حنان آر حسین

25th Dec, 2022. 09:00 am

چین ایران تعاون کے نئے افق

مُصنّف خارجہ اُمور کے مُبصر اور فُل برائٹ ایوارڈ یافتہ ہیں۔

جب چین-ایران جامع اسٹریٹجک معاہدے پر دستخط ہوئے تو یہ مشرق وسطیٰ کے قریبی اتحادی ملک میں بیجنگ کی طویل مدتی سرمایہ کاری کا آغاز تھا۔ اس کے بعد سے بہت ساری اعلیٰ سطحی مصروفیات میں تیزی آچکی ہے ، جس سے تہران کو علاقے اور اس سے باہر دیرپا ترقی اور توانائی کے حصول کے امکانات پر نظر ڈالنے کا موقع ملا ہے۔

فی الحال، بیجنگ کی سعودی عرب اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی خواہش سفارت کاری کا ایک ماسٹر اسٹروک دکھائی دیتی ہے۔ چین نے دونوں طاقتوں کے ساتھ اپنی مصروفیات کی نوعیت کو ذہانت کے ساتھ تقسیم کیا ہے، اور تہران کو یقین دہانی کا پیغام بھیجا ہے کہ ان کے 25 سالہ معاہدے کو مزید فائدہ پہنچے گا۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور چین کے نائب وزیر اعظم ہو چنہوا کے درمیان اعلیٰ سطحی ملاقات سے پرے نہ دیکھیں۔ مؤخر الذکر نے ایران کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو فروغ دینے کے بیجنگ کے عزم کا اعادہ کیا، اور چین-ایران جامع تعاون کے منصوبے پر عمل درآمد کے معاملے کو مضبوط کیا۔ یہ دورہ چین کی مشرق وسطیٰ کی سفارتکاری میں ایران کی اہمیت کا اظہار کرتا ہے، کیونکہ  چین مغربی ایشیا میں اجتماعی سلامتی اور علاقائی اقتصادی ترقی کے لیے ایک کلیدی کھلاڑی کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہے۔ چین-ایران جامع تعاون کو مشترکہ طور پر آگے بڑھانے پر اعلیٰ سطحی اتفاق رائے درست سمت میں ایک قدم ہے، جس سے دونوں شراکت داروں کو پرامن ترقی میں اہم عزم کے ساتھ اپنے مفادات کو مضبوط کرنے کا موقع ملے گا۔

ایک تو یہ کہ یہ معاہدہ بذات خود مختلف شعبوں میں چین-ایران کے عملی تعاون کے نئے امکانات کو روشن کرتا ہے۔ وسیع البنیاد مشغولیت کے ممکنہ شعبوں میں پیداواری تیل اور گیس کے ذخائر کی جگہوں میں مشترکہ منصوبے شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ چینی نائب وزیراعظم دورے کے دوران متعدد معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں، اور چین کی جانب سے ابتدائی مہینوں میں تیل کی ریکارڈ خریداری توانائی میں تعاون کو یقینی طور پر وقت کی ضرورت کے طور پر پیش کرتی ہے۔ مشترکہ توانائی کے اقدامات کی رسمی شکل چین اور ایران کی اقتصادی صلاحیتوں کی ’’تکمیلی حیثیت‘‘ کو بھی اجاگر کرتی ہے، جیسا کہ ان کے 2016ء کے جامع شراکت داری روڈ میپ کے ابتدائی سالوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس طرح، اسٹریٹجک طور پر قابل عمل شعبوں پر زور دینے سے بین الاقوامی ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں سے قطع نظر، ان کے جامع شراکت داری روڈ میپ کو مضبوط کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔

Advertisement

ایران کا پیغام یہ ہے کہ وہ چین کے ساتھ مستقبل کے حوالے سے تزویراتی پیش رفت کے لیے پرعزم ہے اور اس عمل میں کوئی شک نہیں ہے۔ سربراہان مملکت کے درمیان حالیہ بات چیت نے بھی چین ایران جامع تعاون کے منصوبے پر تیزی سے عمل درآمد کو زیادہ اہمیت دی ہے، جس کے بعد اعلیٰ سطح کے دوروں میں حکام اسی نکتے کو آگے بڑھارہے ہیں۔ اپنے دوطرفہ تعلقات میں توانائی کے شعبے میں تعاون کی بلند اہمیت کے پیش نظر، چین نے توانائی کے میدان میں متعدد بار ایران کی خود کفالت اور مشترکہ صلاحیت کو بڑھانے کو ترجیح دی ہے۔ یہ منظرنامہ بڑے مؤثر طریقے سے اس تعاون کو تقویت دیتا ہے جسے رئیسی نے ’’ ہمہ گیر تعاون‘‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔

یہ سمجھیں کہ اعلیٰ سطحی مشاورت اور بات چیت نے گزشتہ سال مارچ میں جامع تعاون کے معاہدے کو مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے، ہو چنہوا دورہ تہران کے لیے ایک اہم تجارتی اور اقتصادی وفد کے ساتھ آئے ہیں۔ اس دورے میں ایرانی تمام سطحوں پر ہم منصبوں سے معاملات کیے جائیں گے اور دوطرفہ اعتماد کو مزید تقویت دی جائے گی۔ ہوچنہوا نے کہا، ’’چین ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو اسٹریٹجک نقطہ نظر سے دیکھتا ہے اور اپنی جامع تزویراتی شراکت داری کو فروغ دینے کے عزم سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔‘‘

اب یہ دونوں شراکت داروں کے بنیادی مفاد میں ہے کہ وہ 25 سالہ معاہدے کے کامیاب نفاذ کے لیے ایک ٹائم ٹیبل تشکیل دیں۔ دونوں دارالحکومتوں میں معیشت میں داخل کیے گئے سرمائے اور اس کے اثرات پر نظر رکھنے کی خاطر خواہ پالیسی اس طرح کی فالو اپ کارروائی کو فی الحال انتہائی سازگار اور مناسب بناتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ایک تعمیری قوت کے طور پر بیجنگ کے کردار کو تہران میں پذیرائی مل رہی ہے۔ اس سے ایران-چین دوستی ایسوسی ایشن کے سربراہ علاء الدین بروجردی کے خیالات کی عکاسی ہوتی ہے، جنہوں نے ایک بنیادی نکتہ واضح کیا: کہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ چین کے بہتر تعلقات ایران کے مفادات سے متصادم نہیں ہیں۔

چین-ایران تعلقات کے کچھ عام تبصرہ نگاروں کا یہ غلط مفروضہ رہا ہے، کیونکہ ان کے تعلقات کی حقیقی مضبوطی کی بنیاد وسیع تر ترقی اور توانائی کے مفادات ہیں۔ بیجنگ کی بیرونی مداخلت کی سخت مخالفت اور ایران کی ’’خودمختاری، علاقائی سالمیت اور قومی وقار‘‘ کے تحفظ کے لیے اس کی حمایت کے پیش نظر، چین تہران کے لیے بھی اس طرح کی سفارتی حمایت میں سرمایہ کاری جاری رکھے ہوئے ہے۔

دونوں ممالک کی روایتی دوطرفہ دوستی کے طویل المدتی منظرنامے کو فروغ دینے کے لیے بیرونی رکاوٹوں کے خلاف مشترکہ کوشش اہم ہے، جس سے ان کے اپنے مفادات کی ” تزویراتی اہمیت” کو فوقیت ملتی ہے ، نہ کہ کسی تیسرے فریق کے مفادات کو۔

Advertisement

ہو چنہوا کے دورے  کو اس نظر سے بھی دیکھاجانا چاہیے کہ اس سے چین اور ایران کے درمیان باہمی سیاسی اعتماد کو مزید استحکام ملے گا، بالخصوص اس صورت میں جب کہ اس نوعیت کے تبادلوں کے نتیجے میں اہم کثیر الجہتی فورمز پر ایران کے تعمیری کردار کو فروغ ملا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) سے آگے نہ دیکھیں۔ ایران کے ایس سی او کا ایک مکمل رکن بن جانے کے بعد چین کے ساتھ مضبوط ترقیاتی اور اقتصادی ہم آہنگی کا راستہ ہموار ہوا ہے، جس میں تجارتی انضمام اور سرمایہ کاری کی صلاحیت میں اضافہ بھی شامل ہے۔ اس سے دونوں ممالک کے 25 سالہ شراکت داری کے منصوبے کو علاقائی مومینٹم اور مستقبل میں نمو ملے گی ، کیونکہ یہ منصوبہ کئی سطحوں پر تیزی سے عمل درآمد کی جانب بڑھ رہا ہے۔

بطور مجموعی، ہو چنہوا کا دورہ اس امر کی مضبوط یاد دہانی ہے کہ گہرا سیاسی اعتماد، توانائی کے شعبے میں مضبوط تعاون، اور اعلیٰ سطحی مشاورت چین ایران تزویراتی مصروفیات کی کامیابی کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔اس بات کے پیش نظر کہ تعاون کا منصوبہ 25 سال کی مدت پر محیط ہے، متواتر اعلیٰ سطحی تبادلے نہ صرف باہمی طور پر فائدہ مند ہیں بلکہ ضروری بھی ہیں۔

Advertisement

Next OPED