تشدّد کے بارے میں کچھ تصوّرات
ہم اُن حالات کو جو تشدد اور جنگوں کا باعث بنتے ہیں، روکنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں، تاہم اِنہیں مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتے
مُصنف سلامتی اور خارجہ پالیسیوں میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ہیں
جیسا کہ یورپ کے مشرقی علاقے پر جنگ چھڑ گئی جس سے ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو گئے۔ جب دنیا کے بہت سے دوسرے حصے تشدد کی لپیٹ میں ہیں بشمول وہ خطہ جس میں ہم رہتے ہیں، مجھے برطانوی ڈرامہ نگار ایڈورڈ بانڈ (Edward Bond) کی یاد آئی۔ بانڈ کی تشدد کی تصویر کشی پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ۔۔۔ چاہے یہ اُن کے ڈرامے Savedمیں بچّے کا قتل ہو، ڈراما Early Morning میں آدم خوری (Cannibalism) یا ڈراما Lear میں مارپیٹ کی شکل میں ہو، ایڈورڈ بانڈ تشدد کو بطور علامت اور حقیقت استعمال کرتے ہیں جو ہمارے وجود کا پتا دیتی ہے۔
ناقدین اپنی تشریح میں اختلاف رکھتے ہیں کہ آیا تشدد ایڈورڈ بانڈ کی تکنیک سے خارج ہے یا اِن کے ڈراموں کے تانے بانے میں بُنا گیا ہے۔ تاہم جو چیز واضح ہے وہ صدمے کا اثر ہے۔ اپنے ڈرامے لیئر کے دیباچے میں ایڈورڈ بانڈ نے لکھا، “میں تشدد کے بارے میں اتنا ہی فطری لکھتا ہوں جتنا کہ جین آسٹن (Jane Austen) نے آداب کے بارے میں لکھا ہے۔ تشدد ہمارے معاشرے کو تشکیل دیتا ہے اور جنون بنتا ہے، اور اگر ہم پُرتشدد ہونا بند نہیں کرتے تو ہمارا کوئی مُستقبل نہیں۔ تشدد کے بارے میں نہ لکھنا غیر اخلاقی ہوگا”۔
یہ بیان، خاص طور پر اس کا عملی حصہ، سب سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جب ایڈورڈ بانڈ تسلیم کرتے ہیں کہ تشدد ہمارے معاشرے کو تشکیل دیتا ہے اور جنون بنتا ہے، تب بھی وہ سوچتے ہیں کہ اگر ہم پُرتشدد ہونا بند نہیں کرتے تو ہمارا کوئی مُستقبل نہیں ہے۔ اس طرح اس کا مطلب یہ ہوا کہ جبکہ تشدد انسانی معاشروں میں موجود ہے، یہ ایک فطری یا ایک ضروری شرط بھی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا انتباہ ہے کہ جب تک اِسے روکا نہیں جاتا، ہمارا کوئی مُستقبل نہیں ہو سکتا۔ دیباچے کے ایک اور مقام پر اُن کے کہنے سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔۔۔ جارحیت ایک قابلیت ہے لیکن ضرورت نہیں۔ اور اس کے باوجود، اُن کا کام اِس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ تشدد ہمارے سماجی تانے بانے، معاشروں اور ریاستوں کی ساخت میں سرایت کر چکا ہے۔
لیکن وہ ساخت کیسے بنتی ہے؟ ولیم گولڈنگ (William Golding) نے ناول لارڈ آف دی فلائیز (Lord of the Flies) میں ایک تجربہ کیا۔ ایک جزیرے پر جسے موت کی جگہ کے طور پر دکھایا گیا ہے، (Marooning) کرتے بچّے درخت سے لٹکے ایک مردہ پیراشوٹسٹ کے ساتھ موجود ہیں اور زمین پہ “بکھرے ہوئے ناریل” ہیں۔ لڑکے بدل جاتے ہیں، اُن کی درجہ بندیاں خام، جسمانی طاقت کے ذریعے کی جاتی ہیں، شکار شروع ہوتا ہے اور ایک سؤر کا سر نیزے پر نصب نظر آتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کی پائیدار اور گہری پریشان کن یادوں میں سے ایک ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا جانا ہے۔ جیسا کہ ماہر طبیعیات جے رابرٹ اوپن ہائیمر (J. Robert Oppenheimer) نے 16 جولائی 1945ء کو پہلے امریکی جوہری تجربے (Trinity Test) کا آتشیں گولا دیکھا تو اُس نے بھگواد گیتا کا حوالہ دیا، “اب میں موت بن چکا ہوں، دنیاؤں کو تباہ کرنے والا”۔
