مضبوط تعلقات استوار کرنے کی کوشش
پاکستان ترک تزویراتی شراکت داری نئے دور میں سازگار طریقے سے ترقی کرتی رہے گی
مُصنّف خارجہ اُمور کے مُبصر اور فُل برائٹ ایوارڈ یافتہ ہیں۔
’ہم نے ہمیشہ پاکستان کے درد کو اپنا درد، اس کی خوشی کو اپنی خوشی اور اس کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھا ہے‘۔یہ بات ترک صدر رجب طیب اردوان نے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے دو روزہ دورہ ترکیہ کے دوران کہی۔
حالیہ دورہ کئی طریقوں سے نتیجہ خیزثابت ہوا، دورے سے پتہ چلا کہ دو طرفہ دفاعی تعلقات نئی منزلوں کو چھونے لگے، اور اگلے تین سالوں میں تجارتی حجم کو5 ارب ڈالر تک بڑھانے کے لیے ایک نیا معاہدہ بھی رسمی طور پر سامنے آچکا ہے۔
دفتر خارجہ نے پاکستان اور ترکیہ کے مشترکہ دفاعی تعاون کے منصوبے کے حوالے سے کہا ہےکہ یہ منصوبہ (ملجم ڈیفنس) پاکستان ،ترکیہ تزویراتی شراکت داری( اسٹریٹجک پارٹنرشپ) میں ایک اہم سنگ میل کی نمائندگی کرتا ہے جو ترقی کی جانب پیش رفت جاری رکھے ہوئے ہے۔ہمیشہ سے دو طرفہ مضبوط برادرانہ تعلقات اور اقتصادی توقعات کو مزید مستحکم کرنے کےلیے پاکستانی وزیر اعظم شریف کا بروقت دور ہ ترکیہ مستقبل کےلیے اہمیت کا حامل ہے۔
تجارت اور اقتصادیات کے بارے میں واضح ہوا ہےکہ دونوں فریقوں کے درمیان تجارتی حجم ان کی بہتر اسٹریٹجک شراکت داری کی عکاسی نہیں کر رہا۔اس حقیقت پر غور کریں کہ دو طرفہ تجارت میں تقریباًایک اعشاریہ 5 ارب ڈالر ترکیہ کی سالانہ تجارت میں مجموعی طور پر 250 ارب ڈالر کا صرف ایک حصہ ہے۔اس وجہ سے پاکستان کی طرف سے ایک باضابطہ معاہدے پر دستخط کرنا ایک قابل ستائش قدم ہے جو اگلے تین سالوں میں اس حجم کو 5 ارب ڈالر تک لے جا سکتا ہے۔
سرمایہ کاروں کے جذبات کو مدنظر رکھنے کے لیے دارالحکومت کے نقطہ نظر نے بھی اب تک تعلقات میں سازگار کردار ادا کیا ہے۔یہاں تک کہ دونوں ممالک کی تاریخ، دوستی اور صلاحیت کو برقرار رکھنے کی خواہش اس وقت آزمائشی سفارت کاری کی ایک موزوں ترین مثال ہے جو مجموعی طور پر ترقی میں معاون ثابت ہورہی ہے۔
توقع ہےکہ دوطرفہ تعلقات کے مواقع کثیر شعبوں جیسے قابل تجدید ذرائع اور توانائی کے متبادل ذرائع میں تعاون کے وسیع پیمانے پر سامنے آئیں گے ۔مختلف اقسام کی سرمایہ کاری کے مواقع نے وزیر اعظم شہباز شریف کے دورے کو اہم شناخت دے دی ،اور پائیدار مستقبل کے لیے تیل پر انحصار کو محدود کرنے کے لیے عالمی ضرورت کے ساتھ مل کر ہم آہنگی پیدا کرنے میں مدد کی ۔
ملک میں آنے والی تمام سرمایہ کاری کا ایک اہم عنصر پاکستان میں ’سرخ فیتے ‘ کا خاتمہ ہے، جسے حالیہ حکومت نے پختہ عزم کے ساتھ پورا کیا ہے۔سرمایہ کاروں سے خطاب میں شہباز شریف نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ایسے سستے طریقے میری حکومت اور پاکستانی عوام کے لیے قابل قبول نہیں کیونکہ وہ ترکیہ کی سرمایہ کاری اور حمایت سے فائدہ حاصل کرچکے ہیں ۔
اس طرح طریقہ کار کے مسائل سے پیچھا چھڑانے کی کوششیں پاکستان، ترک تجارتی مفادات کے لیے خاص طور پر تجارتی حجم میں توسیع اور نئے شعبوں کی پہچان کے ساتھ ممکنہ جیت کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔تجارتی رابطے کے بڑے انتظامات کے لیے انقرہ کا کھلا پن چین پاکستان اقتصادی راہداری کو مستقبل کے لیے ایک قابل قدر کیس بناتا ہے۔اسلام آباد د طویل عرصے سے بیلٹ اینڈ روڈ کے تحت سرمایہ کاروں، مارکیٹوں اور شراکت دار ممالک کو پیش کیے جانے والے فوائد کو سمجھ چکا ہے، اور جنوبی ایشیا کے مرکز ترکیہ کے ساتھ ان منافعوں کو بانٹنے کا خواہاں ہے۔
