اعجاز حیدر

15th Jan, 2023. 09:00 am

آدھے سچ کی سیاست

حساس خارجہ و سلامتی پالیسی کے مسائل کو سیاسی یا ذاتی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے

مُصنف سلامتی اور خارجہ پالیسیوں میں دلچسپی رکھنے والے صحافی ہیں

بلاگ پوسٹس کی ایک حالیہ سیریز میں ایک ٹی وی اینکر جاوید چودھری نے اپنے بیان کے مطابق، سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ایک طویل ملاقات کے بعد کئی “انکشافات” کیے ہیں۔

جاوید چودھری نے جو کچھ لکھا ہے وہ زیادہ تر ملکی سیاست اور سابق وزیراعظم عمران خان اور باجوہ کیسے اور کیوں الگ ہوئے، کے بارے میں ہے۔ اگرچہ اِس بیان کے بہت سے حصے پہلے سے ہی معلوم تھے، قیاس ہے کہ یہ معلومات جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی طرف سے آئی ہیں اور اِن کا مقصد عمران خان کے اُن کے بارے میں دیے گئے بیانات سے متاثرہ اُن کی شبیہہ کو درست کرنا ہے۔

Advertisement

اگرچہ ہم اِس بیان کے ملکی حصے کا جامع تجزیہ کریں گے کیونکہ اِسے الگ طور پہ دیکھنے کی ضرورت ہے، میں اِس بات سے شروع کرتا ہوں جو جاوید چودھری نے پاک بھارت تعلّقات اور “بڑے موقع (بریک تھُرو)” کے حوالے سے لکھی ہے جو قوم کی مُٹھی میں تھا لیکن عمران خان نے ضائع کر دیا۔ جاوید چودھری نے جو لکھا اس کا ترجمہ یہ ہے، “ڈی جی انٹر سروسز انٹیلیجنس لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بھارتی مشیرِ قومی سلامتی اجیت دوول سے کئی بار عرب ملک میں ملاقاتیں کیں۔ بیک چینل کی اِن ملاقاتوں کے نتیجے میں یہ طے پایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 9 اپریل 2021ء کو پاکستان کا دورہ کریں گے۔ ہنگلاج ماتا کے عقیدت مند مودی مندر جائیں گے اور وہاں دس روز کا روزہ رکھیں گے۔ واپسی پر وہ عمران خان سے ملاقات کریں گے اور اُن کا ہاتھ بلند کرکے دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا اعلان کریں گے۔

اور اس دورے کی شرائط کیا تھیں؟ جاوید چودھری لکھتے ہیں: “مودی دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کھولنے کا اعلان کریں گے۔ دونوں فریق اعلان کریں گے کہ وہ نہ تو ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت کریں گے اور نہ ہی ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہوں گے۔ مسئلہء کشمیر 20 سال تک التوا میں رہے گا اس سے پہلے کہ اِس کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جا سکے”۔

جاوید چودھری مزید لکھتے ہیں کہ یہ انتظام اُس وقت درہم برہم ہو گیا جب سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عمران خان کو بتایا کہ کشمیر پر یہ معاہدہ کرنے سے اُن کی سیاسی قسمت پر مہر لگ جائے گی۔ خان پیچھے ہٹ گئے اور نتیجتاً یہ دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ آئیے یہ سوال اٹھانے سے پہلے اس بیان کی وضاحت کرتے ہیں کہ کیا سابق آرمی چیف کو جاوید چودھری کو یہ رسیلا بیان دینا چاہیے تھا۔

واضح طور پر 2021ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی قسم کے بیک چینل کے بارے میں متعدد رپورٹس تھیں۔ درحقیقت 13 اکتوبر 2020ء کو کرن تھاپر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سابق مشیرِ قومی سلامتی معید یوسف نے کہا کہ بھارت نے بات چیت شروع کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ تاہم، جیسا کہ میں نے اُس وقت لکھا تھا، اِس کا انکشاف کرتے ہوئے، معید یوسف نے یہ بھی واضح کیا کہ اِس طرح کی بات چیت بھارت کی طرف سے کچھ ٹھوس اقدامات پر منحصر ہے جیسے کہ “مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیاسی قیدیوں کی رہائی، کشمیریوں کو مذاکرات میں فریق بنانا، خطے میں پابندیاں ختم کرنا، ڈومیسائل قانون کو منسوخ کرنا جو غیر کشمیریوں کو خطے میں آباد ہونے کی اجازت دیتا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنا”۔

بیک چینل بات چیت سے یہ معلوم ہونا شروع ہوا کہ دونوں فریق کیا حاصل کر سکتے ہیں۔ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے 2022ء میں صحافیوں سے اِس بارے میں آف دی ریکارڈ بات کرنا شروع کی۔ جاوید چودھری کے بلاگ پوسٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہوں (باجوہ) نے اب اِسے ریکارڈ پر لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

میں نے کچھ دیگر ذرائع سے اِس کا تجزیہ کیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ واقعی اِس کا ابتدائی روڈ میپ تھا کہ یہ کیسے ہوگا۔ مودی کا دورہ پاکستان اِنہی انتظامات کا حصہ تھا۔ تاہم یہ واضح رہے کہ سیاسی پرنسپل کی طرف سے اِس بارے میں کوئی منظوری نہیں دی گئی تھی کہ آیا یہ معاملہ آگے بڑھے گا، یا بڑھ سکتا ہے، حالآنکہ یہ خفیہ معاملہ سول حکومت کے متعلقہ افراد کے علم میں تھا۔

