آصف درانی

08th Jan, 2023. 09:00 am

2023ء ۔۔ پاکستان کے لیے امکانات اور چیلنج

مُصنف سابق سفیر ہیں اور فی الحال اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بطور سینیئر ریسرچ فیلو کام کر رہے ہیں

2022ء پاکستان کی تاریخ میں ایک ہنگامہ خیز سال کے طور پر گزرا۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان مسلسل محاذ آرائی اور معاشی گراوٹ نے ملک کے خارجہ تعلّقات کو خطرناک نہج تک پہنچا دیا ہے۔ سول ملٹری تعلّقات کے لیے بھی یہ سال خراب رہا۔ دریں اثناء سوشل میڈیا کی طاقت نے، صحیح یا غلط، رائے عامہ کو ڈھالنے کی اپنی صلاحیت منوالی۔

عمران خان، جن کی سیاسی قسمت ریاستی اُمور کی ناتجربہ کاری کے باعث تیزی سے زوال پذیر تھی، پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ہار گئے۔ انہوں نے اپنی شکست کا ذمے دار ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کو ٹھہرایا۔ بے شمار جلسوں کے ذریعے وہ خود کو نشانہ بنائے جانے کا پینترا کھیلنے میں کامیاب ہوئے جس نے سوشل میڈیا کی معاونت سے نہ صرف اُن کی حکومت پر لگا نااہلی کا الزام دھو دیا بلکہ اُنہیں ملک کا مقبول ترین سیاسی رہنما بھی بنا دیا۔ تاہم پی ڈی ایم حکومت اس امید پر عمران خان کے انتخابی مطالبے کو مؤخر کرنے میں کامیاب ہوگئی کہ لوگ وقت کے ساتھ ساتھ اُن سے مایوس ہو جائیں گے۔ اس لیے مخالفین کو کمزور کرنے کے لیے اب بھی انا پرستی کا کھیل جاری ہے۔

مندرجہ بالا منظر نامے سے دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیداران کو پاکستان کا مقدمہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے سامنے پیش کرنے کا اعتماد حاصل نہیں ہوتا۔ وہ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ اُن سے بات چیت کرنے والے پہلے مقامی شفّافیت اور غیرجانبداری کے بارے میں دریافت کریں گے جو بہت سے معاملات میں دستیاب نہیں۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد اس وقت متزلزل ہو جاتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ ملکی قیادت نے اربوں ڈالر کی جائیدادوں کے ساتھ ساتھ کئی اربوں کے کاروباروں میں بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اسی طرح بیرون ملک پاکستان کے اثاثوں کی فروخت اور اعلیٰ تجارتی نرخوں پر بھی قرضے حاصل کرنے میں مشکلات نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مزید ٹھیس پہنچائی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ سیاسی تنازعات کے سبب ترسیلاتِ زر میں بھی کمی آئی ہے۔ ایک تاخیری اور پیچیدہ عدالتی طریقِ کار سرمایہ کاروں کے پاکستان آنے کے لیے ایک اور حوصلہ شکن عنصر ہے۔

خارجہ پالیسی کے نقطہء نظر سے اسلام آباد میں تعینات ایک سفارت کار ملک کی مجموعی صورتحال اور میزبان ملک سے مستقبل کے تعامل کے بارے میں اپنی سفارشات کا تفصیلی جائزہ لے گا۔ پچھلے پیراگراف غیر ملکی وفود کو کافی وجوہات فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنی حکومتوں اور تاجروں کو معاہدے کرنے کے حوالے سے احتیاط کا مشورہ دیں، سوائے ان کی مصنوعات کی فروخت کے، بشرطیکہ پاکستان کے پاس درآمدات میں معاونت کے لیے کافی زرمبادلہ ہو۔

Advertisement

درجہ بالا پیشِ لفظ کے ساتھ 2023ء گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہوگا۔ پی ڈی ایم کی قیادت میں 13 جماعتی اتحاد ملکی معیشت کی بہتری میں ناکام رہا ہے۔ تاہم خارجہ پالیسی کے محاذ پر وہ پارلیمنٹ میں اپنی شکست میں امریکا کے ملوث ہونے کے عمران خان کے غیر معمولی الزامات سے پہنچنے والے نقصان کو کسی حد تک پورا کرنے، ملک کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکالنے اور موسمیاتی تباہی جس نے ملک کا ایک تہائی حصہ ڈبو دیا اور جس سے 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، کے بارے میں ایک ٹھوس رائے ہموار کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ جب یوکرین بحران نے پہلے ہی عالمی سطح پر تیل اور خوراک کی قیمتوں کو آسمان پہ پہنچا دیا تھا، اُس وقت بڑے پیمانے پر سیلاب نے پاکستان کی مشکلات میں رہی سہی کسر بھی پوری کر دی تھی۔ پاکستان کو قیمتوں، مہنگائی اور روزمرہ زندگی کے اخراجات میں خطرناک حد تک اضافے کی وجہ سے بھی نقصان اٹھانا پڑا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے بجلی کے نرخوں میں اضافے نے ملک کو مالی طور پر مزید نچوڑ دیا، جس سے متناسب طور پر دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

