15th Jan, 2023. 09:00 am

آگے بڑھنے کا واحد راستہ

سابق وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب میں اپنے پتے خوب کھیلے جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت سے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہی نہ صرف ایوان میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے بلکہ انہوں نے وعدے کے مطابق اسمبلی تحلیل کی سمری پر دستخط کر دیے۔ پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی، پاکستان مسلم لیگ-قائداعظم (پی ایم ایل-ق)، شہباز شریف کی زیرقیادت وفاقی حکومت کے کچھ کارکنان کی طرف سے، پی ٹی آئی میں انتشار پھیلانے اور عمران خان اور پرویز الٰہی کے درمیان رنجش پیدا کرنے کے لیے شروع کی گئی ایک جارحانہ مہم کے باوجود اپنے وزیر اعلیٰ کے لیے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) دونوں نے وفاقی حکومت پر ایک گھناؤنا کھیل کھیلنے کا الزام لگایا کیونکہ ان کے بعض ارکان کو نہ صرف بھاری رشوت کی پیشکش کی گئی بلکہ ان پر وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے دباؤ بھی ڈالا گیا۔ وفاقی حکومت پنجاب کے چند ایم پی ایز کو توڑنے میں کامیاب ہو گئی۔ تاہم، عمران خان جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے کچھ کمزور اراکین اور پارٹی کے دیگر قانون سازوں کو متحرک کر کے وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے 186 ووٹوں کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ پی ٹی آئی کے ایک اندرونی ذرائع کے مطابق اعتماد کے ووٹ سے صرف چار دن پہلے بھی صورتحال ڈانواڈول تھی لیکن پھر عمران خان قانون سازوں سے مسلسل ملاقاتوں کے بعد مطلوبہ تعداد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

عمران خان کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے منصوبے اور اپنے اراکین قومی اسمبلی (ایم این اے) کے استعفے اسپیکر سے منظور کروانے کے پیش نظر پہلے سے ہی محصور شہباز شریف کی حکومت ایک پھسلتی ہوئی ڈھلوان پر ہے۔ معاملات حکمران اتحاد کے ہاتھ سے تیزی سے نکلتے جا رہے ہیں، جو پہلے دن سے ہی پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کی نظروں میں اعتبار کھوچکا تھا اور وہ اس اتحاد کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھارہے تھے۔ پی ڈی ایم کی خراب کارکردگی نے ، خاص طور پر اقتصادی محاذ پر، اسے ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید غیر مقبول بنا دیا ہے۔

عوامی غیظ و غضب کا اصل خمیازہ مسلم لیگ (ن) کو بھگتنا پڑ رہا ہے جس کا حکومت میں غالب کردار ہے۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ پنجاب جو کبھی شریف خاندان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، تیزی سے ان کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے۔ شہباز شریف حکومت جتنا زیادہ اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش کر رہی ہے، شریف خاندان اور مسلم لیگ (ن) کے اندر بڑھتی ہوئی رسہ کشی اور خود ساختہ جلاوطن سابق وزیر اعظم نواز شریف کے اپنی بیٹی مریم کو باضابطہ طور پر اپنا سیاسی وارث نامزد کرنے کے فیصلے کے بعد کے پس منظر میں اتنا ہی اس کے ہاتھ سے اقتدار نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔

اب ریاستی اداروں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے سامنے سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ کیا پاکستان کے سیاسی اور معاشی استحکام کی قیمت پر پی ڈی ایم کو اقتدار میں رہنے کی اجازت دی جانی چاہیے یا اداروں کو سیاست دانوں کو تعطل کو توڑنے اور پورے پاکستان میں قبل از وقت انتخابات کرانے میں مدد کرنی چاہیے؟ دو صوبوں میں انتخابات اور پی ٹی آئی کی جانب سے خالی کی گئی قومی اور سندھ اور بلوچستان اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے بجائے عام انتخابات ملک کے لیے بہتر انتخاب ہیں کیونکہ نئی پانچ سالہ مینڈیٹ کی حامل حکومت مشکل معاشی فیصلے کرنے اور وسیع اصلاحات متعارف کروانے کی پوزیشن میں ہوگی جن کی ملک کو سخت ضرورت ہے۔

یہ عام فہم بات ہے کہ اہم اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کے بعد نئے عام انتخابات ملک کو موجودہ سیاسی اور معاشی بحران سے نکالنے کی کوششوں میں پہلا قدم ثابت ہوں گے۔ لیکن اس کے لیے اداروں خصوصاً عسکری قیادت کو ، پس پردہ یا سامنے رہتے ہوئے، ثالث اور ضامن کا کردار ادا کرنا ہو گا، کیونکہ سیاست دانوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے معمولی سیاسی اور ذاتی مفادات سے آگے بڑھنے سے قاصر ہیں۔ جہاں پاک فوج تعطل کو توڑنے میں مدد دے سکتی ہے، وہیں الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ سمیت دیگر تمام اداروں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ آزادانہ، منصفانہ، پرامن اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائیں۔ تمام اداروں کو غیر جانبداری کی بات کو عملی جامہ پہنانا چاہیے تاکہ عوام کی مرضی کو صحیح معنوں میں نافذ کیا جا سکے۔

Advertisement

یہ اداروں کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی تمام ترامیم، خاص طور پر احتساب کے قوانین سے متعلق ترامیم کو ختم کر دیا جائے۔ انسداد بدعنوانی کے بیانیے کو زندہ کرنا اور بدعنوانوں بالخصوص عوامی نمائندوں کے احتساب کو یقینی بنانا جمہوریت اور کسی بھی جمہوری عمل کا بنیادی حصہ رہنا چاہیے۔ پاکستانیوں کو بدعنوانی کو، جمہوریت کے نام نہاد عیش و آرام سے لطف اندوز ہونے کی قسط کی ادائیگی سمجھنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے ۔

آگے بڑھتے ہوئے، یہ اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی متحرک سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر کام کریں تاکہ پاکستانی جمہوریت اشرافیہ کے بجائے عوام کے لیے کام کرے۔ اس مقصد کے لیے قومی اور حلقے کی سطح پر خاندانی سیاست کا خاتمہ ضروری ہے۔ اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ سیاسی جماعتیں خود جمہوری نہیں ہو جاتیں اور تعلیم یافتہ اور پیشہ ور پاکستانیوں کو پارلیمنٹ سمیت ہر سطح پر متوسط، نچلے متوسط اور محنت کش طبقے کے ساتھ سیاسی عمل میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دیتیں۔

Advertisement
Advertisement

اگلا اداریہ