ہیروشیما پر ایٹم بم گرائے جانے کی خبر سننے کے بعد برنارڈ بروڈی (Bernard Brodie) جو اُس وقت ییل کے ایک نوجوان اسسٹنٹ پروفیسر تھے، کے حوالے سے بتایا گیا کہ اُنہوں نے اپنی اہلیہ سے کہا، ’’میں نے اب تک جو کچھ بھی لکھا ہے وہ بے کار ہو گیا ہے۔‘‘ بعد ازاں The Absolute Weapon میں اُنہوں نے صورت حال کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا، ’’اب تک ہماری عسکری مُقتدرہ (ملٹری اسٹیبلشمنٹ) کا بنیادی مقصد جنگیں جیتنا رہا ہے۔ اب سے اِس کا بنیادی مقصد اِنہیں ٹالنا ہوگا۔ اِس کا کوئی اور مقصد نہیں ہو سکتا۔”
صدمے کا اثر ہتھیار کی نوعیت کے حوالے سے تھا، یعنی جوہری بم۔ یہی وجہ ہے کہ ٹوکیو اور ڈریسڈن کی آتشیں بمباری کم و بیش یادداشت سے دھندلا چکی ہیں حالانکہ ان میں زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔
ہینا ایرینٹ (Hannah Arendt) بھی اِسی نتیجے پر پہنچیں جیسا کہ اُنہوں نے اپنی کتاب آن وائلنس (On Violence) میں جوہری دور کے آنے کا ذکر کیا، “تشدد کے آلات کی تکنیکی ترقی اب اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں کوئی بھی سیاسی مقصد اِن کی تباہ کن صلاحیت کے مطابق نہیں ہو سکتا یا مسلح تصادم میں ان کے حقیقی استعمال کا جواز پیش نہیں کر سکتا ۔۔۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جو اس سے قبل کے جنگی کھیلوں سے کوئی مشابہت نہیں رکھتا۔ اس کا “عقلی” مقصد کم از کم دفاعی طاقت (ڈیٹرنس) ہے، فتح نہیں”۔
لیکن جنگیں اور تشدد جاری ہے اور یہ سوال کہ کوئی تشدد سے کیسے بچ سکتا ہے، چاہے وہ اندرون ملک ہو یا ریاستوں کے درمیان، پھر بھی اپنی جگہ موجود ہے؟ کیا یہ ممکن بھی ہے؟ بطور ایک حقیقت پسند، اِس سوال کا میرا اپنا جواب یہ ہے کہ ہم اُن حالات کو جو تشدد اور جنگوں کا باعث بنتے ہیں، روکنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں، تاہم اِنہیں مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتے۔
تضاد یہ ہے کہ ہمیں اسے ختم کرنے کے لیے ہمیشہ تشدد ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ یہ ویسا ہی ہے جو ژاں پال سارتر (Jean-Paul Sartre) نے اپنے ہی سوال کہ “کیا ہم صحت یاب ہو جائیں گے؟” اُنہوں نے فرانسیسی ماہر نفسیات فرانٹز فینن (Frantz Fanon) کی کتاب دی ریچڈ آف دی ارتھ کے دیباچے میں جواب دیا، “ہاں۔ تشدد یونانی افسانوی رزمیہ کردار اکیلیز (Achilles) کے نیزے کی طرح اُن زخموں کو مندمل کر سکتا ہے جو خود اِسی سے لگے ہیں”۔
لہٰذا، جنگیں اور تنازعات جاری رہیں گے جیسا کہ انہوں نے آسمان میں کی تھیں۔ یہ ایک ساختہ تعلق ہے۔ جان ملٹن (John Milton) کی نظم پیراڈائز لوسٹ کی کتاب چھ میں، آسمان میں عظیم جنگ کے پہلے دن کے بعد باغی فرشتے اگلے اقدام کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ شیطان کو یقین ہے کہ انہیں جو شدید گزند لگی ہے وہ ہتھیاروں میں کمی کی مرہون منت ہے، “۔۔۔ شاید زیادہ مناسب اسلحہ/ہتھیار زیادہ پرتشدد ہوں گے، جب اگلی بار ہماری لڑائی ہوگی/یہ ہمارے لیے زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں، اور ہمارے دشمنوں کے لیے بدتر/یا برابر ہو سکتے ہیں۔ ہمارے درمیان جس نے مشکلات کو بنایا/فطرت میں کوئی نہیں ۔۔۔”۔
