ہندوتوا کا اثر و رسوخ اور امریکا
مُصنّف اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اسسٹنٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
ہندوتوا نظریہ جنوبی ایشیا اور عالمی استحکام کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے۔ اِسے سب سے زیادہ بھارت میں واضح طور پر دیکھا جاتا ہے جہاں مودی کی زیرقیادت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ایک شیطانی، تخفیف پسند اور سماجی اخراج کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔
اس نظریے نے ایک ایسے ملک کے سماجی تانے بانے کو اُدھیڑ کر رکھ دیا ہے جسے اپنی سیکولر ساکھ پر فخر ہوا کرتا تھا۔ گاندھی نہرو خاندان کے خاتمے نے ایک سخت گیر، سرمایہ دارانہ، ہندو اوّل، انتقامی اور نازی نظریے کا آغاز کیا جسے اِس کی بنیادی تنظیم، راشٹریہ سویم سیوک سَنگھ (آر ایس ایس) کی حمایت حاصل تھی، جو مہاتما گاندھی کے قتل کی ذمے دار تھی۔ جیسا کہ 2022ء کا سورج غروب ہو چکا ہے، سوال یہ ہے کہ آیا یہ نظریہ عالمی معاملات میں ایک بااثر قوّت رہے گا یا نہیں۔
اِس سوال کا جواب جزوی طور پر ہندوتوا کی حمایت کی بنیاد پر مُنحصر ہے جو بین الاقوامی ہے اور صرف بھارت تک ہی محدود نہیں ہے۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر جو پوری دنیا میں اہم سیاسی، اقتصادی اور فوجی اثر و رسوخ رکھتی ہے، اس حمایتی بنیاد کی زیادہ تر جڑیں امریکا میں ہیں۔ رپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں حکومتوں کی خارجہ پالیسی کے بھارت نواز رجحان نے زعفرانی گروہوں کے لیے استثنیٰ کے ساتھ کام کرنے کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا ہے۔
مئی 2022ء کی ساؤتھ ایشیا سٹیزن ویب رپورٹ کے مطابق، تقریباً دو دہائیوں سے سَنگھ پریوار یا ہندو قوم پرست تنظیموں کے ایک گروہ سے وابستہ امریکا میں مقیم سات گروہوں نے بھارت کو فنڈ بھیجنے سمیت مختلف منصوبوں پر 15 کروڑ 80 لاکھ ڈالر سے زائد خرچ کیے ہیں۔ 93 صفحات پر مشتمل جامع رپورٹ میں ہندوتوا سول سوسائٹی گروہوں کے مالی اخراجات، ان کے اپنے اخراجات، جو محض بھارت میں اِن کے ملحقہ اداروں کو رقوم بھیجنے تک محدود نہیں ہیں بلکہ نصابی کتب، نصاب، مذہب اور تاریخ سے متعلق معلومات کے لیے قانون سازی کے ساتھ ساتھ نئی دہلی میں قومی جمہوری اتحاد حکومت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات پر اثر انداز ہونے کی دستاویز پیش کی گئی ہیں۔
یہ رپورٹ سفید فام قوم پرستوں اور روسی حمایت یافتہ ڈس انفارمیشن نیٹ ورکس کے عروج کے درمیان ایک ربط واضح کرتے ہوئے مزید ایک ایسے ماحولیاتی نظام کو مُنکشف کرتی ہے جس میں کچھ مخصوص آبادیاں دنیا کو امتیازی اور حق سے محرومی کے احساس سے دیکھتی ہیں۔ رپورٹ میں 24 امریکی ہندو قوم پرست تنظیموں کے نام اور اُن کی سرگرمیوں کا انکشاف کیا گیا ہے جن کے کل اثاثے 10 کروڑ ڈالر ہیں۔ رپورٹ کے اخذ کردہ اہم نتائج میں یہ بتایا گیا ہے کہ 2001-2019ء کے درمیان آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے سات خیراتی اداروں نے اپنے اقدامات پر کم از کم 15 کروڑ 89 لاکھ ڈالر خرچ کیے اور اس رقم کا بڑا حصہ بھارت میں مُقیم گروہوں کو بھیجا۔ یہ حسابات سات گروہوں کے دستیاب ٹیکس گوشواروں پر مبنی ہیں جن کی شناخت آل انڈیا موومنٹ (اے آئی ایم) فار سیوا، ایکل ودیالیہ فاؤنڈیشن آف امریکا، انڈیا ڈیولپمنٹ اینڈ ریلیف فنڈ، پرم شکتی پیٹھ، پی وائی پی یوگ فاؤنڈیشن، وشوا ہندو پریشد آف امریکا اور سیوا انٹرنیشنل کے طور پر کی گئی ہے۔
