08th Jan, 2023. 09:00 am

خاندانی سیاست کی لعنت

پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کی جانب سے مریم نواز کو جماعت کا سینیئر نائب صدر اور مرکزی مُنتظم (چیف آرگنائزر) مقرر کرنے کے فیصلے نے ایک بار پھر پاکستان میں خاندانی سیاست کی لعنت پر ایک ضروری بحث چھیڑ دی ہے۔ یہ بطور سیاست دان مریم نواز کی ساکھ کو مجروح کرنے کے لیے نہیں، جب جماعت کے سینیئر عہدوں پر خواتین کی پہلے ہی کمی ہے، بلکہ گہری بے چینی کی نشاندہی کرنے کے لیے ہے۔ سیاست میں اُن کی آمد ہمیشہ اِس حقیقت کے زیرِ اثر رہے گی کہ والد کے سیاسی منظر نامے سے باہر ہونے پر ہی وہ خاندان کے سیاسی و کاروباری مفادات کے تحفظ کے واحد مقصد سے اِس میں داخل ہوئیں۔ تاہم خاندانی سیاست کا مسئلہ صرف مسلم لیگ (ن) تک محدود نہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ، جماعتِ اسلامی اور چند چھوٹی قوم پرست جماعتوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام مرکزی سیاسی جماعتیں خاندانی اداروں اور جاگیروں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی موت کے بعد سے پہلے بھٹو اور اب زرداری خاندانوں کی گرفت میں رہی ہے۔ اور جہاں تک حلقہ بندیوں کی سیاست کا تعلق ہے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جس نے ابتدا میں اپنے خاندان مخالف سیاست کے مؤقف پر کافی تعریفیں سمیٹیں، کو بھی 2018ء کے انتخابات میں قابلِ انتخاب امیدواروں سے رُجوع کرنا پڑا۔ ملک کا نام نہاد جمہوری نظام عام آدمی کو دیہی اور قبائلی علاقوں کے کم از کم 60 فیصد حلقوں سے جیتنا تو دُور، انتخابات لڑنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ خاندانی سیاست پر بحث نئی بات نہیں، لیکن اس کے پرجوش مخالفین کا بنیادی طور پر تعلق پاکستان کے شہری علاقوں سے ہے جن میں تعلیم یافتہ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے پاکستانی اور پیشہ ور افراد شامل ہیں۔ یہ سچ ہے کہ یہ مشق صرف پاکستان کے لیے مخصوص نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں کئی سیاسی جماعتوں کی بنیاد کا کام کرتی ہے۔ تاہم بھارت جیسے ممالک میں خاندانی سیاست کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے۔ لیکن پاکستان کا نیم جاگیردارانہ، اور نیم قبائلی سماجی و سیاسی نظام قومی اور حلقہ دونوں سطح پر سیاسی خاندانوں کی گرفت مضبوط رکھے ہوئے ہے۔

انتخابی حلقے جاگیروں کا ایک اہم جزو ہیں جو زمیندار طبقے کی پرانی نسلیں خاندانی نشستوں کے طور پر نسل در نسل منتقل کرتی ہیں۔ ایک سیاسی جماعت کو خاندانی جائیداد اور سیاسی عمل کو وسائل رکھنے والوں کے استحقاق میں تبدیل کرنا۔ نتیجتاً اِس طرح کے حالات میں جماعت کے ارکان کا کردار تنظیمی ڈھانچے کے احکامات کی تعمیل تک محدود ہے۔ یہاں تک کہ ہماری مذہبی جماعتیں اور سیاست دان جو سنتِ نسب سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ بھی خاندانی سیاست کو تقویت دیتے ہیں، جو اپنے جوہر میں قابلیت اور تمام جمہوری اُصولوں کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ کی پاکستانی جمہوریت میں ارکان اور وفاداریوں کی خرید و فروخت (ہارس ٹریڈنگ) کا نظام بدستور رائج ہے۔ اس نظام نے عام پاکستانیوں کو ملکی طاقت کے ڈھانچے میں کسی بھی قسم کا حصے دار بننے سے یکسر دور کر دیا ہے۔

تاہم خاندانی سیاست کو ساختی مسئلے کے طور پر سمجھنا کافی نہیں۔ پاکستان میں دانستہ طور پر اختیار کی جانے والی پالیسیوں کی نشاندہی کرنا اور اِنہیں تبدیل کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ جس نے بتدریج متوسط، نچلے متوسط اور محنت کش طبقات کے ساتھ ساتھ بے زمین اور چھوٹے کسانوں کو سیاسی عمل سے باہر کر دیا ہے۔ یہ ایک مُستقل مدت کے دوران آئیں اور ان میں طلباء اور مزدور یونینوں پر پابندیاں، بلدیاتی نظام میں خلل اور بہت سی دیگر رجعت پسند پالیسیوں کے ساتھ ساتھ زمینی اصلاحات کے خلاف بے ایمانی کی سیاست بھی شامل تھی۔ پاکستان میں نظریاتی رہنما اُصولوں اور اقدار کے بغیر سیاست کی جتنی حوصلہ افزائی کی گئی، اتنی ہی خاندانی سیاست وسیع ہوتی گئی۔ آج ہمیں پاکستان کے زرداریوں، شریفوں، خانوں اور سرداروں یا چودھریوں کا کوئی مُستقل متبادل نظر نہیں آتا، جن کی سیاست پر اِن کے سرمایہ دارانہ مفادات کا غلبہ ہے۔

پھر کیا کرنا چاہیے؟ اگرچہ موجودہ سیاسی جماعتوں پر اپنے جماعتی ڈھانچے میں جمہوری تبدیلیاں لانے کے لیے دباؤ ڈالنا اہم ہے، تاہم اِن سے یہ مطالبہ پورا ہونے کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مُترادف ہوگا۔ حقیقی تبدیلی عوام نواز سیاست کی فعال حوصلہ افزائی سے ہی آسکتی ہے جس میں جمہوری اکائیوں کی بحالی کے لیے جدوجہد بھی شامل ہے۔ ان میں طلباء کے لیے کیمپس میں سیاست میں حصہ لینے کے لیے راہ ہموار کرنا، مزدوروں کے لیے کھلے عام یونین سازی کے حق پر عمل کرنا، اور شہریوں کے لیے ضلع اور یونین کونسلوں کے ذریعے سیاست میں حصہ لینے کے قابل ہونا شامل ہے۔ زمینی اصلاحات لانے اور جاگیردارانہ اور پدرانہ طرزِعمل کے اثر کو روکنے کے لیے سول سوسائٹی کے کردار کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جب تک یہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات نہیں کی جاتیں تب تک پاکستان میں خاندانی سیاست کا راج رہے گا۔ اُمید کی ایک کرن یہ ہے کہ مزید لوگوں نے اِس پر سوال اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔ یہ تبدیلی کی طرف پہلا قدم ہے۔ اُمید ہے کہ یہ تبدیلی تاخیر سے نہیں بلکہ بہت جلد رُونما ہوگی۔

Advertisement
Advertisement

اگلا اداریہ