برسوں پہلے ادب کی میری محترم پروفیسر شائستہ سراج الدین نے مجھے ایک انگریز فوجی اور شاعر کِیتھ ڈگلس (Keith Douglas) سے مُتعارف کرایا جنہوں نے آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی تھی اور پھر فوج میں بھرتی ہو گئے اور دوسری ڈربی شائر یومنری، ایک عسکری مُشاہداتی آرمرڈ رجمنٹ میں بطور افسر دوسری جنگ عظیم میں لڑنے کے لیے رائل ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ سے گریجویشن کیا۔ کیپٹن ڈگلس 9 جون 1944ء کو نارمنڈی کی لینڈنگ کے دوران مارٹر گولے کا ایک ٹکڑا لگنے سے اتنی صفائی سے مارے گئے تھے کہ ٹیڈ ہیوز (Ted Hughes) نے لکھا تھا کہ اُن کے جسم پر کوئی زخم نہیں تھا۔ اُس وقت کیپٹن ڈگلس کی عمر 24 سال تھی۔
جنگ نوجوان اور بہترین انسانوں کی جانیں لیتی ہے۔ جیسا کہ ہیروڈوٹس (Herodotus) نے ہزار سال پہلے لکھا تھا۔
میں نے اس سے پہلے کیتھ ڈگلس کے بارے میں نہیں سنا تھا لیکن اس کے بعد سے اُن کی شاعری اور اُن پر کچھ پڑھا ہے۔ ان سطروں میں وحشت ہے، وہ خوف جو ہمیشہ تشدد میں شامل ہوتا ہے، اور زیادہ بڑے پیمانے پر۔ لیکن تضاد وہ سمجھ ہے جو اس کے ساتھ آتی ہے، جیسے موت کے درمیان زندگی کی قدر، رشتوں کی قدر، قربانی، دوستی، حتیٰ کہ دشمن کے لیے ہمدردی۔
مشین گنوں کی تڑتڑاہٹ اور دیگر ہتھیاروں کی آوازوں میں ایک مہلک تسلسل ہے؛ لیکن اس آواز اور غصے کے درمیان انسانی رویہ ہوتا ہے جس کا مطلب بہت کچھ بھی ہے اور کچھ بھی نہیں، جو خوف زدہ کرتا ہے اور یہ جوڑ ہمیشہ شاعرانہ ہوتا ہے۔
کسی ایک طرف کی جیت کا احساس ہوتا ہے لیکن انسانی جذبات بھی ہوتے ہیں جو ہماری اختیار کردہ اطراف سے بالاتر ہوتے ہیں کیونکہ ہم یا تو اِن کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں یا جیسا کہ بعض اوقات ہوتا ہے، ہمیں لگتا ہے کہ ہم کسی خاص طرف ہونے کے باعث ’’مُنصفانہ‘‘ جنگ لڑ رہے ہیں۔
یہ وہ لمحات ہیں جب جنگ کا وسیع تر منظر جو مؤرّخ اور حکمتِ عملی کے ماہر کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتا ہے، سمٹ کر ایک انسان بن جاتا ہے، وہ مردہ سپاہی جس کی جیب میں اُس کی محبوبہ کی تصویر ہوتی ہے اور جو اب پھٹے ہوئے پیٹ کے ساتھ بوسیدہ ہو کر اُس جہاں کُوچ کر جاتا ہے جہاں سے کوئی بھی واپس نہیں آیا، ان لوگوں کی تکلیف اور محبت کی پرواہ کیے بغیر جو اس کا انتظار کر رہے ہیں۔
لیکن روزی روٹی کے لیے، یا زندہ رہنے والوں کے لیے، اس کام کی وسیع تر تصویر، اس میں لگے داؤ، اور اس کی سنگین قبولیت بھی ہے جسے انجام دینا ضروری ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسے کرنے کے دوران کتنے ہی لوگ مر جائیں۔ یہ وہی مشورہ تھا جو کرشنا نے ارجن کو دیا تھا، اُسی کتاب میں جہاں سے اوپن ہائیمر نے جوہری تجربے کے دوران جملہ لیا تھا۔ جیسا کہ اس نے کہا، ”طبعیات دان گناہ کو جانتے ہیں؛ اور یہ ایک ایسا علم ہے جسے وہ کھو نہیں سکتے”۔
پھر جنگ مہلک تسلسل اور خوف سے متاثرہ شاعری کا مستقل تعامل ہے جو برابر چلتے ہیں۔ میں کسی دوسری انسانی سرگرمی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا جو خود کو قبول کرے، اور بہت سارے تضادات اور ستم ظریفیوں کو سمیٹے: ایسی خود غرضی اور ایسی بے غرضی ، ایسی بے رحمی اور ایسی ہمدردی، ایسا سرد حساب اور ایسا جذبہ۔ اور پھر بھی تشدد، ساختہ تعلق بالکل وہی ہے جو ممکنہ طور پر ہمیں تباہ کر دے گا۔