Advertisement

9 اپریل کی تاریخ پر بھی کچھ شک ہے کیونکہ اُس وقت مودی اپنے قریبی ساتھی امیت شاہ کے ساتھ مغربی بنگال کے ریاستی انتخابات میں کافی (اور ذاتی طور پر) ملوّث تھے۔ کیا وہ اُس وقت پاکستان کے 10 روزہ دورے کے لیے روانہ ہو سکتے تھے، یہ غیریقینی ہے۔ تاہم میں اِس پر بحث نہیں کروں گا کیونکہ یہاں چار دیگر اہم نکات موجود ہیں۔

سب سے پہلا، کیا سابق آرمی چیف کو سیاسی وجوہات کی بنا پر یہ معلومات ریکارڈ پر رکھنی چاہیے تھیں؟ دوسرا، اِس طرح کے معاملات پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ اِن کا مقصد یہ بتانا ہے کہ کیا ممکن ہے اور کیا نہیں۔ با الفاظِ دیگر، اگرچہ وہ کشیدگی میں کمی کے لیے اہم ہیں اور اعتماد سازی کے اقدامات کے طور پر کام کرتے ہیں، وہ حقیقی اور کھُلی بات چیت کا متبادل نہیں ہیں۔ تیسرا، یہ عمل بتدریج ختم ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ایک یا دونوں فریقوں کے لیے لاگت کے لحاظ سے مؤثر نہیں ہو سکتا۔ چوتھا، اِن خفیہ معلومات کو اِس انداز سے کیوں عام کیا جانا چاہیے کہ جس کا واضح مطلب سابق وزیراعظم کو ایک عظیم لمحے سے محروم کرنے کے ذمے دار شخص کے طور پر پیش کرنا ہو اور اِس کے ذریعے پاکستان پر مسلسل دشمنی کا الزام لگایا جائے؟

پہلے نکتے / سوال کا جواب زوردار “نہیں” ہے۔ حساس خارجہ و سلامتی پالیسی کے معاملات کو سیاسی یا ذاتی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

دوسرا، اِس سے بھی بڑا مسئلہ درجہ بالا چوتھے نکتے کے حوالے سے ہے۔ یہ بیان بھارت کے سوال کے بارے میں کیوں خاموش ہے؟ یہ سوچنا کہ مودی نے پاکستان آکر “دوستی” کا اعلان کرنے کا فیصلہ اِس لیے کیا ہے کیونکہ وہ انسانی ہمدردی کے جذبات سے معمور ہیں،انتہائی بیوقوفی ہوگی۔ جو منظرِعام پہ لایا گیا ہے وہ کافی نہیں ہے اور ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر پر اصل معاہدہ کیا تھا؟ کیا کشمیری اِس کا حصہ تھے؟ یا غلط اور غیر منصفانہ طور پر اِس پر پاک بھارت علاقائی مسئلے کے طور پر بات چیت کی گئی؟ بھارت 20 برسوں میں ایسا کیا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی خود ارادیت کو التوا میں ڈال دیا جائے؟ بھارت کی جانب سے دہشت گردی کی سرپرستی کے حوالے سے کیا بات چیت ہوئی، خاص طور پر پاکستان کی جانب سے جمع کیے گئے ثبوتوں کے تناظر میں جو ایک نہیں بلکہ دستاویزات کے دو مجموعوں (ڈوزیئرز) کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیے گئے؟

کچھ تفصیلات کے بارے میں دیگر معلومات دستیاب ہیں۔ میں اِن تفصیلات میں نہیں جاؤں گا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ بھارت نے مانگا تھا وہ پاکستان کی کوئی حکومت نہیں دے سکتی تھی۔ وہ تفصیلات جان بوجھ کر اِس انکشاف سے غائب کر دی گئی ہیں۔ مزید برآں، یہ کہنا کہ شاہ محمود قریشی نے عمران خان کو اِس عمل سے پیچھے ہٹنے کو کہا، اِس عمل کے بارے میں ادارہ جاتی تشخیص اور وزارتِ خارجہ و دیگر متعلقہ عناصر کی جانب سے بھارتی مطالبات کو نظر انداز کرنا ہے۔

Advertisement

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اِس ملک کی سیاست اِس طرز کی ذاتی نوعیت اختیار کر چکی ہے کہ انتہائی حساس معاملات کو جان بوجھ کر افشا کرکے آدھے سچ کو عام کیا جا رہا ہے۔ کسی لڑائی میں پہلو اور عقب سے حفاظت بہت ضروری ہے۔ اس انکشاف نے بھارت کے لیے دنیا کو یہ بتانے کی گنجائش فراہم کی کہ جب وہ دوستی کے لیے تیار تھا، پاکستان نے اِس عمل کو ناکام بنا دیا۔ درحقیقت بھارتی میڈیا نے پہلے ہی جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے انکشافات کو اِس انداز سے پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔

اگرچہ بہت جامع مگر آخری بات، کیا ایک آرمی چیف ایک منتخب وزیراعظم کو بتا رہا ہے کہ اُسے کیا کرنا چاہیے، چاہے وہ خارجہ اور سلامتی پالیسیوں کے حوالے سے ہو یا کسی صوبے کے وزیراعلیٰ کی تقرری کا معاملہ ہو؟ فوج کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے پیشہ ورانہ دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی تشخیص پیش کرے۔ نہ زیادہ اور نہ کم۔ مگر یہ بہترین نیت کے ساتھ بھی ملکی سیاست کو چلانے کی کوشش نہیں کر سکتی۔ ایک سربراہ اور اُس کی ٹیم نے بالکل یہی کیا جو اِن “انکشافات” سے حاصل ہونے والا اصل سبق ہے۔

Advertisement

Next OPED