نغمانہ اے ہاشمی

25th Dec, 2022. 09:00 am

سماجی تباہی

مُصّنفہ چین ،یورپی یونین اور آئرلینڈ میں سفیر رہ چکی ہیں

مچھلی سر کی طرف سے گلنا شروع ہوتی ہے، معاشروں اور قوموں کی بھی یہی مثال ہے۔ تاریخ ہمیں قوموں کے عروج و زوال اور عظیم سلطنتوں کے معاشرتی زوال کے بارے میں بتاتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تاریخ، اسی طرح کی ٹوٹ پھوٹ اور زوال سے گزرنے والے معاشروں کے معاملے میں بھی، اپنے آپ کو اسی طرح دہرائے گی، اگرچہ اس کی بازگشت ضرور سنائی دے گی۔ ان حالات میں ان لوگوں کے لیے ہدایات ہیں جو اپنے اسباق پر دھیان دیں گے۔

تاریخ گواہ ہے کہ معاشرہ اس وقت تباہی کا شکار ہوتا ہے جب رہنما سماجی معاہدوں کو کمزور کردیتے ہیں۔ معاشروں پر خواہ بے رحم آمروں کی حکومت ہو یا زیادہ نیک نیت نمائندوں کی، وہ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف درجات کی شدت کے ساتھ ٹوٹ جاتے ہیں۔ تاہم، سماجی زوال صدیوں میں ہوتا ہے جیسا کہ رومی، یونانی، مغل، عثمانی، منگ اور بہت سی دوسری سلطنتوں کے خاتمے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لہٰذا پاکستان جیسی نوجوان اور نظریاتی ریاست میں صرف 75 سال کے قلیل عرصے میں سماجی زوال کے شواہد دیکھنا دل دہلا دینے والی بات ہے۔

دنیا بھر کے مفکرین اور اسکالرز کے درمیان اب یہ ایک طے شدہ اتفاق رائے ہے کہ معاشرتی تباہی اس وقت آتی ہے جب معاشرے کے رہنما بنیادی معاشرتی اصولوں، اخلاقیات اور نظریات کو برقرار رکھنے سے گریز کرتے ہیں اور انہیں توڑ دیتے ہیں۔ ناکامی کا امکان عام طور پر ایک اندرونی عنصر کی وجہ سے ہوتا ہے جس کا اگر درست اندازہ کرلیا جائے تو پھر اسے سنبھالا جاسکتا ہے۔ اچھی طرز حکمرانی کے اقدامات کی رہنمائی کرنے والی اقدار اور اصولوں کو برقرار رکھنے میں مرکزی قیادت کی ناقابل بیان ناکامی کے بعد قیادت اور حکومت پر شہریوں کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے جو سماجی معاہدے کے ٹوٹنے اور ناگزیر معاشرتی تباہی کا باعث بنتا ہے۔

Advertisement

گڈ گورننس والے معاشروں کے زوال کا ایک عام عنصر یہ ہے کہ رہنما معاشرے کے بنیادی اصولوں کو ترک کر دیتے ہیں اور اپنے لوگوں کے لیے اخلاقی رہنما کے طور پر اپنے کردار کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اچھی حکمرانی والے معاشرے میں ایک اخلاقی رہنما وہ ہوتا ہے جو مجموعی معاشرے کے بنیادی اصولوں اور اخلاقیات اور عقائد اور اقدار کو برقرار رکھتا ہے۔ زیادہ تر معاشروں میں کسی نہ کسی قسم کا سماجی معاہدہ ہوتا ہے، خواہ وہ تحریری ہو یا نہ ہو، اور اگر آپ کا رہنما ایسا ہے جو ان اصولوں کو توڑ دیتا ہے، تو پھر لوگوں کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے، ٹیکس ادا کرنے کے لیے ان کی رضامندی کم ہو جاتی ہے، وہ وہاں سے چلے جاتے ہیں، یا دوسرے ایسے اقدامات اٹھاتے ہیں جن سے سیاست کی مالیاتی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔

