
ہمارا افغان مسئلہ
چمن میں گزشتہ ہفتے افغان سرحدی فورسز کی جانب سے ’ بلا اشتعال ‘گولہ باری کے نتیجے میں کم از کم 7 افراد جاں بحق جب کہ 16زخمی ہوگئے ۔انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر )کی جانب سے اس واقعے کو بجا طور پر ’ بلاجواز جارحیت‘ قرار دیا گیا ہے۔متضاد اطلاعات کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب اسمگلروں نے افغان طالبان کے تعاون سے افغانستان کے راستے پاکستان میں گھسنے کی کوشش کی،جب کہ دیگر نے اسے مبینہ طور پر افغان سرزمین پر پاکستانی سیکیورٹی چوکیوں کی تعمیر سے جوڑ دیا ، جو کہ ڈیورنڈ لائن کے احترام کی پاکستان کی معیاری پالیسی کے پیش نظر ایک سمجھ میں نہ آنے والا الزام ہے۔
گزشتہ اتوار کی ہنگامہ آرائی بہ مشکل ایک ماہ بعد ہوئی ۔ اس سے پہلے اسی طرح کے ایک حملے کے نتیجے میں ایک پاکستانی سیکیورٹی اہلکار شہید اور دو زخمی ہوئے تھے۔اس واقعے کے بعد باب دوستی (فرینڈشپ گیٹ) کو کئی روز تک بند کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں سرحد پار تجارتی اور دیگر سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئیں ۔ اس نوعیت کے واقعات اشرف غنی کے دور حکومت کے دوران پاک افغان تعلقات میں تباہی کا باعث تھے اور بدقسمتی سے یہ واقعات تاحال پاکستان کے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔جی ہاں، ماضی میں امریکہ کی حمایت یافتہ افغان حکومت کے دشمنی پر مبنی اقدامات کا کوئی جواز موجود نہیں تھا کیونکہ جب طالبان جنگ زدہ ملک کے آقا کے طور پر کام کر رہے ہیں تو مسلسل افغان دشمنی کا کوئی جواز نہیں بننا چاہیے۔
افغان طالبان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسلام آباد اُن چند دارالحکومتوں میں سے ایک ہے جو افغانستان کی عالمی تنہائی کو ختم کرنے کی کوششوں میں کابل کی مسلسل مدد کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس کے باوجود کابل کے موجودہ حکمران، گذشتہ حکومت کی طرح ڈیورنڈ لائن کو کمزور کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔
حالیہ ہفتوں کے دوران افغانوں نے کئی مقامات پر باڑ کے کچھ حصے بھی اکھاڑ دئیے ہیں ۔یہ قدم اس لاحاصل بحث کے بعد اٹھایا جا رہا ہے کہ باڑ نے منقسم پشتون قبائل کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگا دی ہے۔ اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے ساتھ تحریک کو رواں دواں رکھا جائے، جسے کابل کے یکے بعد دیگرے حکمران دونوں ممالک کے درمیان عالمی سطح پر تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحد ہونے کے باوجود تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔افغان سرزمین سے ہونے والے حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری مغربی سرحدیں بدستور دشمنی کی بنیاد پر قائم ہیں اور پاکستان ،مخالف قوتوں کو طالبان کے دور حکومت میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کو ہوا دینے کے لیے اسے ایک جمپنگ بورڈ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کی تمام امیدیں خاک میں مل چکی ہیں ۔
جیسا کہ تحریک طالبان پاکستان، انتہا پسند ذیلی قوم پرست اور مذہبی گروہ افغان سرزمین پر بلاامتیاز کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، پاکستان کی جانب سے کابل کو واضح پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ ڈیورنڈ لائن کی مسلسل خلاف ورزی کو معمول کے مطابق قبول نہیں کیا جائے گا۔
اسلام آباد کو غیر ریاستی عناصر اور دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کو افغانستان کو علاقائی یا عالمی دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے سے روکنے کے لیے افغانوں پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو باڑ کی حفاظت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اس منصوبے کو عظیم انسانی کوششوں اور قربانیوں کے ذریعے دنیا کے سب سے زیادہ مشکل اور کشیدہ خطے میں شروع کیا گیا ہے۔ اسمگلروں، ان کے پشت پناہوں اور دہشت گردوں کو اسے گرانے کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ کسی بھی دو ممالک کے درمیان سرحدی انتظام کو یقینی بنایا جانا چاہیے ،چاہے ایسا کرنے کےلیے طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
یہ صورت حال کئی اہم سوالات کو جنم دیتی ہے۔ جیسا کہ ، پاکستان اب اپنی افغان خارجہ پالیسی کے ساتھ کیسے آگے بڑھے گا؟ کابل اوراسلام آباد کے درمیان سرگرمیوں کی نوعیت کیا ہوگی؟ اور کیا پاکستان ، افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرے گا؟
یہ وہ سوالات ہیں جن پر پاکستان کو جلد یا دیر سے ، نمٹنا ہی پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ حملہ آور کو مطمئن کرنے کو کسی بھی طرح پالیسی قرار نہیں دیا جا سکتا۔افغان طالبان کو بھی موجودہ حالات پر قابو پانا چاہیے۔ دنیا سے یہ توقع رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ وہ کابل حکومت کو تسلیم کرے، اگر وہ اپنے ملک کو مکمل کنٹرول میں نہیں رکھ سکتی، یا اپنی فوج کے نظم و ضبط کو برقرار رکھنے میں ناکام ہے ۔ طالبان کی حکومت دنیا کو کیا پیغام دینے کے بارے میں سوچ رہی ہے ؟ جب کہ وہ بار بار اپنے انتہائی آزمائشی اتحادی کے خدشات کو دور کرنے میں ہی ناکام رہی ہے۔
قانونی حیثیت ،تشدد اور غلط مہم جوئی کی سوچی سمجھی پالیسیوں کے ذریعے نہیں بلکہ موثر سفارت کاری کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے، اس کے بعد ہی اس سے نکلنے کا آسان راستہ واضح ہوسکتا ہے، لیکن افغان طالبان اگر یہ سوچتے ہیں کہ یہ پالیسی نتیجہ خیز ثابت ہوگی تو ان سے زیادہ بے وقوف کسی اور کو نہیں کہا جاسکتا۔