، جو حکومت کو اختیارات دیتے ہیں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مواد پر کنٹرول بڑھاتے ہیں۔یہ  قوانین انسانی حقوق پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔

اختلاف رائے کو مجرمانہ بنانے اور معلومات کو سنسر کرنے کی بھارتی حکومت کی کوششوں میں انٹرنیٹ بند کرنا، صحافیوں کو احتجاجی مقامات تک رسائی سے روکنا، حکومت پر تنقید کرنے والے میڈیا پرسنز کے خلاف مجرمانہ الزامات عائد کرنا، اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو تنقیدی مواد کو بلاک کرنے کے لیے وسیع تر مشاورتی ہدایات جاری کرنا شامل ہیں۔ آج بھارت ڈیجیٹل حقوق کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ  سروس کی بندش   میں  پوری دنیا میں سب کو پیچھے  چھوڑ چکا ہے۔ حیران کن بات یہ ہےکہ بھارت  خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا  ہے۔

غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے  ایکٹ،   کے1967ء  کے  سیکشن 35 کے  سیکشنز سمیت اظہار رائے کو مجرم بنانے کے لیے بھی ڈریکونین قوانین کا استعمال کیا گیا ہے،جو ریاست کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی کو بھی کم ثبوت کے ساتھ دہشت گرد  قرار دے، اور چارج شیٹ داخل کیے بغیر 180 دن تک حراست میں رکھے۔ملک میں آزادی اظہار اور دیگر شہری آزادیوں کو سلب کرنے کے لیے یو اے پی اے کے استعمال پر بار بار تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر کی 2018ء کی تاریخی رپورٹ سمیت انسانی حقوق کے  عالمی اداروں کی طرف سے جاری کی گئی سخت رپورٹس اور دیگر حقوق کے اداروں نے بھارت کے سیاہ ریکارڈ کو بے نقاب کر دیا ہے ،جس میں کشمیریوں کے خلاف عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سمیت اس کے مذموم مقاصد بھی شامل ہیں۔

تیسرے ’یونیورسل پیریڈک ریویو‘ کے دوران، غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا ایکٹ  کی سفارشات کے  تحت  مندوبین نے جمہوری اختلاف کو دبانے کی ہندوستان کی کوششوں، حقائق کو مسخ کرنے، مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں، من مانی گرفتاریوں، اور اس کی عدم تعمیل جیسے مسائل پر بالکل غلط یا گمراہ کن ردعمل فراہم کرنے کے بارے میں متعدد خدشات کی نشاندہی کی۔اس  تناظر میں   بھارت کو آزادانہ تقریر، مذہبی امتیاز سے نمٹنے، نفرت انگیز تقریر اور اقلیتوں کے خلاف زینو فوبیا، انسانی حقوق کے محافظوں کے تحفظ، رازداری اور مواصلات کی نگرانی سے متعلق 9 سفارشات بھی موصول ہوئیں۔تاہم  بھارت ان میں سے کسی بھی سفارش کو قبول کرنے میں ناکام رہا۔

Advertisement

اقوام  متحدہ اور او آئی سی سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے شدید احتجاج کے باوجود بھارت انسانی حقوق کے اہم خدشات کو دور کرنے میں مسلسل ناکام رہا ہے۔بھارت  برسوں سے  اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے طریقہ کار کی دھجیاں اڑا رہا ہے لیکن ملک کے اندر اور خاص طور پر کشمیر میں اقلیتوں کے ساتھ اس کے ناروا سلوک پر بڑھتے ہوئے عالمی شور و غل نے بھارت کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر سرخرو کر دیا ہے۔

یہ جاننا  بہت ضروری ہےکہ سول سوسائٹی کے 200 سے زائد گروپوں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے پوچھا ہے کہ اس نے متنازع خطے میں انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری کے حوالے سے کیا اقدامات کیے ہیں۔2017ء میں  پی پی آر  کے تیسرے  مرحلے کے  دوران  بھارت کو  انسانی حقوق کے ریکارڈ کو بہتر بنانے کے لیے 250 سے زیادہ سفارشات دی گئیں۔بھارت نے ان میں سے 152 کو قبول کیا، لیکن اپنے وعدوں کو برقرار رکھنے اور تشویش کے کسی بھی شعبے میں پیش رفت کرنے میں ناکام رہا۔