غیر اخلاقی لیڈروں کا ان کے معاشروں کو غیر مستحکم کرنے کا یہ انداز بہت قدیم ہے۔ رومن شہنشاہ کموڈس کو معاشی اور فوجی عدم استحکام والی ریاست وراثت میں ملی تھی، مگر وہ متوقع کارکردگی نہیں دکھاسکے تھے۔ اس کے بجائے، وہ ایک گلیڈی ایٹر کے طور پر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے اور ہرکولیس طور پر اپنی شناخت بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ یہ نمونے آج پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں دیکھے جا سکتے ہیں، کیونکہ بدعنوان یا نااہل رہنما بنیادی اصولوں اور ان ممالک کے استحکام کے لیے خطرہ ہوتے ہیں جہاں وہ حکمرانی کرتے ہیں۔ تمام جمہوری اقوام کو آج بڑھتی ہوئی عدم مساوات، سیاسی طاقت کے ارتکاز، ٹیکس چوری، بیوروکریسی کے کھوکھلے ادارے، کم ہوتے انفرااسٹرکچر اور زوال پذیر عوامی خدمات کا سامنا ہے۔ مفکرین اور اسکالرز کی اکثریت اس عمل پر غور کرنے پر متفق ہے جس کے ذریعے مجموعی طور پر معاشرہ ناہموار مستقبل کی ناگزیریت سے ہم آہنگ ہو رہا ہے، کیونکہ ہمارے ادارے اور زندگی کی معاونت کے نظام وسائل کی کمی، تباہ کن موسمیاتی تبدیلی اور سیاسی نااہلی کے امتزاج کے باعث کمزور ہو رہے ہیں۔

عام طور پر اس بات پر اتفاق کیا جاتا ہے کہ معاشرتی زوال کے تقریباً پانچ مراحل ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ مالیاتی تباہی ہے، یہ تب ہوتی ہے جب ’’معمول کے مطابق کاروبار‘‘ پر ایمان ختم ہو جاتا ہے۔ مستقبل کو اب کسی بھی طرح ماضی سے مشابہ نہیں سمجھا جاتا۔ مالیاتی ادارے دیوالیہ ہو جاتے ہیں، بچت ختم ہو جاتی ہے اور سرمائے تک رسائی مفقود ہو جاتی ہے۔ پھر تجارتی تباہی اس وقت شروع ہوتی ہے، جب ’’مارکیٹ فراہم کرے گی‘‘ کے منتر پر یقین ختم ہو جاتا ہے۔ پیسہ بے قدر یا نایاب ہو جاتا ہے، اجناس کا ذخیرہ ہو جاتا ہے، درآمدی اور خوردہ زنجیری سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے اور بقا کی ضروریات کی وسیع پیمانے پر قلت معمول بن جاتی ہے۔ سیاسی تباہی اس وقت ہوتی ہے جب ’’حکومت آپ کا خیال رکھے گی‘‘ پر یقین ختم ہو جاتا ہے۔

چونکہ بنیادی ضروریات تک رسائی کے وسیع نقصان کو کم کرنے کی سرکاری کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں تو سیاسی اسٹیبلشمنٹ قانونی حیثیت اور مطابقت کھو دیتی ہے۔ دوسری طرف، سماجی تباہی اس وقت ہوتی ہے جب ’’آپ کے لوگ آپ کا خیال رکھیں گے‘‘ پر یقین ختم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ مقامی سماجی ادارے ، خواہ وہ خیراتی ادارے ہوں، کمیونٹی آرگنائزیشنز، یا دیگر ادارے ہوں، وہ وسائل سے محروم ہوجاتے ہیں ، یا پھر اندرونی تنازعات کی وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیں۔ اور آخری مرحلہ، یعنی ثقافتی زوال تب ہوتا ہے جب انسانیت کی بھلائی پر ایمان ختم ہو جاتا ہے۔ لوگ مہربانی، سخاوت، غور و فکر، پیار، دیانت، مہمان نوازی، شفقت، خیرات کی اپنی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ خاندان بکھر جاتے ہیں اور پھر قلیل وسائل کے لیے انفرادی طور پر مقابلہ کرتے ہیں۔

پاکستان بہت بڑی مالی اور اقتصادی تبدیلیوں کے دہانے پر ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ تبدیلی اچھی نہیں ہے۔ جب ہم معاشی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں تو غلط طریقے سے مختص کردہ وسائل بے نقاب ہونے والے ہیں۔ ان غلطیوں کو دور کرنا تکلیف دہ ہو گا، اور یہ نئی جنگوں کا سبب بن سکتا ہے، کیونکہ سیاست دان الزام تراشی کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ حکومت کی سیاسی شکل بدل سکتے ہیں۔ سیاست اور حکومت کی زبوں حالی نے معیشت کے ساتھ ساتھ شہریوں کی اخلاقیات کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ یہ مسائل ناقابل تسخیر نہیں ہیں، لیکن ناابل تسخیر ہونے کے بہت قریب ہیں۔ ان کے اثرات فطرت میں ممکنہ طور پر موجود ہیں۔

