تحریکِ طالبان پاکستان کے براہِ راست خطرے سے نبرد آزمائی
اب بنیادی خطرہ ٹی ٹی پی کی جانب سے بغاوت کے بڑھتے امکانات ہیں
مُصنف سلامتی اور خارجہ پالیسیوں میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ہیں
4 جنوری کو ایک بیان میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حکمراں اتحاد میں شامل دو اہم سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو دھمکی دی تھی۔ یہ بیان قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد دیا گیا جس میں ٹی ٹی پی کی جانب سے دہشت گردی کے خطرے کا جائزہ لیا گیا اور اِس کے خلاف کارروائی کا عزم کیا گیا۔
ٹی ٹی پی کے بیان کے چند گھنٹے بعد ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ٹی ٹی پی میں ناقابلِ مصالحت عناصر کے خلاف “قبل از وقت کارروائی” کرنے کی بات کی۔ الفاظ میں تو اچھا لگتا ہے لیکن ریاست درحقیقت کیا کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے؟
آئیے! اِسی ماحول میں بات شروع کرتے ہیں۔ پچھلی بار جب ریاست نے یہ جنگ لڑی تھی، افغانستان میں امریکی قیادت میں مغربی فوجی طاقتوں کے اتحاد کے خلاف شورش دیکھی جا رہی تھی۔ نیٹو – ایساف کے خلاف لڑتے افغان طالبان (ٹی ٹی اے) نے پاکستان کے قبائلی (اور کچھ آباد) علاقوں کو تازہ دَم ہونے، دوبارہ مُسلّح ہونے، ترتیبِ نو کرنے، کمک لینے اور اپنے خاندانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیا۔ اِس کوشش میں مقامی طالبان نے اُن کی مدد کی اور جب پاک فوج مقامی ٹی ٹی پی سے لڑ رہی تھی تو اُن کی وسیع تر بقا اور شورش کی حکمتِ عملی کے حصے کے طور پر افغان طالبان نے واقعی اس لڑائی میں حصہ نہیں لیا۔
اب صورتِ حال مختلف ہے۔ غیر ملکی افواج جا چکی ہیں اور افغانستان ٹی ٹی اے کے زیر قبضہ ہے۔ پاکستان کی فوری تشویش، ٹی ٹی پی، وہاں مقیم ہے اور ایسے کوئی آثار نہیں ہیں کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں گے۔ درحقیقت جیسا کہ میں نے گزشتہ برس اندازہ لگایا تھا کہ ٹی ٹی پی، ٹی ٹی اے کو اسلام آباد کے خلاف فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کرے گا۔ مزید برآں، سراج الدین حقانی اب ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کے سہولت کار نہیں ہیں اور ملّا عمر کا بیٹا یعقوب مجاہد ایک سے زائد مواقع پر پاکستان کے خلاف اپنی دشمنی کا اظہار کر چکا ہے۔ یہ فرض کرنا محفوظ ہے کہ اُس کے جذبات کی تائید ٹی ٹی اے کے امیر، ہیبت اللہ اخوندزادہ نے کی ہے جو قندھاری دھڑے کے رہنما بھی ہیں۔
مختصر یہ کہ ماحول بالکل بدل چکا ہے۔ ٹی ٹی پی کو ٹی ٹی اے کی معاونت حاصل ہے اور رہے گی۔ ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بھی کارروائی، خاص طور پر افغانستان کے اندر، ٹی ٹی اے کی طرف سے افغانستان کے خلاف کارروائی تصور کی جائے گی۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے، ٹی ٹی اے کے قائدین پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا اقدام کیا جائے۔ جنگی اور فوجی حکمتِ عملی کا کوئی بھی طالب علم جانتا ہے کہ کسی بھی کارروائی کے لیے آپریشنل اور تزویراتی ماحول کی تشریح کی جانی چاہیے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ماحول ٹی ٹی پی کے حق میں کافی حد تک بدل چکا ہے، اِس کو مدنظر رکھنے کے لیے آپریشنل منصوبہ بندی اور اقدامات کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔
اب بنیادی خطرہ ٹی ٹی پی کی جانب سے بغاوت کے بڑھتے امکانات ہیں۔ “بغاوت” سے میری مراد اُس اصطلاح سے ہے جس کی وضاحت تھامس موکیٹس (Thomas Mockaitis) نے کی ہے یعنی “تصادم کی ایک ہائبرڈ شکل جو بغاوت، گوریلا جنگ اور دہشت گردی کو یکجا کرتی ہے”۔ ٹی ٹی پی اِس معاملے میں قبائلی اضلاع سے شروع کرتے ہوئے، ٹی ٹی اے کی حمایت سے افغانستان میں پناہ گاہوں اور قبائلی اضلاع میں مقامی حمایت کی مدد سے “کسی ملک کے (حصوں) پر سیاسی کنٹرول قائم کرنے کے لیے تباہی، گوریلا اور دہشت گردی کے ہتھکنڈوں کا سہارا لے سکتی ہے”۔
ایسا کرنے کے لیے ٹی ٹی پی کو تخریبی ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنی حمایتی بنیاد کو وسیع کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ پہلے بھی سوات، لوئر اور اپر دیر، باجوڑ اور دیگر قبائلی اضلاع میں ہوا تھا۔ ٹی ٹی پی کی حکمتِ عملی حکومت سے بہتر امکانات کی پیشکش پر مبنی ہوگی اور پیار و دھمکی کی آمیزش پر مُنحصر ہوگی۔ یہ حکومتی رٹ کو ختم کرنے کی کوشش کرے گی، جیسا کہ اُس نے پہلے بھی کوشش کی تھی۔ گروہ کی عسکری قوت کو مضبوط کرنے کے لیے مقامی آبادی میں سے بھرتی کا ایک اور اثر ہوگا۔ یہ غیر معمولی نہیں ہے اور ایسا کہیں اور بھی ہو چکا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ٹی ٹی پی شہری علاقوں میں مارو اور بھاگو (ہٹ اینڈ رن) حکمتِ عملی، آئی ای ڈیز اور دہشت گردانہ حملوں کا استعمال کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز پر حملے جاری رکھے گی۔ دہشت گردی کی کارروائیاں اہم ہیں، اس لیے نہیں کہ ان کا بڑا فوجی اثر ہے، بلکہ ان کی نفسیاتی جہت ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آئی ای ڈیز سیکورٹی فورسز اور عام شہریوں کے لیے بنیادی خطرات میں سے ہیں۔ متواتر دہشت گرد حملے، یہاں تک کہ جب جانی نقصان بہت زیادہ نہ ہو، یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ حکومت حالات پر قابو نہیں رکھتی۔ اِس دائرہ کار میں وہ مقامی آبادی میں متعصب افراد کو بھی تعاون کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مرکز میں اِن کا سیاسی اثر بھی ہے۔
ایک اور حکمتِ عملی، جب اس طرح کے گروہوں کا علاقے پر جزوی قبضہ ہو جائے یا پناہ گاہیں ہوں جہاں سے وہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں، الگ تھلگ فوجی چوکیوں پر براہِ راست حملے کرنا ہے۔ یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ ہم نے قبائلی اضلاع میں ایسا ہوتے دیکھا ہے۔ نیٹو ایساف کی پوسٹوں نے یہ حربہ افغانستان اور عراق میں دیکھا ہے۔ تو اس سے کیسے نمٹا جائے؟ بڑے پیمانے پر طاقت کا استعمال یا ایک پُرجوش مخالف کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنے کی خواہش یہاں نہیں چلتی۔ یہ کوئی متعین، عقبی اور اطراف کے محاذوں کی لڑائی نہیں ہے۔ قریبی (Phalanx) ترتیب (Formations) میں (Hoplites) مُسلّح پیادہ فوج کی حکمتِ عملی یہ نہیں کہ آپ مکھیوں سے کس طرح لڑتے ہیں۔ اس کی بجائے آپ کو مکڑی کے جالے کا اندازہ لگانے اور دشمن کو پھنسانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد سے خطرے کو بے اثر کرنے کی غرض سے درست حملے (زمینی اور فضائی) کرنے کے لیے نفیس اور قابلِ عمل ذہانت کی ضرورت ہے۔
میں یہاں ایک اور اہم نکتے کا اضافہ کرتا ہوں جسے عام طور پر غلط سمجھا جاتا ہے۔ اس مقابلے میں کوئی حقیقی اختتامی نقطہ نہیں ہے۔ یہ سوچنا کہ اس خطرے کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے، نادانی ہے۔ باغی / دہشت گرد ہار کر نہیں جیتنا چاہتا۔ ریاست کا مقصد اُسے یہ موقع نہ دینا ہونا چاہیے۔ اِس معنی میں پیشگی، رانا ثناء اللہ کی استعمال کردہ اصطلاح، دہشت گرد سے آگے رہنے اور اِسے بے اثر کرنے کے حوالے سے ہے۔ ایک اچھی مثال ٹی ٹی اے کے لیے دولتِ اسلامیہ، خراسان کا سر درد ہے۔