خارجہ اُمور کی طرف آتے ہیں، مشرقی اور مغربی سرحدوں پر پڑوس کشیدہ رہا۔ طالبان کے بارے میں جوش و خروش نے خوابوں کے سوداگروں پر ایک تلخ حقیقت عیاں کی کہ وہ غلط گھوڑے پر شرط لگا رہے تھے۔ تحریکِ طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کی افغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں کا دوبارہ سر اٹھانا افغان طالبان کے اخلاص پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ ٹی ٹی پی نے سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر 170 سے زائد حملے کیے۔ اس نے 2009ء جیسی صورت حال کی یاد دلا دی جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ ٹی ٹی پی کے حملوں میں دوبارہ اضافے نے ایک بار پھر ممکنہ سرمایہ کاروں کو پریشان کر دیا ہے اور مغربی ممالک کو سفری ہدایات جاری کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لہٰذا 2023ء میں ممکنہ طور پر افغان سلامتی کو درپیش چیلنجز پر قابو پانے میں پاکستان کی زیادہ تر سفارتی صلاحیتیں صرف ہوں گی۔

اگرچہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) فروری 2021ء سے خاموش ہے، تاہم بھارت کے ساتھ کشیدگی برقرار ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان تازہ ترین جھگڑے نے مبصرین کو دونوں پڑوسیوں کے درمیان گہرے عدم اعتماد کی یاد دلا دی۔ بھارت پاکستان کو یکدم تنہا کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ اس نے 2016ء میں پاکستان کے لیے ہونے والی سارک سربراہی کانفرنس کو سبوتاژ کیا۔ سارک کی جگہ لینے کے لیے بھارت نے بنگلہ دیش، بھوٹان، میانمار، نیپال، سری لنکا اور تھائی لینڈ پر مشتمل خلیج بنگال کے کثیر شعبہ جاتی تکنیکی اور اقتصادی تعاون کے لیے اقدام (بی آئی ایم ایس ٹی ای سی) کو فعال کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی اقدامات سفارتی سطح پر معمول کو برقرار رکھنے کے لیے ایک دھچکا ہیں۔ فی الحال بین الاقوامی فورمز پر ایک دوسرے سے جھگڑے کے ساتھ دو طرفہ تعلـقات میں جمود کی توقع کی جا سکتی ہے۔

چین پاکستان کے لیے قابلِ اعتماد دوست اور طاقت کا ذریعہ رہا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان کے لیے کایا پلٹ ہے جو جدید علم پر مبنی صنعتوں کی بنیاد رکھے گی۔ بھارت اور امریکا حقیقتاً اس منصوبے کے مخالف ہیں۔ پاکستان اور چین اسپیشل اکنامک زونز (ایس ای زیڈ) سے متعلق منصوبے کے فیز II کو آنے والے پانچ برسوں میں مکمل کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ دونوں ممالک ایک علاقائی اقتصادی پلیٹ فارم بنانے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں جس سے افغانستان، ایران اور وسطی ایشیا کے ساتھ علاقائی تجارت کو فروغ مل سکتا ہے۔ اگر یہ منافع بخش پایا گیا تو بھارت کے اس منصوبے میں شامل ہونے کا امکان ہے۔ 2023ء کی پیش گوئی پاکستان کو درپیش صلاحیتی مسائل کے باوجود دو طرفہ تعلقات کے معاشی پہلو کے حوالے سے پُرامید ہے۔

ایران سے پاکستان کے تعلقات خوشگوار رہے ہیں حالآنکہ ان کے درمیان تجارت گنجائش سے کہیں کم ہے۔ کم تجارت کی بنیادی وجہ ایران کے خلاف امریکی پابندیاں ہیں جو ہمارے ڈالر پر منحصر بینکوں کو ایرانی بینکوں سے لین دین سے روکتی ہیں۔ تاہم مشرقِ وُسطیٰ کی سیاست میں ایران کی اہمیت کے پیشِ نظر پاکستان اپنی وسیع ہمسائیگی سے الگ نہیں رہ سکتا۔ جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کے نام سے جانے والے جوہری معاہدے پر تعطل ایران کو اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ اگر ایران جوہری ٹیکنالوجی میں ایک خاص حد تک پہنچ جائے تو اسرائیل کے ایران پر ممکنہ حملے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ سابق ایرانی وزیر خارجہ کمال خرازی نے گزشتہ سال جولائی میں الجزیرہ ٹی وی کو بتایا تھا کہ، “ایران تکنیکی طور پر جوہری بم بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس نے یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ اسے بنایا جائے یا نہیں”۔ ایرانی جوہری پروگرام جو بھی رُخ اختیار کرے گا اسے اسرائیل اور خلیجی ممالک کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے اثرات پاکستان پر پڑیں گے۔

آخر میں یوکرین بحران، جو دنیا کو ایک نئی سرد جنگ کی جانب تقریباً دھکیل چکا ہے، جس میں امریکا اور نیٹو ممالک بنیادی طور پر روس کے خلاف الزامات کی قیادت کر رہے ہیں۔ چین کو بھی دشمن کے طور پر لیا جاتا ہے۔ یوکرین بحران میں پاکستان کی غیرجانبداری بڑھتے تناؤ والے ماحول میں تنے ہوئے رسّے پر چلنے کے مترادف ہوگی، خاص طور پر جب پاکستان معاشی طور پر سخت دباؤ کا شکار ہے۔ اِس لیے نیا سال حکومت کے لیے خطرات کا سامنا کرنے کا بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔

Advertisement

Next OPED