تازہ ہوا کا جھونکا؟
مُصنّف سیاسی و سلامتی کی حکمت عملیوں کے ماہر اور اسلام آباد میں قائم ایک آزاد تھنک ٹینک، علاقائی امن انسٹیٹیوٹ کے بانی ہیں۔ ٹوئٹر: @RaoofHasan
پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی اور پی ایم ایل (ق) کے اتحاد کو ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اپنی طاقت برقرار رکھنے کے قابل بناتی فتح محض تعداد سے کہیں زیادہ کا اشارہ دے سکتی ہے۔ یہ مُستقبل میں پیشرفت کی تشکیل میں ایک بڑا عنصر ہو سکتی ہے، بشمول مگر اِس تک محدود نہیں، چاہے انتخابات جلد ہی کسی بھی وقت منعقد ہوں۔
قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کے لیے دباؤ ڈالنے کے مقصد سے عمران خان کے پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے فیصلے، اور بھان متی کے کنبے نُما وفاقی حکومت کے ارکان کی جانب سے تحریک انصاف کو ایسا کرنے کے لیے اُکسانے سے لے کر اس اقدام کو ناکام بنانے کی خاطر تمام تر ممکنہ ذرائع اور ہتھکنڈے اپنانے کے بعد صوبے میں اقتدار برقرار رکھنا انتہائی اہمیت اختیار کر چکا تھا۔ اب جبکہ اس مرحلے کو کامیابی سے سنبھال لیا گیا ہے، جنگ نے ایک بار پھر مختلف قسم کے تغیرات کے ساتھ شطرنج کی بساط کا رُخ کرلیا ہے جس کا تعاقب عمران خان سیاسی دائرے میں اپنے اختیار کو مستحکم کرنے کے لیے کر سکتے ہیں۔
لیکن سب سے پہلے ووٹ کی بات کرتے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے تک بہت سے لوگوں کو یقین نہیں تھا کہ عمران خان اِسے ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اُن کے پاس اس تنازع کی حمایت کرنے کی ٹھوس وجوہات موجود تھیں۔ اگرچہ پارلیمانی جماعت کے رہنما کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈالے گئے ایسے ارکان کے ووٹوں کی گنتی نہ کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد موجودہ حکومتوں کو گرانے کا عمل نسبتاً زیادہ مشکل ہو گیا ہے، پھر بھی ان کے اختیار میں موجود وسائل کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں کو یقین نہیں تھا کہ یہ ہونے نہیں دیا جائے گا۔ ان کا خیال تھا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت جلد تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔
مسلم لیگ (ق) کے کیمپ کی طرف سے اعتماد کا ووٹ لیے جانے پر ہچکچاہٹ کے باوجود عمران خان نے نہ صرف اس پر اصرار کیا بلکہ اتحاد کے لیے پارلیمانی قانونی حیثیت قائم کرنے کے لیے نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور دلچسپ اقدامات پر غور کرنے کی راہ ہموار کی جو اب وہ وفاقی حکومت اور اس کے معاونین پر مزید دباؤ ڈالنے کے لیے کر سکتے ہیں۔
اعتماد کا ووٹ ممکنہ طور پر ماضی میں ہونے والی سیاسی پیش رفتوں کو دیکھنے کے انداز میں ایک مثالی تبدیلی کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ بغیر کسی کوشش کے آقاؤں کی خواہش پر حکومتیں بنائی اور توڑ دی جاتی ہیں۔ طاقت اور پیسے نے مل کر ایک مہلک ہتھیار بنایا ہے جو اکثر گندے کاموں کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ پنڈتوں کا ماننا تھا کہ اس ہتھیار کی افادیت میں کسی بھی لحاظ سے کمی نہیں آئی ہے اور اِن قوتوں کے بڑھتے دباؤ کے ساتھ ساتھ گندی (آڈیو اور وڈیو) چالوں سے جو ماضی قریب میں زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہیں، پنجاب حکومت کو گرانا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایسا کرنے کے قابل نہیں تھے، ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کر سکتا ہے جو ممکنہ طور پر قومی سیاسی مثال پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ اس کا تعلق قانون سازوں کے طرزِ عمل سے ہے جو اُن کے حلقوں کے رائے دہندگان کی انتھک نگرانی اور دباؤ کے تحت ہے جس کے نتیجے میں نچلی سطح پر بیداری آئی جو عمران خان نے برسوں پر مُحیط اپنی انتھک کوششوں سے پیدا کی ہے۔ اگر یہ پاکستانی سیاست کی ایک مُستقل خصوصیت بن سکتی ہے تو یہ تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ہوگی جو مُستقبل میں تمام شعبہء سیاست کو متاثر کرے گی اور ان لوگوں کے لیے باعثِ اشتعال بنے گی جنہوں نے اپنا تسلط برقرار رکھنے کی غرض سے اِسے اپنا پسندیدہ شعبہ سمجھا۔ اُن کی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کو اپنانے کی مخالفت دھاندلی کے طریقِ کار کو برقرار رکھنے کی ایک مایوس کن کوشش تھی۔
