اسے ٹریفک کہیں یا پھر بدنظمی کی انتہا؟
لکھاری وکیل، مصنفہ اور لمز میں ایجوٹنٹ فیکلٹی، پی آئی ڈی ای کی سینئر وزیٹنگ فیلو اور مشاورتی بورڈ کی رُکن ہیں۔
’ ’اگر میں ٹریفک جام کی شکایت کرتا ہوں تو اس کا قصوروار میرے سوا کوئی اور نہیں ‘‘۔ اسٹیو وین
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 2021 ءمیں 10 ہزار 429 ٹریفک حادثات رپورٹ ہوئے جن میں سے 4 ہزار 721 جان لیوا ثابت ہوئے ، جب کہ 5 ہزار 708 واقعات میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ان ٹریفک حادثات کے نتیجے میں 5 ہزار 816 افراد جان سے گئےاور 12 ہزار 351 شہری زخمی ہوئے ۔مجموعی طور پر ان حادثات میں 15 ہزار 351 گاڑیاں شامل تھیں۔ ڈبلیو ایچ او نے تخمینہ لگایا ہےکہ دنیا بھر میں ہر سال تقریبا 13لاکھ 50 ہزار افراد مختلف ٹریفک حادثات کے نتیجے میں ہلاک ہوجاتے ہیں،ان ممالک کی فہرست میں درمیانی اور کم آمدنی والے ممالک سرفہرست ہیں۔
ان حادثات کے نتیجے میں زیادہ تر پیدل چلنے والے، موٹر سائیکل وسائیکل سوار موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کار سوارو ں کی نسبت زیادہ غیر محفوظ انداز میں سفر کر رہے ہیں ۔ اس لیے سڑکوں پر عموما ان کی زندگی کو زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں ۔یہاں بیان کیے گئے اعداد و شمار ایک افسوسناک حالت صورتحال کو بیان کرتے ہیں ، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو اپنے پیاروں کو ایسے المناک حالات میں کھو دیتے ہیں۔ لیکن یہ تو طے ہے کہ حادثات تو کہیں بھی رونما ہو سکتے ہیں، یہاں تک کہ ایسا وہاں بھی دیکھا گیا ہے جہاں مسافر ٹریفک قوانین سے بخوبی واقف ہوں اور سڑکوں پر ٹریفک نظم و ضبط کے مطابق رواں دواں ہو۔
اگرچہ مختلف حکومتوں کی جانب سے ہر طرح کے ڈرائیوروں کے ضوابط کی پابندی کو یقینی بنانے کے لیے بہت کچھ کیا جاچکا ہے لیکن پاکستان کی سڑکوں پر قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ ٹریفک بنیادی طور پر ایک صوبائی موضوع ہے، اس لیے وفاقی دارلحکومت سمیت ہر صوبے کا اپنا انسپکٹر جنرل ٹریفک ہوتا ہے، جو ایک فورس کی سربراہی کرتا ہے جو ٹریفک کے ہموار بہاؤ کو یقینی بنانے کے لیے ذمہ دار ہے۔
صوبائی حکومتوں کی آفیشل ویب سائٹس پر جائیں تو اس حوالے سے ایسے بیانات دیکھے جاسکتے ہیں جو قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے عزم کو ظاہر کررہے ہیں ۔مثال کے طور پر، وہاں یہ لکھا تو دیکھا جاسکتا ہے کہ ’ ’قوانین کو سختی سے نافذ کرایا جائے ، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے جوابدہ ہوں گے‘‘ ۔سرکاری ویب سائٹس پر خیبرپختونخوا کے معاملے میں امن عامہ کو برقرار رکھنے سے متعلق بھی درج ہے، جب کہ پنجاب کے حوالے سے سڑکوں پر عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے اور مصیبت کے وقت سڑک استعمال کرنے والوں کو مدد کی فراہمی کے دعوے بھی کیے گئے ہیں۔
’ ’یہ ہمارا عزم ہے کہ سڑک استعمال کرنے والے تمام لوگوں کے احترام کے ساتھ قوانین کی پابندی کریں اور اخلاقی طریقوں کو ہر وقت برقرار رکھیں‘‘کم سے کم وسائل ،افرادی قوت اور سامان کے کفایتی استعمال کے ساتھ ٹریفک کے ہموار بہاؤ کو یقینی بنایا جائے ۔ویب سائٹس پرٹریفک قوانین کو نافذ کرنے اور ٹریفک کو منظم کرنے کے لیے بتدریج جدید آلات (آؤٹ آف آرڈر سیف سٹی کیمرے) کے استعمال کی طرف منتقل ہونے کے بارے میں بھی ہدایات موجود ہیں ۔