یونیورسل پیریڈک ریویو  نے 10  نومبر  2022ء کو   اپنی کارروائی کا دوبارہ آغاز کیا، اس دوران  چوتھے مرحلے کے موقع  پر بھارت کو اپنی سیکولر فطرت اور اس کی سکڑتی ہوئی سول سوسائٹی کی جگہ کو برقرار رکھنے میں ناکام رہنے پر ایک بار پھر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔اس بحث میں کم از کم 132 ممالک نے حصہ لیا۔ان کی زیادہ تر سفارشات تشدد کے خلاف کنونشن کی توثیق، غیر رضاکارانہ اور جبری گمشدگیوں کے خلاف کنونشن پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے)، مسلح افواج (خصوصی اختیارات) ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) جیسے سخت قوانین کی منسوخی، شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشنز کے اختیاری پروٹوکول کی توثیق، اقتصادی، سماجی اور اقتصادیات سے متعلق ہیں۔

بھارت  نے 17 اگست 2022ء کو اپنی ملکی رپورٹ پیش کی۔اسپیشل رپورٹرز اور ٹریٹی باڈی کے ماہرین کی طرف سے دی گئی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہیومن رائٹ کونسل اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے ہندوستان میں انسانی حقوق کے مختلف مسائل کی تالیف کے ساتھ رپورٹس پیش کیں۔بھارتی حکومت نے دعویٰ کیا کہ وہ بین الاقوامی اور اس کے اپنے آئین کے تحت ضمانت یافتہ انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ پر پختہ یقین رکھتی ہے۔

تاہم ،مختلف ممالک کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس کی مشترکہ گذارشات نے بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی وسیع خلاف ورزیوں کو اجاگر کرتے ہوئے بھارتی سرکاری مؤقف کی سخت مخالفت کی۔ان میں  آزاد اور جمہوری اداروں کے خلاف بڑھتا ہوا کریک ڈاؤن، اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف قانونی کارروائی اور ہراساں کرنے کے لیے سخت بغاوت، انسداد دہشت گردی، اور قومی سلامتی کے قوانین کا استعمال، اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے حملے، امتیازی سلوک اور اکسانے جیسی خلاف ورزیاں شامل ہیں ۔

اقوام  متحدہ کو اپنی رپورٹیں پیش کرنے والوں میں ایکشن ایڈ ایسوسی ایشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل، کرسچن سالیڈیرٹی ورلڈ وائیڈ،بچوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے عالمی شراکت داری، ہیومن رائٹس واچ، جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی مہم،انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ، اسلامک ہیومن رائٹس کمیشن، کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اور تشدد کے خلاف قومی مہم شامل ہیں ۔

Advertisement

برطانیہ ، امریکہ، جرمنی، بیلجیم، اسپین، میکسیکو، نیدرلینڈ، ناروے، سویڈن، سلووینیا، سوئٹزرلینڈ اور پرتگال سمیت کچھ ممالک نے  بھارت  کو پیشگی سوالات بھیجے کہ اس نے ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے  کون سا طریقہ کار اپنایا ہے؟سوال نامے میں پوچھا گیا کہ  بھارت نے  معذور افراد کے حقوق کے کنونشن کی دفعات کے حوالے سے قومی معذوری سے متعلق قانون سازی کو فروغ دینے کے لیے  کون سا  طریقہ کار وضع کیا ہے؟ خاص طور پر نیشنل ٹرسٹ ایکٹ اور بحالی کونسل آف انڈیا ایکٹ کی روشنی میں  سوال   پوچھے  گئے  جن کےتحت شہری کو    بنیادی آزادیوں کی بحالی اور اظہار رائے کی آزادی کا حق بھی دیا گیا ہے۔

ناروے نے مارشل لاء کے تحت ہونے والے علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا اور بھارت سے پوچھا کہ کیا وہ مسلح افواج (خصوصی اختیارات) ایکٹ کو منسوخ کرنے پر غور کرے گا۔

رکن ممالک نے ہندوستان سے کہا کہ وہ ملک میں جنسی تشدد اور مذہبی امتیاز پر سخت موقف اپنائے۔رکن ممالک نے نئی دہلی پر بھی زور دیا کہ وہ انسداد دہشت گردی قوانین کے وسیع اطلاق کو کم کرے۔ کونسل میں امریکی سفیر مشیل ٹیلر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھارت سے سفارش کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ اور اسی طرح کے قوانین کے وسیع اطلاق کو کم کریں۔

انہوں نے  مزید کہا کہ انسداد دہشت گردی کی قانون سازی کا اطلاق انسانی حقوق کے محافظوں اور کارکنوں کی طویل حراستوں کا باعث بنا ہے۔اس سے پہلے کینیڈا نے بھارت پر زور دیا  تھا کہ وہ جنسی تشدد کی تمام کارروائیوں کی تحقیقات کرے اور مسلمانوں کے خلاف مذہبی تشدد کی تحقیقات کرکے مذہبی آزادی کا تحفظ کرے۔

فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ کے اطلاق کے ذریعہ لگائی گئی پابندیوں کے پیش نظر چونکہ بہت سی این جی اوز کو ہندوستان میں کام کرنا مشکل ہو رہا ہے، ہندوستانی حکومت سے اس بات کو یقینی بنانے کے اس کے منصوبوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت  میں کام کر سکیں۔ یونیورسل پیریڈک ریویو کے عمل کے دوران، مندوبین نے آزادی اظہار  رائے  پر بھارتی  موقف کا مسئلہ بھی اٹھایا، سوئٹزرلینڈ نے مشورہ دیا کہ  بھارت  کو سوشل نیٹ ورکس تک کھلی رسائی کو یقینی بنانا چاہیے اور ایسے کوئی اقدامات نہیں کرنا چاہیے جس سے انٹرنیٹ کنیکشن سست پڑ جائیں یا انہیں   بلاک  کردیا جائے ۔

عالمی متواتر جائزے کے عمل کا  تجزیہ لینے کا طریقہ کار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2006ء میں قائم کیا تھا۔

Advertisement

اقوام  متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک ہر چار سال بعد اس جائزے سے گزرتے ہیں، جہاں ممالک دوسرے اراکین کی جانچ پڑتال اور جوابدہی کے دائرے میں آتے ہیں اور انہیں ان مسائل سے متعلق اپنے سوالات کے جوابات دینے کی اجازت ہوتی ہے جنہیں وہ اہم سمجھتے ہیں۔

رکن ممالک کو ایک دوسرے کو سفارشات دینے اور پچھلے اجلاسوں کی پیشرفت پر تبادلہ خیال کرنے کی بھی اجازت ہے۔

کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز نے اپنے یونیورسل پیریڈک ریویو جمع کرانے میں، مقبوضہ کشمیر میں سیاسی اور انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور بھارتی فورسز کی طرف سے ظالمانہ قوانین کے استعمال اور غلط استعمال کا ذکر کرتے ہوئے، بھارتی حکومت کو سفارش کی کہ:

جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے حقائق تلاش کرنے والے مشن(او ایچ سی ایچ آر ) کے ہائی کمشنر کے دفتر تک بلا روک ٹوک رسائی کی اجازت دیں اور 33 ویں اجلاس کے دوران اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کی عوامی اپیل کی درخواست پر عمل کریں۔

اقوام متحدہ کے خصوصی طریقہ کار اور مینڈیٹ ہولڈرز کو بھارت اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دیں۔

آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ (اے پی ایس ایف اے) 1990ء، اور جموں کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ (جے  کے پی ایس اے)کو منسوخ کریں۔

Advertisement

غیر قانونی روک تھام کی سرگرمیاں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے ذریعے آزادی اظہار اور رائے کی آزادی کو مجرم بنانا بند کریں۔

سیاسی آراء، وابستگیوں یا سرگرمیوں سے قطع نظر جموں و کشمیر کے لوگوں کو سفری دستاویزات کی فراہمی سمیت سفر کی آزادی کو یقینی بنائیں۔

انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی )، مہاراشٹر سیکورٹی فورس(ایم ایس ایف )اور اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ (یو این ایم او جی آئی  پی )کو  بھارت  اور پاکستان میں غیر محدود رسائی کی اجازت دیں۔

جموں و کشمیر میں اسکولوں، اسپتالوں اور اس طرح کے دیگر تمام سرکاری اداروں کو غیر فوجی بنانا۔

فورم پر کشمیر کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے پاکستان نے جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو فوری طور پر بند کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کشمیری سیاسی قیدیوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

پاکستان نے یہ مطالبہ بھی  کیا کہ نئی دہلی اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کی تعمیل  کرے، اس کے ساتھ ہی جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے بین الاقوامی قانون  سے اپنی وابستگی کا مظاہرہ کرے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019ء  کواٹھائے گئے غیر قانونی اقدامات کو واپس لے اور ڈیموگرافک انجینئرنگ کو بند کرے۔

Advertisement

Next OPED