ایک غیر معمولی امتزاج یا سیاسی اتحاد
بنگلہ دیش راکھ سے اُبھر کر جنوبی ایشیا میں مضبوط تسلط جما نے کی کوشش میں مصروف
لکھاری وکیل، مصنفہ اور لمز میں ایجوٹنٹ فیکلٹی، پی آئی ڈی ای کی سینئر وزیٹنگ فیلو اور مشاورتی بورڈ کی رُکن ہیں۔
ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتو ں کے بعد
(فیض احمد فیض )
17 دسمبر کا دن کچھ دلچسپ واقعات کی مناسبت سے منایا جاتا ہے۔ ان میں 1991ء میں قازقستان کی طرف سے آزادی کا اعلان، مشہور لیری کنگ لائیو شو کی آخری قسط کا نشر ہونا، 1707ء میں جاپان میں ماؤنٹ فوجی کا آخری پھٹنا اور 1773ء میں بوسٹن کی بدنام زمانہ ٹی پارٹی جیسے واقعات شامل ہیں ۔تاہم پاکستان کے لیے یہ ایک انتہائی المناک واقعہ ہے جس میں ملک کے دو مضبوط بازو ٹوٹ کر جدا ہوگئے ، جس کی وجہ سے دو بھائیوں (اگر مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کبھی بھائی تھے) کے تعلقات کی ناقابل تسخیر دشمنی کا باعث بنے۔
تقسیم ہند کے دوران 1947ء میں کھیلی گئی خون کی ہولی ابھی ذہنوں میں تازہ تھی کہ قتل و غارت کے ایک نئے دور نے بنگالیوں اور مغربی پاکستانیوں (پنجابیوں کو زیادہ واضح طور پر) کے درمیان جو کچھ بھی باقی رہ گیا تھا اسے تباہ کر دیا۔ یکساں عقیدہ اخوت کے بارے میں خیال خود غرض سیاسی عزائم، اقتدار کی کشمکش، معاشی محکومیت، غیر معقولیت، غلط فہمیوں اور نوآبادیاتی ذہنیت کے دہانے پر کھڑا ہوا جو 1947ء میں رخصت ہونے والے انگریزوں کی میراث تھی، اور جسے مغربی بازو کے حکمرانوں نے بڑی بے تابی سے قبول کیا۔
بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی کے بارے میں بات کرتے وقت گلے میں گرہ سی پڑ جاتی ہے۔ ملک کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے کہا کہ پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کو برقرار رکھنا، سب سے دوستی اور کسی سے بھی بدگمانی وہ پالیسی ہے جس پر میں پوری زندگی عمل کرتی رہی۔یہ رہنما اصول پاکستانی اور بنگلہ دیشی سرکاری ہم منصبوں کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقاتوں سے صاف جھلکتے ہیں جیسا کہ ایکسپریس ٹریبیون میں 6 دسمبر 2022ء کو شائع ہونے والی خبر کی رپورٹ سے واضح ہے۔مبصرین کے مطابق، پاکستانی اور بنگلہ دیشی رہنماؤں کے درمیان حالیہ رابطوں نے دونوں ممالک کے درمیان برسوں کے کشیدہ تعلقات کے بعد، اگر ابھی تک ممکن نہیں تو نظر بندی کی ایک نادر جھلک فراہم کی ہے۔دسمبر 1971ء میں بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) کی پاکستان سے آزادی اور 9 ماہ کی خونریز جنگ کے بعد، دو جنوبی ایشیائی مسلم ریاستوں کے درمیان تعلقات اتار چڑھاؤ کے ساتھ نازک دور سے گزرے ہیں۔
بنگال کی تاریخ پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم زمانے سے، یعنی چوتھی صدی قبل مسیح سے، یہ ایک اہم خطہ رہا ہے جس کی آب و ہوا، زرخیز زمین، قدرتی وسائل اور بھرپور ثقافتی اور ادبی ورثہ ہے۔بھولوا، ننداس اور موریہ کے ہندو اور بدھ خاندانوں سے لے کر دیواس، پرتاب گڑھ اور تراف سلطنت تک، خلجی خاندان کے ساتھ اسلام کی آمد سے، دہلی سلطنت مغلیہ سلطنت تک، اور 1757ء میں پلاسی کی جنگ کے بعد نوآبادیاتی قبضے سے لے کر مارچ 1972ء میں بنگلہ دیش کی تشکیل تک، اس خطے کے لوگوں کو اپنے سیاسی آقاؤں کے ہاتھوں زبردست مشکلات اور طوفانوں کی صورت میں قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان تکلیف دہ واقعات کے باوجود، کوئی بھی اس عظیم قوم کی لچک کی تعریف نہیں کر سکتا جو راکھ سے نکل کر جنوبی ایشیا میں ایک زبردست تسلط قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے لیے اصل تحریک بنگال میں 1906ء میں ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کے ساتھ شروع ہوئی تھی جب کہ خطے کے دیگر حصوں میں رہنے والے متحدہ ہندوستان کے لیے کوشاں تھے۔یہاں تک کہ