آئرس (IRIS) کی جانب سے کرائے گئے ایک حالیہ رائے عامہ کے سروے میں کچھ دلچسپ خصوصیات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ 79 فیصد عوام (14 فیصد کے مقابلے میں) مانتے ہیں کہ ملک غلط سمت میں جا رہا ہے۔ عمران خان اب تک 56 فیصد کے ساتھ مقبول ترین رہنما ہیں، اس کے بعد نواز شریف 19 فیصد، بلاول 2 فیصد اور شہباز شریف 0 فیصد کے ساتھ ہیں۔ اگرچہ 71 فیصد عوام قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کی حمایت کرتے ہیں تاہم 41 فیصد عوام کا کہنا ہے کہ اگلے انتخابات کی تاریخ طے کیے بغیر صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا فیصلہ غلط تھا جبکہ 50 فیصد نے اس اقدام کی حمایت کی ہے جو ایک قریبی مُسابقت ہے۔ 57 فیصد عوام عمران خان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مؤثر پالیسیاں مرتب کریں گے جن سے قابلِ ذکر تعداد میں احتساب کے عمل کی حمایت اور عوامی مفاد پر توجہ کے ساتھ نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی میں مدد ملے گی۔
رائے شماری کے نتائج کے باوجود اگلے انتخابات میں چھ ماہ سے زائد وقت باقی ہے اور ملک دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے گورنر کو صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ پہلے ہی بھیجا جا چکا ہے۔ اگر وہ اڑتالیس گھنٹوں کے اندر کارروائی نہیں کرتے تو اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جائے گی اور نوے دنوں کے اندر صوبے میں نئے انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے لیے اسی طرح کا مشورہ وزیراعلیٰ کی جانب سے صوبے کے گورنر کو بھیجے جانے کا امکان ہے۔ مختصراً، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگلے نوے دنوں میں ملک کے ساٹھ فیصد سے زائد حصوں میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے جائیں گے۔ یہ عمران خان کے اس عزم کے مطابق ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا جائے گا، اس طرح وفاقی حکومت پر قبل از وقت انتخابات کرانے کے لیے اضافی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی پہلے ہی قومی اسمبلی سے مستعفی ہو چکے ہیں اور پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تحلیل ہو رہی ہیں، یہ بہانہ کرتے ہوئے کہ واقعی کچھ ہوا ہی نہیں، بھان متی کے کنبے نُما وفاقی حکومت کو مزید چلانے کے لیے کوئی عقلی دلیل باقی نہیں رہتی۔
عمران خان کی جمہوری اور آئینی حکومت کے خاتمے کے بعد ایک غیر ملک سے متاثرہ اور مقامی سہولت کاروں کی سازش سے جوڑی گئی حکومت کبھی بھی وہ قانونی حیثیت حاصل نہیں کر سکے گی جو ریاست کے معاملات چلانے کے لیے بہت ضروری ہے۔ گزشتہ آٹھ مہینوں کو ملکی تاریخ کا بدترین دور قرار دیا جا سکتا ہے جب کسی حکومت نے عوام کی حمایت (مینڈیٹ) کے بغیر کام کیا جس کی کارکردگی نے اسے دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچا دیا۔ پاکستان اور اس کے عوام اس دوہری تباہی کے نتائج بھگت رہے ہیں۔
اب جبکہ پاکستان ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے جس میں ملک کے نصف سے زیادہ، یہاں تک کہ ملک بھر میں انتخابات ہونے کا امکان ہے، امید ہے کہ یہ عمل آزادانہ، منصفانہ اور شفاف طریقے سے مکمل ہوگا تاکہ عوام حقیقی اور جوابدہ جمہوریت کے ثمرات سے مُستفید ہو سکیں۔
ہر کوئی یہ اُمید کرتا ہے کہ تازہ ہوا کا جھونکا پاکستان کے لیے خوشخبریاں لائے گا۔