ان ہدایات کو آن لائن پڑھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہےکہ جیسا کہا گیا ہے ان پر عمل بھی ہوگا،لہذا ملک کا کوئی بھی شہری بآسانی یہ تصور کر سکتا ہےکہ تمام شہروں کی سڑکوں پر چلنے والے ٹریفک کا بہاؤ بالکل درست انداز میں رواں دواں ہے۔لیکن افسو س کہ صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے۔ملک کے تمام بڑے شہروں اور قصبوں میں سڑکوں پر پائی جانے والی شدید بدنظمی ، افراتفری اور بدامنی کی صورتحال ہماری ریگو لیٹری فورسز کی ’سنجیدگی ‘کا منہ بولتا ثبو ت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ٹیکس کے طور پر قومی خزانے میں اپنا حصہ تو ڈالتے ہیں، لیکن پھر بھی سڑکوں پر انہیں دوران سفر مطلوبہ سہولیات فراہم نہیں کی جارہی ہیں ۔
یہ تصورات عام ہیں کہ جو شخص بھی گاڑی یا موٹرسائیکل چلا رہا ہے اسے ٹریفک قوانین کا لازمی طور پر علم ہونا چاہیے، اور عمر کے لحاظ سے اسے گاڑی چلانےکےلیے اہل ہونا چاہیے، اس کے پاس درست لائسنس ہونا چاہیے۔ یہ تمام باتیں علمی طورپر ہمارے منظر نامے سے بالکل غائب ہیں ۔اتنی بڑی آبادی والے ملک کو تعلیم دینے کے لیے حکومت کے پاس وسائل کی کافی کمی ہے اور یہاں جس انداز میں ڈرائیونگ لائسنس جاری کیے جاتے ہیں یہ ایک الگ کہانی ہے۔حیرت انگیز طور پربڑی اور مہنگی گاڑیوں کے مالکان اپنی گاڑیوں کو بہت آسانی سے اپنے ڈرائیوروں کے حوالے کر دیتے ہیں، جو شہر کے ٹریفک قوانین سے شاید ہی واقفے ہوتے ہیں اور انہیں سڑک پر سفر کرنے والے دیگر مسافروں کی قطعی طور پر کوئی پروا نہیں ہوتی۔
معاملات اس وقت مزید خراب نظر آتے ہیں جب دفاتر ر اسکول اور کالج جانے والے موٹرسائیکل سواروں کا رش (بیشتر کم عمر افراد) مخصوس اوقاتِ کار کے دوران ٹریفک کے بہاؤ کا زبردستی حصہ بننے کے دوران گڑبڑ پیدا کردیتا ہے۔اس دوران سڑک کے اطراف رواں دواں گدھا گاڑی بھی دیگر مسافروں کے لیے مشکلات کا باعث بنتی ہیں جنہیں اکثر خواتین اور بچے چلارہے ہوتے ہیں۔
ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی اس قدر عام ہے کہ بتی کے سبز ہونے پر بھی احتیاط برتنی پڑتی ہے، ورنہ خلاف ورزی کرنے والے سے تصادم کا خدشہ رہتا ہے۔جن مقامات پر سگنل کسی بھی وجہ سے کام نہیں کر رہےوہاں اگر کوئی سڑک کے دوسری طرف سے بحفاظت نکل جائے تو خدا کی ذات پر اس کا یقین کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ بڑے شہروں میں ٹاؤن پلانرز نے خاص طور پر پیدل چلنے والوں کی کبھی پرواہ ہی نہیں کی، اور سگنل فری کوریڈورز فراہم کرنے کے شوق میں شہر کی سڑکوں کو ہائی ویز میں بدل دیا گیا، جس کی وجہ سے پیدل چلنے والوں کو اکثر و بیشتر حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چورنگیاں (چوراہے ) وہ جگہ ہیں جہاں ٹریفک کی صورتحال سب سے زیادہ خراب نظر آتی ہے۔اس وقت شدید حیرانی ہوتی ہے جب دائیں جانب سے آنے والی گاڑیوں کو راستہ دینے کے اصول کی قطعی طور پر پروا نہیں کی جاتی ۔ پھر اس نوعیت کے اصولوں کو وضع پر والوں پر بھی سوال اٹھنے لگتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اپنی لین میں مسلسل نہ چلنے والے بعض موٹرسائیکل سوا ر سائیڈ کاٹتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ اس طرح وہ دوسروں کی زندگی کےلیے شدید خطرہ بن جاتے ہیں۔