بیجنگ، انقرہ اور اسلام آباد کے درمیان سہ فریقی تعاون پر وزیر اعظم شہباز شریف کا زور دینا ، تیزی سے بدلتے ہوئے ترکیہ کو ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے تاکہ اس کی مارکیٹ کو مغرب سے مشرق تک پیداواری طور پر پھیلایا جا سکے۔
غور کریں کہ پاکستان کے وسیع تر پڑوسی ممالک میں اپنی تجارت اور رابطوں کو پہلے سے ہی وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ اقتصادی سفارت کاری کے ذریعےبڑھا رہا ہے۔
لہذا ترکیہ کے اسٹیک ہولڈرز کے لیے بہتر حفاظتی اقدامات، ترجیحی سرمایہ کاری کے مواقع اور سرخ فیتے کے خاتمے کے بارے میں دا رالحکومت کی معلومات درست سمت میں ایک قدم کے طور پر فرائض انجام دیتی ہیں ۔شہباز شریف نے اپنے دورے کے موقع پر کہا کہ ہمیں ماضی کے اپنے تجربے سے سیکھ کر رفتار کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ماضی کے نقصانات کی تلافی کی جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں طرف لامحدود صلاحیت موجود ہے۔ہمیں انہیں ہم آہنگ کرنا ہوگا،انہیں ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔
دو طرفہ تعلقات سے ایک اور اہم پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ موجودہ صورتحا ل میں ترکیہ کے دفاعی تعاون پر گہری توجہ دی گئی ہے جیسا کہ ترکیہ کے تعاون سے پاکستان نیوی کے لیے تیار کیے گئے تازہ ترین توپ بردار جنگی جہاز کے اجراء کو بھی حال ہی میں دیکھا گیا ہے۔
دفاعی صنعتی کمپلیکس میں ایک دوسرے کی توقعات کو مؤثر طریقے سے پورا کرتے ہوئے جنگی جہازوں کے میدان میں پیش رفت کے علاوہ یہ منصوبہ کامیاب ثابت ہوا ہے۔
اس وقت جدید ترین توپ بردار جنگی جہازوں کی لانچ میں دوطرفہ دفاعی شراکت داری کی تعدد اور پیمانے کو بڑھانے کے لیے خوش آئند سبق بھی ملتا ہے۔خاص طور پر جب ترکیہ کے جہاز پاکستان کے ’ دشمنوں کو فاصلے ‘پر رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس تبدیلی کو آگے بڑھانے کا ایک آغاز فلیگ شپ پاکستان،ترکیہ مینوفیکچرنگ پراجیکٹس کے تحت صنعتی و دفاعی مہارت میں اضافے کو ترجیح دینا ہے۔
یہ درست ہےکہ جاری دفاعی منصوبوں، جیسے کہ ملجم ترک جنگی جہاز پروگرام، کو ان سے جوڑنا ایک غلطی ہوگی جو دوسروں کے ذریعے ان کے متعلقہ پڑوسی ممالک میں آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔اس کی وجہ یہی ہےکہ نہ تو ترکیہ اور نہ ہی اسلام آباد کسی جارحانہ صلاحیت کا ہدف رکھتے ہیں۔بلکہ اس کا مقصد یہ ہےکہ جدید ترین فوجی ٹیکنالوجیز کو ’جنگ یا جارحیت‘ کے لیے نہیں امن کی جانب بڑا قدم تصور کیا جا ئے ۔
پڑوسی ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی انتشار کے وقت، انقرہ اور اسلام آباد نے بھی بڑے تنازعات پر ایک تزویراتی نقطہ نظر رکھا ہے اور مذاکراتی امن کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔یوکرین، روس جنگ کو ہی لے لیں، اصولی غیر جانبداری، بلاک سیاست سے نفرت، اور ثالثی کی حمایت ان کی خارجہ پالیسی کے حساب کتاب میں نمایاں ہے۔
یہ پس منظر بلاشبہ اہم ہے، کیونکہ یہ علاقائی اور بین الاقوامی گفتگو پر حاوی مسائل پر پاکستان،ترکیہ ہم آہنگی کو مضبوط بنانے کی ضرورت کو تقویت دیتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے دو روزہ دورے کے دوران اس نوعیت کی ہم آہنگی واضح تھی، اقوام متحدہ سے لے کر شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن تک کوآپریٹو ڈپلومیسی کے وسیع عرض البلد کی نشاندہی کرتی ہے۔
سب ہی بتاچکے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترکیہ ،پاکستان تزویراتی شراکت داری شپ نئے دور میں سازگار طریقے سے ترقی کی جانب گامزن رہے گی ۔






