حنان آر حسین

11th Dec, 2022. 09:00 am

یورپی یونین اور ایران جوہری معاہدہ

یورپ نے جے سی پی او اے کی بحالی کے تناظر میں روابط کے ایک قابلِ اعتماد ذریعے کے طور پر اپنی ساکھ بنائی ہے، اور بوریل کے مذاکرات اس کا ٹھوس ثبوت ہیں

مُصنّف خارجہ اُمور کے مُبصر اور فُل برائٹ ایوارڈ یافتہ ہیں۔

یورپی یونین (ای یُو) کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے حال ہی میں ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان سے اہم ترین مذاکرات کیے۔ بات چیت میں جوہری معاہدے کے مُتنازع نکات کو ختم کرنے کے لیے ایرانی دلائل واضح ہو گئے۔ اس میں یہ سمجھنا بھی شامل ہے کہ اصل ایران جوہری معاہدے کے تمام دستخط کنندگان کو جمُود توڑنے کے لیے نتیجہ خیز مذاکرات کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ بہرحال امریکا نے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) سے استثنیٰ جاری رکھا ہوا ہے، اور اُس نے کھُلے عام غیرملکی توجہ جوہری معاہدے کے نتائج کی بجائے ایران کے اندرونی مظاہروں پر مرکوز کی ہوئی ہے۔

حساس مذاکرات کے ساتھ ساتھ امریکا اور ایران کے درمیان اعتماد کے بڑھتے فقدان نے جے سی پی او اے مذاکرات میں پیش رفت کے لیے برسلز کے کردار کو اور بھی اہم بنا دیا ہے۔ کئی اصل یورپی دستخط کنندگان نے پہلے ہی ایک بحال شدہ معاہدے پر کامیابی کے مختلف درجات کا اشارہ دیا ہے، اور اس کے اختتام کو قریب المدت امکان کے طور پر دیکھا۔ یہ اس تناظر میں ہے کہ بوریل ۔ امیر تبادلہ خیال وسیع تر یورپی کردار کے امکانات کو روشن کرتا ہے۔ تہران ٹائمز نے اختتامِ ہفتہ پر رپورٹ کیا کہ،  ’’بوریل نے ویانا مذاکرات میں فریقین کو ان کی جے سی پی او اے کی ذمہ داریوں پر عمل کرنے کی تلقین کی اپنی کوششوں پر روشنی ڈالی، اور اس بات پر زور دیا کہ وہ اس سلسلے میں مفاہمت کے حصول کی منزل طے کرنے کے لیے اپنے رابطے جاری رکھیں گے‘‘۔

امریکا کی طرف سے لگائی گئی یکطرفہ پابندیوں کو ہٹانے کے لیے ایرانی دباؤ بھی جوہری معاہدے کے تعطل میں ایک اہم مطالبہ ہے۔ واشنگٹن اس مفروضے پر کام کر رہا ہے کہ اس طرح کے یکطرفہ اقدامات کو برقرار رکھنا کسی نہ کسی طرح اس کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ تاہم یہ استدلال بڑی حد تک اس بات کو نظرانداز کرتا ہے کہ پابندیاں تعریف کے لحاظ سے ان لوگوں کو نقصان پہنچاتی ہیں جن کی حمایت کرنے کا امریکا دعویٰ کرتا ہے۔ مزید برآں یہ جوہری معاہدے کے مذاکرات میں امریکا کی قانونی دلیل کو کمزور کرتا ہے جبکہ وہ تہران نہیں، واشنگٹن ہے جس نے ایران کے خلاف “زیادہ سے زیادہ دباؤ” ڈالنے کی مہم کے تحت ایسے اقدامات کیے تھے۔

Advertisement

یہ مہم جے سی پی او اے کے قصّے میں ٹرمپ انتظامیہ کی اپنی واپسی کا حصہ تھی، اور بائیڈن کو ایک مختلف تناظر میں سمجھنا چاہیے اگر اُن کا مقصد مستقبل میں ایک نئے معاہدے کے تحت ایران کے ساتھ رہنا ہے۔ غیر قانونی پابندیوں کو ہٹانے کے لیے ایرانی اتحادیوں بشمول چین اور روس کی جانب سے مسلسل حمایت کو دیکھتے ہوئے بے عملی محض تہران کے اس نظریے کو تقویت دیتی ہے کہ امریکی حربے مزید پیچیدگیوں کا سبب بنیں گے۔

یہ سب کچھ اس بات کو سمجھنے میں برسلز کے اہم کردار پر روشنی ڈالتا ہے کہ جوہری معاہدے کی بحالی کے مذاکرات کے ساتھ اقتصادی پابندیاں غیرمناسب ہیں، کیونکہ جوہری معاہدہ علاقائی امن کے لیے مذاکراتی اتفاقِ رائے ہے۔ درحقیقت جوہری معاہدے کی بحالی کا مکمل مقصد باہمی تعمیل کو یقینی بنا کر تمام فریقین کے درمیان زیادہ سے زیادہ صف بندی پیدا کرنا ہے، نہ کہ اختلاف۔ اسی تناظر میں بوریل کی امیر عبد اللہیان کے ساتھ بات چیت برسلز کے لیے جوہری معاہدے کے ان متنازع نکات پر توجہ مرکوز کرنے کا ایک نادر موقع ہے جو طویل عرصے سے مذاکرات کاروں کے درمیان خاموش اتفاقِ رائے کے باوجود معاہدے کو نتیجہ خیز بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جے سی پی او اے کی رفتار کو آگے بڑھانے میں برسلز کی معاونت کو نظرانداز کرنا مشکل ہے۔ ایک تو یہ اصل جے سی پی او اے دستخط کنندگان کے ساتھ تناؤ کے عروج پر واشنگٹن اور تہران کے درمیان بالواسطہ پیغام رسانی میں قیادت کرنے کے لیے ایک کلیدی عنصر تھا۔ مزید برآں ٹرمپ انتظامیہ کے معاہدے سے دستبرداری کے تناظر میں یہ احساس ہے کہ یورپ جوہری معاہدے کی قابل اعتماد رعایتوں کے درمیان رکاوٹ ہے جو تہران کے ساتھ ساتھ واشنگٹن کے لیے بھی قابل قبول ہیں۔ یورپ نے جے سی پی او اے کی بحالی کے تناظر میں روابط کے ایک قابلِ اعتماد ذریعے کے طور پر اپنی ساکھ بنائی ہے، اور بوریل کے مذاکرات اس کا ٹھوس ثبوت ہیں۔

تاہم طے شدہ جوہری معاہدے پر عمل درآمد اس سے کہیں زیادہ کا مُتقاضی ہے۔ مثال کے طور پر فرانس، جرمنی اور برطانیہ جنہیں ای 3 (E3) کے نام سے جانا جاتا ہے، نے ایران کی حالیہ یورینیم افزودگی کے خلاف ایک متنازع بیان جاری کیا، لیکن اس طرح کےعمل کے لیے ایران کے بنیادی تحفظات کو دور کرنے کی خاطر بہت کم پیشکش کی۔ تہران اس قرارداد پر بظاہر ناراض تھا جس میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی سے “ناکافی تعاون” پر ایران پر باضابطہ تنقید کی گئی تھی۔ ایرانی تحفظات کو آئی اے ای اے کی تنقید کے تناظر میں لانے کی بجائے، ای 3 نے ایران کے یورینیم کے اقدامات کو بطور قابلِ مذمت اشتعال انگیزی اُجاگر کرنے کی کوشش کی۔ ماضی میں ذمے دار یورپی قیادت نے ایسا نہیں کیا۔

اِس موقع پر ای 3 کے بیان کے مطابق، “ای 3 نے ہمارے شراکت داروں کے ساتھ معقول حد تک محدود ایرانی جوہری پروگرام کی واپسی کے لیے بات چیت کی اپنی پوری کوشش کی ہے۔ کئی مہینوں کی گفت و شنید کے بعد جے سی پی او اے رابطہ کار نے مارچ میں اور دوبارہ اس سال اگست میں قابلِ عمل معاہدے پیش کیے جس سے ایران جے سی پی او اے کے وعدوں کی مکمل تعمیل کرتا اور امریکا کو اس معاہدے میں واپس لے آتا”۔

اس مقصد کے لیے امیر عبداللہیان سے بوریل کے واضح مذاکرات یورپ کے لیے امریکا اور ایران کے مابین جوہری معاہدے کی مُسابقتی توقعات کو مربُوط کرنے کے مزید مواقع کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اگر ایران کی مُتنازع یورینیم افزودگی ایک چیلنج ہے تو اسی طرح یکطرفہ امریکی پابندیاں بھی ہیں جو ایک پوری معیشت کو گھٹنوں پہ لے آئی ہیں۔ پابندیوں کے اس ڈھیر میں دانستہ اضافہ کسی ایسے معاہدے کو آگے بڑھانے میں کچھ معاون ثابت نہیں ہوگا جو تمام طاقتوں کے مفادات میں ہو۔

Advertisement

اس لیے برسلز کو اس بات کی وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ “مفادات” ایک سادہ سی وجہ کے لیے کیسے دکھائی دیتے ہیں۔ عملی اقدامات کی کمی یورپی یونین کے معاہدے کو آخر تک دیکھنے کے عزم کی بہت بُری عکاسی کرتی ہے۔

Advertisement

Next OPED