محمد علی جناح بھی سید وزیر حسن اور محمد علی کے اصرار کے باوجود اکتوبر 1913ء تک آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل نہیں ہوئے ۔کتنی ستم ظریفی ہے کہ بنگالی لیڈروں کی پیداوار کو پاکستان کا نام دیا گیا جب کہ زبان کے مسائل سے مغلوب ہو کر ہمارے بھائیوں نے اپنے نوزائیدہ ملک کا نام بنگلہ دیش رکھا۔
اگر پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو واقعات کے اس بدقسمت سلسلے سے لاتعداد سوالات جنم لیتے ہیں، جن کے جواب کبھی بھی واضح الفاظ کی صورت میں نہیں ملے اور نہ ہی سیاست دانوں اور فوج نے کبھی اپنی کوتاہیوں اور دور اندیشی کا اعتراف کیا کہ تاریخ کو اس انداز میں آشکار ہونے دیا جس سے ان لوگوں کے رشتے میں دراڑ پیدا ہو جو ابتدا میں ہمیشہ کے لیے بندھے ہوئے تھے۔اس وقت اور اب بہت سے سازشی نظریات گردش کر رہے ہیں محض نظریات ہیں۔حقیقت ہماری اپنی شخصیت اور مجموعی طور پر بنگالی قوم کے ساتھ ہمارے سلوک کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔
یعقوب خان بنگش نے ایسے خیالات کو پس پشت ڈالتے ہوئے 12 ستمبر 2011ء کو اپنی تحریر میں لکھا کہ ’ ’ سب سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ 1971ء میں جب پاکستان ٹوٹا، وہ مکمل طور پر پاکستانی حکومت کے رویوں اور اقدامات کی وجہ سے ہوا۔مانا کہ ہندوستان نے مشرقی پاکستانیوں کی جدوجہد میں ان کی مدد کی، لیکن یہ بہت بعد کے مرحلے میں تھا اور اس نے علیحدگی کی تحریک کی تشکیل میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کیا۔ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ 16 دسمبر 1971ء کے ہتھیار ڈالنے کے بعد، پاکستان اپنی کم ترین سطح پر تھا اور بھارت آسانی سے مغربی پاکستان کے ٹوٹنے پر اکسا سکتا تھا ، لیکن ایسا نہیں ہوا‘‘۔
ایلی ویزل نے درست کہا ہے کہ کوئی انسانی نسل برتر نہیں ہے۔ کوئی مذہبی عقیدہ کمتر نہیں ہے۔ تمام اجتماعی فیصلے غلط ہیں۔صرف نسل پرست ہی انہیں بناتے ہیں اور ان دانشوروں کے لیے جو ظلم کے سامنے جھکتے ہیں، میں نے قسم کھائی کہ جب بھی اور جہاں بھی انسان مصائب اور ذلت برداشت کریں گے خاموش نہیں رہیں گے۔ہمیں ہمیشہ طرفداری کرنی چاہیے۔ہم نے اپنی پچھلی نسلوں کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش میں کئی دہائیوں سے گزرے ہیں،لیکن یوں لگتا ہے کہ دشمنی سے مکمل نجات ابھی بہت دور کی بات ہے کیونکہ دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت کے لیے اب بھی سرکاری ویزا کی ضرورت ہوتی ہے یہاں تک کہ ان لوگوں کے لیے بھی جن کی جائے پیدائش دوسرے خطے میں واقع ہے۔
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبز ے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
ہماری عالمی قیادتوں کی فکری صلاحیت کے بارے میں کوئی کیا کہہ سکتا ہے؟ سوائے اس کے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے وہ زندگی کے سب سے اہم عنصر یعنی انسانیت سے ہی رابطہ کھو بیٹھتے ہیں۔شاید مارک ٹوین نے اسی غیر معمولی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ’ ’یہ حقیقت کہ انسان کے اند پائی جانے والی صحیح اور غلط کو پہچاننے کی صلاحیت اسے دوسری مخلوقات سے الگ کرتے ہوئے اس کی فکری برتری کو ثابت کرتی ہے ،تا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہےکہ کسی بھی مخلوق کے مقابلے میں اُس کی اخلاقی کمتری کو ثابت کرنے کےلیے کچھ بھی غلط کر سکتا ہے ،جو یہ نہیں کرسکتا تو کیا اسے بھی انسان کہیں گے ؟ ‘‘