دو پہیوں والی سواری پر سفر کرنے والے غالباً ان بنیادی اصولوں سے واقف نہیں ہوتے کہ چوراہے پر گاڑی کی رفتار کو سست کرنا اور دوسرے کو راستہ دینے کی تیاری کرنا ہوتا ہے اور اگر ضروری ہو تو کسی بھی قسم کے حادثے سے بچنے کےلیے رک جانا ضروری ہوتا ہے، لیکن اس کے برعکس وہ اپنی موٹر سائیکل کی رفتار مزید بڑھاتے ہوئے زبردستی دوسری لین کے اندر گھسنے کی کوشش جاتے ہیں اور رکنے کو قطعی طور پر غیر ضروری سمجھنے لگتے ہیں ۔ نتیجے کے طور پر تقریبا تمام چوراہوں پر نظر آنے والے مناظر وجوہات کی درست عکاسی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔
ہمارے جیسے ملک میں جہاں مناسب ٹیسٹ کے بغیرڈرائیونگ لائسنس جاری کیے جاتے ہیں، وہاں تمام موڑ پر چوراہوں کی نہیں بلکہ ٹریفک سگنل یا پھر ٹریفک کنٹرولر کی ضرورت نظر آتی ہے۔اربن ماس ٹرانزٹ سسٹم کی عدم موجودگی میں، گاڑیوں کی تعداد (چنگ چی رکشوں کی طرح غیر معیاری گاڑیاں)، سڑکوں پر خطرناک طریقے سے بھرے سامان کو لے جانے والے اوور لوڈ موٹر سائیکلوں اور ٹرکوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، اور یہ اس حد تک بڑھ گیا ہےکہ سگنل فری کوریڈور بھی گھنٹوں جام ہوجاتے ہیں ۔
اگرچہ ایسا زیادہ تر ڈرائیونگ کی ناقص مہارت، غلط پارکنگ اور کبھی کبھار حادثات کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے لیکن پھر بھی اس کے اہم ذمہ دار ان میں انتہائی ناقص ٹریفک کنٹرول افسر ، بغیر ٹیسٹ شدہ لائسنس ہولڈرز اور بغیر لائسنس گاڑی چلانے والے شامل ہیں۔
اہم شاہراہیں جیسے ایم 2 ہائی وے جو کبھی بہترین ٹریفک کے قوانین کے حوا لے سے بے مثال سمجھی جاتی تھی، اب وہاں کی صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ ان سڑکوں کو بار بار استعمال کرنے والے مسافروں کو اس بات کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے کہ اگر اوور اسپیڈنگ جرم ہے، تو تیز رفتار یا مخصوص لین میں گاڑی کی کم رفتا ر بھی غیر مناسب عمل ہے، لیکن ہمارے یہاں ان وجوہات کے باعث ممکنہ حادثات کے خطرات کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔
پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا با آسانی ڈرائیوروں کو ڈرائیونگ کے قوانین کے بارے میں آگاہ کرنے،اور ان میں احساسِ ذمہ داری کو بیدار رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ٹریفک حادثات پر قابو پانے کےلیے ٹریفک کنٹرولرز قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ کوئی رحم دلی کا طرز عمل نہ اپنائیں ۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ جب ڈرائیور کو گاڑی چلانے کا حق حاصل نہ ہو اور جب وہ جان بوجھ کر آنے والی گاڑیوں کے لیے مشکلات کا باعث بنے ۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو اِن پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے لیے) کا ممکنہ کیس بنا یا جاسکتا ہے۔ٹریفک کنٹرولرزکواُن تمام گاڑیوں کو بھی ضبط کرنا چاہیے جو تو سڑک پر چلائے جانے کے قابل نہیں ہیں ۔یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صرف سخت قسم کےاقدامات ہی اس افراتفری کی صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں ،جسے ہمارے یہاں ٹریفک کہا جاتا ہے۔