سماجی زوال کا راستہ روکنے کے لیے ہمیں پاکستان میں زوال کی سمت کو پکڑنا ہوگا۔ پاکستان کے ہر فرد میں قومی اقدار کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ تاہم، اسے پروان چڑھانے اور اس کی ترغیب دینے سے پہلے، یہ پہچاننا اور اس کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ ہمارا قومی اخلاق کیا ہے۔ اخلاقیات عقائد، اقدار، احساسات، روح اور اصولوں کا ایک مجموعہ ہے جو لوگوں میں عام ہیں۔ لہذا، اخلاقیات پیدائشی نہیں ہیں، لیکن سکھائی جاتی ہیں، وسیع پیمانے پر ان کی شناخت ، مشق کرائی جاتی ہے اور انہیں مسلسل بہتر بنایا جاتا ہے۔ اخلاقیات وہ نمونہ اور طرز زندگی ہے جسے اپناکر بچے سماج کا حصہ بنتے ہیں ۔

Advertisement

قومی اخلاق مثالی ہے اور اجتماعی بھلائی کے لیے سب کو عمدگی اور بہترین کے حصول کی کوشش کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ بچوں کو یہ دیکھتے ہوئے بڑا ہونا چاہیے کہ محنت کا صلہ ملتا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اصولوں کی پاسداری کرنے کا علم رکھنا مہذب رویے کی علامت ہے۔ ان کے علم میں یہ بات بھی ہونی چاہیے کہ جرم کبھی فائدہ نہیں پہنچاتا اور انصاف تاخیر سے ہی سہی مگر ملتا ضرور ہے، اور یہ کہ ایک مشکل سے بنائی گئی ساکھ پر اگر حرف آیا تو اس سے محرومی یقینی ہے۔ قومی اخلاقیات بنیادی طور پر امید افزا ہیں اور اگر ہم مشترکہ طور پر اس کے لیے محنت نہیں کرتے تو یہ ہم سے دور ہو جائیں گی، جیسا کہ پچھلے 75 سالوں سے دور ہیں۔ آج، ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان نسلی دشمنی، قومی اخلاقیات کی کمی، شمولیت اور انحراف، منقسم انتخابات، تحفظ کی عدم موجودگی، بدعنوانی، مشترکہ خوشحالی اور ذمہ داری کی معدومیت سے دوچار ہے۔ نعرہ پاکستان اور قومی ترانے کو ہماری اخلاقیات تشکیل دینی چاہیئں۔

پاکستان کے لیے اس کا کیا مطلب ہے جب آزادی کے 75 سال بعد بھی ہم اپنے اجتماعی قومی اخلاقیات کو واضح طور پر بیان کرنے میں ناکام رہے ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ ہم اپنے نصب العین میں الفاظ کی ترتیب بدلتے رہتے ہیں، جھنڈا جس چیز کی نمائندگی کرتا ہے اس کے لیے اپنی تشریحات تفویض کرتے رہتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر ملک کا نام ہی بدلتے رہتے ہیں؟ قائد کی واضح رہنمائی اور 1973 ء کے آئین کے باوجود ہمارے لیے ابھی تک یہ طے کرنا باقی ہے کہ کون سا سیاسی طرز حکمرانی ہمارے لیے بہترین ہے۔

قائد نے ہمیں سکھایا کہ ملکی وسائل سب کے ہیں۔ لیکن آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اس فلسفے پر عمل پیرا ہیں کہ عوامی وسائل بااختیار لوگوں کے ہاتھوں لوٹے جانے کے لیے ہیں۔ میرا پختہ یقین ہے کہ پاکستان کے انتخابات نہ تو باعث تقسیم ہیں اور نہ ہی پرتشدد۔ یہ سیاستدانوں کی حکمت عملی ہے جو تقسیم کا باعث ہے۔ یہ سیاست دان ہیں، ووٹر نہیں، جو انتخابات کو صفر حاصل جمع کے کھیل کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ہماری لیے مصیبت ہمارے خود غرض اور طاقتور سیاستدان، پریشر گروپس اور دیگر اسٹیک ہولڈرز ہیں جنہوں نے ہماری قومی اخلاقیات اور پالیسی کی ترجیحات کو بگاڑا اور آلودہ کردیا ہے۔ آئین اب مقدس نہیں رہا اور اسے سیاسی انجینئرنگ کے ایک اہم آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جس چیز کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے وہ اس کی سیاست ہے اور اسے سب کی اجتماعی شرکت سے ہی ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ ملک کو اخراج کی نہیں شمولیت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے کبھی ایک قابل شناخت قومی اخلاق کو فروغ دینا ہے جو ہمیں اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کی طرف لے جائے جو ایک مضبوط قوم کی بنیاد اور سنہری اصول ہیں تو ہمیں استثنٰی کے حامی سیاسی عناصر کو جامے میں لانا ہوگا۔

 

Advertisement

Next OPED