اس رپورٹ کے ذریعے اپنایا گیا طریقہ کار ٹیکس ریکارڈ، خبروں، عوامی بیانات اور سرکاری دستاویزات پر مبنی تھا۔ امریکا میں ہندو قوم پرست ماحولیاتی نظام کے مختلف حصوں کی نقشہ سازی کرتے ہوئے، رپورٹ این جی اوز کے حصوں کے طریقِ کار (شیئر ہولڈنگ پیٹرن) کو بھی دیکھتی ہے جو انہیں وسیع تر نیٹ ورکس سے روابط قائم کرنے کے قابل بناتی ہے۔ مثال کے طور پر “دھرم سوِلائزیشن فاؤنڈیشن” کے ٹرسٹ ارکان (ٹرسٹیز)، ہندو سویم سیوک سَنگھ (ایچ ایس ایس) کے عہدیدار رہ چکے ہیں جو امریکا میں آر ایس ایس کی مساوی تنظیم ہے۔
رپورٹ میں امریکا میں ہندوتوا کے بڑھتے اثر و رسوخ کو اُجاگر کرنے کے لیے ان گروہوں کی سیاسی مہم کی مالی اعانت کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے۔ ہندو امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی (ایچ اے پی اے سی) نے 2012ء سے 2020ء تک متعدد امریکی انتخابات پر صرف سرکاری دستاویزات کی بنیاد پر 1 لاکھ 72 ہزار ڈالر سے زیادہ خرچ کیے۔ ایس اے سی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکی کانگریس کے رکن راجا کرشنا مورتی نے 2015ء سے 2020ء کے درمیان ایچ اے پی اے سی اور سَنگھ سے وابستہ دیگر افراد سے 1 لاکھ 17 ہزار ڈالر سے زیادہ رقم وصول کی۔
کرشنامورتی کا امریکی عوام میں ہندو قوم پرست مفادات کو مرکزی دھارے میں لانے اور اسے قانونی حیثیت دینے میں تعاون کرنے کا ایک واضح کردار ہے جس میں نصاب میں “ہندوتوا” مواد کو شامل کرنے کے لیے کیلیفورنیا کے ریاستی تعلیمی بورڈ کو لکھا گیا اُن کا 2017ء کا خط بھی شامل ہے۔ دیگر حیران کن انکشافات میں یہ بھی شامل ہے کہ کس طرح سابق کانگریس خاتون رکن اور صدارتی امیدوار تلسی گبارڈ نے 2014ء سے 2019ء کے درمیان 1 لاکھ 10 ہزار ڈالر ڈالر اور امریکی ایوان کی خارجہ امور کمیٹی کے سینیئر رکن بریڈ شرمین نے 27 ہزار ڈالر وصول کیے۔
مودی کی زیرقیادت بی جے پی، بھارتی سیاست میں گہری جڑیں پکڑے ہوئے ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مناسب ہے کہ ان میں سے زیادہ تر خوفناک رجحانات 2023ء اور اس کے بعد بھی ممکنہ طور پر جاری رہیں گے۔ ہندوتوا تنظیموں کی طاقت جنہوں نے اقلیتوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کے لیے بین الاقوامی میڈیا میں بدنامی اور وسیع کوریج حاصل کی ہے، امریکا جیسے ممالک میں اُن کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہے۔
گائے کے تحفظ کے لیے تشدد کی شکل میں مسلمانوں پر حملے، سازشی نظریات کا حوالہ دیتے ہوئے جیسے کہ لَو جہاد اور اسلامی عقائد کی تذلیل کرنا ہندوتوا حکمتِ عملیوں کا حصہ ہیں۔ بی جے پی کی معطل قومی ترجمان نوپور شرما کے توہین آمیز تبصرے اور ان کی جماعت کی جانب سے ان کے اقدامات کی تردید موجودہ بھارتی حکومت کے اسلامو فوبک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ اُن کے تبصروں کی واشنگٹن ڈی سی نے بھی مذمت کی تھی۔
اس طرح کے توسیع پسندانہ منصوبوں کے ساتھ یہ ناقابلِ یقین ہے کہ جنوبی ایشیا میں کبھی امن حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح اب تک اس بات پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں کہ کس طرح ہندو لابی گروہ، جو مسلمانوں، ہندوؤں، سکھوں اور دلتوں پر بغیر کسی احتساب کے حملہ کرنا چاہتے ہیں، بھارت میں دہشت گردی کے کیمپوں کو آسانی سے فنڈ فراہم کرتے ہیں۔ جب وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے اقوام متحدہ میں ایک نیوز کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم مودی کو “گجرات کا قصائی” کہا تو ان کے بیانات واضح طور پر اس حمایتی نظام کے خلاف تھے جس کے ذریعے مودی جیسے رہنما اقتدار میں آنے کے لیے نفرت، عوامی تعصب اور منفی جذبات کو ہوا دیتے ہیں۔
یہ واضح ہے کہ امریکا میں ہندوتوا کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے ساتھ زعفران کاری بلا روک ٹوک جاری رہے گی۔ یہ جنوبی ایشیا یا عالمی امن کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔






