اعجاز حیدر

01st Jan, 2023. 09:00 am

2023ء میں دہشت گردی سے دو دو ہاتھ ۔۔۔

پولیس فورس داخلی سلامتی کے لیے ریاست کا طاقتور بازو ہے۔ پھر بھی ہم محکمہ پولیس میں اصلاحات اور اِسے بااختیار بنانے میں بُری طرح ناکام ہیں

مُصنف سلامتی اور خارجہ پالیسیوں میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ہیں

خطرے سے نمٹنے کی جانب پہلا قدم اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ یہ موجود ہے۔ اگلا مرحلہ خطرے کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا ہے، یعنی خطرے کی شناخت اور اِس کی دستاویزی شکل تیار کرنا۔ اِس کا مقصد مخالف، اُس کے محرکات اور ردعمل کی منصوبہ بندی کے طریقوں کی جانچ کرنا ہے۔

اگلا مرحلہ اپنی اور مخالف، دونوں کی کمزوریوں کا تعین کرنا ہوگا۔ اِس میں  منظرنامے کی وضاحت اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمتِ عملی وضع کرنا ہوگی۔ دوسرے زاویے سے دیکھیں تو تشخیص کے عمل کا مقصد کسی خطرے کے مکمل (پھیلاؤ) اسپیکٹرم کو سمجھنا ہے، اس کے سامنے آنے کا امکان، اس کے نتائج اور مؤثر ردعمل کے لیے معیارات کی نشاندہی کرنا ہے۔

2023ء کے آغاز پر پاکستان کو متعدد چیلنجز اور خطرات کا سامنا ہے۔ لیکن میں ایک خطرے کی ہی بات کروں گا اور وہ ہے دہشت گردی۔

Advertisement

خیال رہے کہ عام طور پر خطرات سے تنِ تنہا نمٹا نہیں جا سکتا۔ مثال کے طور پر معاشی دیوالیہ پن دہشت گردی کے خطرے کو بڑھا دے گا کیونکہ دہشت گرد گروہ غیر مطمئن اور بوجھ تلے دبے لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں۔ نیز رقم کی کمی خطرے سے نمٹنے کی ریاستی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام ایک اور چیلنج ہو سکتا ہے جو دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔

یہ خدشات حقیقی ہیں لیکن یہاں میرا مقصد دو وجوہات کی بنا پر دہشت گردی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ ایک، ایک ایسے خطرے کا تجزیہ کرنا جس نے اپنا بدصورت سر پھر سے اٹھایا ہے اور جیسا کہ ہم 2023ء میں قدم رکھ رہے ہیں، اس سے ہمیں کافی زیادہ تکلیف پہنچنے کا امکان ہے۔ دو، اگرچہ اقتصادی اور سیاسی چیلنجوں سے فوری طور پر نمٹنا ضروری ہے تاہم یہ ہمیں دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط حکمتِ عملی تیار کرنے سے نہیں روک سکتے۔

مثال کے طور پر اسرائیل کو لے لیجیے جو ساڑھے تین سال کے عرصے میں پانچ انتخابات سے گزر چکا ہے اور اُس اتحاد کی موجودہ نظریاتی تشکیل کو دیکھتے ہوئے جس کی سربراہی بنجمن نیتن یاہو کر رہے ہیں، یہ اب بھی سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل اپنے معاملات میں سرفہرست رہتا ہے، وہ درپیش حفاظتی خطرات (مادی اور سائبر دونوں) سے نمٹتا ہے، تین عرب ممالک کے ساتھ امن معاہدہ کر چکا ہے اور کورونا وبا کے باوجود اس کی معیشت کو ترقّی کرتے دیکھا گیا ہے۔

یہ سب کیسے؟ اِس کا جواب ہے ۔۔۔ بعض خطرات پر اتفاق اور سیاسی تبدیلیوں کے باوجود پالیسی کا تسلسل۔

نتیجہ: یہاں تک کہ اگر کسی ریاست کو دیگر مسائل درپیش ہیں تو بھی وہ بعض خطرات سے نمٹ سکتی ہے اگر اس بات پر ایک وسیع سماجی و سیاسی اتفاق رائے ہو کہ وہ خطرات کیا ہیں اور ان کا جواب کیسے دیا جائے۔ سادہ الفاظ میں، پالیسی کا تسلسل نقصان کو کم کرنے اور دیگر کمزوریوں کے اثرات کو دور کرنے میں کافی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

تو آئیے دہشت گردی کے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہیں اور لکھا ہے کہ 2020ء سے ہمیں انتباہی اشارے مل رہے تھے لیکن ہم نے اُنہیں نظرانداز کر دیا۔ 2021ء اور 2022ء میں کئی عوامل کے باعث اِن اشاروں میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ ہم اِس چکر میں دوبارہ کیوں پڑ رہے ہیں؟ اس سوال کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے میں پہلے دو حالیہ بیانات کا حوالہ دیتا ہوں، ایک وزیراعظم کا اور دوسرا چیف آف آرمی اسٹاف کا۔ کاہان، بلوچستان میں آئی ای ڈی حملے میں ایک افسر اور چار فوجیوں کی شہادت کے بعد وزیراعظم نے دہشت گردی کی لعنت سے لڑنے کا “عزم” کیا۔ اسی طرح 254 ویں کور کمانڈرز کانفرنس (27-28 دسمبر) میں فوجی قیادت نے “بلا امتیاز دہشت گردوں کے خلاف لڑنے اور پاکستانی عوام کی اُمنگوں کے مطابق اس لعنت کو ختم کرنے کا عزم کیا”۔

Advertisement

اس کا کیا مطلب ہے؟ اِس سوال کے جواب کا اُس سوال سے بہت گہرا تعلّق ہے کہ ہم اِس چکر میں کیوں پھنس رہے ہیں، اس کے پیشِ نظر کہ (الف) ہمیں معلوم تھا کہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد ٹی ٹی پی اور اس طرح کے دیگر گروہوں کو پنپنے کے لیے عین سازگار ماحول ملا تھا۔ اور (ب) کہ بھارت نے بلوچ دہشت گرد گروہوں کی حمایت میں اضافہ کر دیا ہے۔ کیا ریاستی ادارے تب ہی جاگتے ہیں جب کوئی خطرہ سر اُٹھانا شروع ہو جائے؟

میں اسرائیل کی ایک اور مثال سے اِس کی وضاحت کرتا ہوں۔ 2014ء میں اسرائیل نے ہائی ٹیک، سائبر انڈسٹری اور ایپلیکیشنز میں عالمی قائد بننے کا فیصلہ کیا۔ اس نے صحرائے نیگیو (Negev) کے جنوب میں ایک چھوٹے سے شہر بیرسبع (Beersheba) کا انتخاب کیا۔ اسرائیلی اور غیرملکی ٹیکنالوجی ادارے جو اس کے بعد سے سائبر پارک میں آئے ہیں اور اسرائیل کو اِس میں برتری حاصل ہے۔ نجی اور دفاعی شعبوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا گیا۔ اسرائیل کی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کی ٹیکنالوجی کی شاخیں 18 سال کے بچوں کی تلاش کرتی ہیں اور اس طرح بھرتی کیے گئے گروہوں میں سے بہترین بچّوں کو تربیت دیتی ہیں۔ تربیت کے بعد یہ مرد اور خواتین اپنی لازمی فوجی خدمات انجام دیتے ہیں۔ کچھ آئی ڈی ایف میں رہتے ہیں جبکہ دیگر نجی شعبے میں واپس آجاتے ہیں۔ تاہم نجی اداروں اور آئی ڈی ایف کے درمیان تعلق برقرار رہتا ہے جو ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔

یہاں دو نکات ہیں۔ اوّل، اسرائیل جتنے بھی انتخابات گزرے، سیاسی تنازعات اور متعدد جماعتوں کے مابین اختلافات سے قطع نظر بنائے گئے ادارے اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے ادارے نوجوانوں کی بھرتیاں، ان کی تربیت، خطرے کا ادراک، تشخیص اور انسدادی حکمتِ عملی کے تسلسل کو برقرار رکھتی ہیں، قطع نظر اس کے کہ اسرائیلی پارلیمان، کنیسِٹ (Knesset) میں کیا ہو رہا ہے۔ دوم، وہ لڑائیاں جیت کر غنودگی کے عالم (سلیپ موڈ) میں نہیں چلے جاتے۔ وہ محض دُور سے نظارے نہیں کرتے۔ وہ آگے بڑھتے ہیں اور طویل مدتی ردعمل دیتے ہیں۔ اس سے نہ صرف موجودہ خطرات سے نمٹنے میں مدد ملتی ہے بلکہ ان خطرات کے لیے منصوبہ بندی کرنے میں بھی مدد ملتی ہے جن کے اُبھرنے کا امکان ہوتا ہے۔ آگے بڑھ کر دہشت گردی سے نبردآزما ہونا مؤثر ہوتا ہے نہ کہ مفاہمت مفاہمت کھیلنا۔