ابھی مسئلہ اچھی ذہانت کی کمی ہے اور یہ ہر سطح کے افسران کو معلوم ہے۔ مثال کے طور پر دراندازی کی کوششوں کے بارے میں بہت کم پیشگی انتباہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گشتی دستوں کو ایک متنازع علاقے میں بڑے علاقوں کا احاطہ کرنے کے لیے بھیجنا ہے جہاں ٹی ٹی پی کو مقامی حمایت حاصل ہے۔ چونکہ وہ وردیاں نہیں پہنتے ہیں اس لیے گشت کرنے والوں کے لیے یہ معلوم کرنے کا کہ آیا کوئی دہشت گرد ہے، واحد طریقہ یہی ہے جب وہ گولی چلائے۔ مقامی حمایت کے پیشِ نظر ٹی ٹی پی کے پاس گشت کے راستوں پر گھات لگانے یا سڑک کنارے آئی ای ڈی لگانے کے لیے بہتر معلومات ہیں۔
نتیجہ: گشت کرنے والے دستوں پر بہت زیادہ نفسیاتی دباؤ ہوگا۔ اگر فوجیوں کے پاس دشمن کی شناخت کا کوئی طریقہ نہ ہو تو وہ پاگل ہو جاتے ہیں اور ہر ایک سے دشمن کا سلوک کرتے ہیں جب تک کہ وہ اپنی شناخت ثابت نہ کر دے۔ عملی طور پر اس کا مطلب مقامی آبادی کو ہراساں کرنا ہے۔ ہراساں کرنا ناراضی کو جنم دیتا ہے اور ناراضی ٹی ٹی پی کے لیے مزید مقامی حمایت کو جنم دے گی۔ جیسا کہ برنارڈ فال نے Street Without Joy میں پہلی انڈوچائنا جنگ کے بارے میں لکھا تھا، “ایک فرانسیسی افسر نے فرانسیسی کارروائیوں کا ڈان کوئکسوٹ کی ونڈ ملز کے خلاف لڑائی سے بھی موازنہ کیا”۔
تشدّد ضروری ہے لیکن تب جب دشمن کی شناخت ہو جائے۔ باالفاظِ دیگر، جب ضروری ہو یہ کافی نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ بہت سے انسدادِ دہشتگردی / انسدادِ بغاوت(COIN/CT) کے ماہرین نے لکھا ہے کہ، مقامی آبادی فتح کی کلید ہے۔
واضح الفاظ میں کسی بھی پالیسی کو درج ذیل حرکیاتی اور غیر حرکیاتی انتخاب کی ضرورت ہوتی ہے: (1) ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ افغانستان میں ایک مخالف حکومت ہے (صرف کسی حد تک حقانی کو چھوڑ کر)؛ (2) ہمیں مختلف دھڑوں اور ان کے اندرونی تناؤ کو سمجھ کر منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ (3) ہمارے پاس ایک انسدادِ دہشتگردی پالیسی ہونی چاہیے جو تزویراتی اثرات کے ساتھ کابل پر اثرانداز ہو تاکہ وہ یہ سمجھیں کہ ٹی ٹی پی ایک اثاثہ تو دُور، ایک بوجھ ہے۔ یہ صرف حرکیاتی افعال کے بارے میں نہیں ہے۔ اس میں دوست ریاستیں اور غیر حرکیاتی انتخاب شامل ہیں، جن کی ایک مثال یہ ہے کہ چین نے آمو دریا طاس (Amu Darya basin) میں شبرغان (Sheberghan) میں تیل اور گیس فیلڈ تعمیر کرنے کے لیے افغانستان سے 540 ملین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ (4) اپنے اختیارات کو وسعت دینے کے لیے، ہمیں امریکا سے تعلقات بہتر کرنے کی ضرورت ہے (جو افغانستان میں انسدادِ دہشتگردی میں دلچسپی رکھتا ہے)؛ (5) سقوطِ کابل اور ٹی ٹی اے کی دشمنی کے بعد ہمارے مفادات بعض مقامات پر اب امریکا سے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ (6) لیکن امریکا سے تعاون کرتے ہوئے ہمیں اپنی خفیہ اطلاعاتی صلاحیتوں کو بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اگر ضرورت ہو تو ہم افغانستان کے اندر اہداف کو درستی کے ساتھ بے اثر کر سکیں۔ (7) ہمیں ان ترکوں سے بات کرنے کی بھی ضرورت ہے جنہوں نے ابتدائی تبدیلیوں کے بعد شام، عراق اور لیبیا میں دشمن اہداف کے خلاف کارروائی کرنے کی اچھی صلاحیت پیدا کرلی ہے۔
بلاشبہ اِس سب کو ایک طویل عرصے کے لیے وقف منصوبہ بندی اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اپنی نشست کی پیٹی باندھ لیں۔