یہاں یہ طریقہ کیسے کام کرے گا؟ جواب کافی واضح ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اوّلین محاذوں پر کام کرنے والے کارکردگی نہیں دکھاتے۔ وہ کام  کرتے ہیں لیکن اُن کے کام حکمتِ عملی پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور جبکہ حکمتِ عملی کے ردعمل اہم ہیں، اِن کا احاطہ ایک وسیع حکمتِ عملی سے کیا جانا چاہیے۔ یہ سیاسی و عسکری قیادت کا کام ہے۔

چونکہ یہ ایک اداریہ مُخالف (Op-ed) ہے، کوئی تحقیقی مقالہ نہیں۔ اس لیے میرے پاس اِن تفصیلات میں جانے کی گنجائش نہیں کہ ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے، تاہم اِس صورت حال کے حوالے سے ایک مثال سبق آموز ہونی چاہیے کہ: پولیس اور سول انتظامیہ۔ میں برسوں سے یہ دلیل دیتا رہا ہوں کہ انسدادِ دہشت گردی کا بہترین ہتھیار پولیس ہے۔ پولیس فورس داخلی سلامتی کے لیے ریاست کا طاقتور بازو ہے۔ پھر بھی ہم محکمہ پولیس میں اصلاحات اور اِسے بااختیار بنانے میں بُری طرح ناکام ہیں۔ یہ انسانی وسائل کا مسئلہ نہیں ہے۔ اِسی طریقِ کار سے فوج میں بھی بھرتی ہوتی ہے۔ یہ بااختیار بنانے، ناقص تنظیمی ڈھانچے اور کیریئر کی رفتار، تربیت اور مہارت کی کمی کا مسئلہ ہے۔

اِن رکاوٹوں کے باوجود محکمہ پولیس نے کچھ قابلِ ذکر افسران پیدا کیے ہیں جنہیں کام کرنے کی اجازت دی گئی تو نتائج سامنے آئے۔ شہری انتظامیہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے جسے عام طور پر لاپروا ہی سمجھا جاتا ہے، اِسے بااختیار بنانا ضروری ہے۔ فوجی افسران عام طور پر شہری انتظامیہ میں صلاحیتوں کی کمی کی شکایت کرتے ہیں۔ یہ محض جزوی سچ ہے۔ پولیس فورسز اور سول انٹیلیجنس ایجنسیوں کے معاملے میں انٹر سروسز انٹیلیجنس برگد کا وہ درخت ہے جو اپنے نیچے کسی دوسرے پودے کو اُگنے نہیں دیتا۔ یہ پولیس فورسز اور اُس کے خفیہ ذرائع کے لیے اچھا نہیں ہے۔

Advertisement

اس کے علاوہ جبکہ پولیس فورس ٹینک نہیں چلا سکتی، ہیلی کاپٹروں اور لڑاکا طیاروں سے حملے نہیں کر سکتی، ان کے پاس بنوں جیسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے خصوصی یونٹ ہو سکتے ہیں۔ جنہیں سخت تربیت اور بااختیار بنانے سے یہ یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ بنوں جیسی صورتحال پیش نہ آئے۔ اسی طرح اگر ہم دھمکیوں سے چوکنا ہیں تو ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کافی ہوشیار ہوں گے کہ اُس مرحلے پر پہنچنے کی نوبت نہ آئے جہاں ہمیں وہ جارحانہ پلیٹ فارم استعمال کرنے پڑیں جو صرف فوج کے لیے دستیاب ہیں۔

2023ء میں قدم رکھتے ہوئے ہمیں دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک طویل مدتی منصوبہ تیار کرنے کی خاطر ایک ایسی حکمتِ عملی کی تیاری کو یقینی بنانا چاہیے جو مکمل طور پر واضح ہو اور اِس پر ہر طرح سے عمل کیا جا سکے۔

Advertisement

Next OPED