رؤف حسن

22nd Jan, 2023. 09:00 am

جرم اور منافقت کی بھرمار

توشہ خانہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف درج ہونے والے بہت سے جعلی مقدمات میں سے ایک تھا جس کی وجہ سے انہیں صبح، دوپہر اور شام کابینہ کے تقریباً ہر رکن نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عمران خان کو مجرم قرار دلوانے کے لیے یہ ان کے پاس موجود سب سے اہم ثبوت تھا۔

لیکن جب لاہور ہائی کورٹ کے جج نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ بیرون ممالک سے مختلف معززین کو ملنے والے تحائف کا پورا ریکارڈ اس کے سامنے پیش کرے تو پھر حکومت نے یہ استدعا کی کہ توشہ خانہ کے تحائف سے متعلق معلومات کو ’’عوامی انکشاف‘‘ اس طرح زمرہ بند یا کلاسیفائیڈ کیا گیا ہے، ’’ اس طرح کے موضوعات ذرائع ابلاغ پر غیرضروری طور پر اچھالے جاسکتے ہیں جو بین الاقوامی تعلقات کے انعقاد میں پاکستان کے مفادات کے لیے ممکنہ طور پر نقصان دہ ہو سکتا ہے۔‘‘

حکومت نے مزید استدلال کیا کہ معلومات تک رسائی کا حق (آر ٹی آئی) ایکٹ، 2017 ء بھی معلومات کے افشاء سے چھوٹ فراہم کرتا ہے جو ’’کسی فرد کی ذاتی رازداری سے متعلق ہے، ان معلومات کے علاوہ وہ معلومات جن کے افشا ہونے سے بین الاقوامی تعلقات کے عمل میں پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے انہیں وفاقی وزیر انچارج کے ذریعہ زمرہ بند قرار دیا گیا ہے۔‘‘

ایک بات تو یہ ہے کہ یہ درخواست بالکل بے بنیاد ہے۔ لیکن، فرضی طور پر، اگر کوئی اس تنازعہ کو جائز مان بھی لے تو سوال یہ ہے کہ حکومت کو دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات خراب ہونے کا خطرہ اس وقت درپیش کیوں نہیں ہوا جب وہ یہ ڈھنڈورا پیٹ رہی تھی کہ عمران خان نے مبینہ طور پر اپنے تحائف کا کیا کیا ، اور اب وہ اسی طرح کی تفصیلات عدالت میں پیش کرنے سے گریزاں ہے کیونکہ وہ اس کے اپنے رہنماؤں کے طرز عمل سے متعلق ہیں؟ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کو ملنے والے توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات جاری کرنے سے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو خطرہ نہیں ہوگا۔ لیکن اپنے ہی سزا یافتہ اور مفرور رہنماؤں کے لیے ایسا کرنا نقصان دہ ہوگا۔ یہاں منافقت اپنے انتہائی عروج پر بلکہ اس سے بھی آگے ہے۔

یہ صرف توشہ خانہ کی بات نہیں ہے کہ حکومت نے انتہائی گھٹیا اور دوغلا موقف اختیار کیا ہوا ہے۔ جب سے اس مجرم ٹولے کو اس کے سرپرستوں اور پروموٹرز نے مسند اقتدار پر بٹھایا ہے اس وقت سے اٹھایا گیا ہر قدم منافقت سے پُر ہے۔ یہ منافقت اس وقت ظاہر ہوئی جب انہوں نے اپنے عہدے کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے دور اقتدار کے دوران کیے گئے کثیر الجہتی جرائم  کا خاتمہ کرنے کے لیے قوانین کو منسوخ یا ان میں ترامیم کیں۔ یہ منافقت اس وقت بھی ظاہر ہوئی جب زیر سماعت مجرموں میں سے ایک کو وزیراعظم اور دوسرے کو وزیراعلیٰ پنجاب کا عہدہ دے دیا گیا۔ اس ٹولے کو دوبارہ اقتدار میں واپس لانے کا موروثی جرم اس وقت واضح ہوا جب بھگوڑوں کے ایک گروہ کو سرکاری طیاروں میں پاکستان واپس لایا گیا تاکہ عدالتوں سے بریت حاصل کرکے وہ بدعنوانی کے داغوں س نجات پالیں اور پھر سے دولت کے ڈھیر جمع کیے جاسکیں۔

Advertisement

پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کا معاملہ ہی لے لیں۔ استعفے جمع کرائے جانے کے مہینوں بعد بھی کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر انہیں قبول نہیں کیا جارہا تھا۔ یہ اسپیکر قومی اسمبلی کے دفتر میں پڑے سڑتے رہے، لیکن جس لمحے صدر کی جانب سے وزیر اعظم سے اسمبلی کے فلور پر اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لیے کہنے کا ذکر آیا تو اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک کے امکان کو ختم کرنے کے لیے منٹوں میں 35 استعفے منظور کر لیے۔

یا اس حقارت پر نظر کریں جس کے ساتھ وہ ڈیفالٹ کے بڑھتے ہوئے امکان کا جواب دے رہے ہیں۔ ایک طرف تو حکومتی وزرا اس بات کا چرچا کررہے ہیں کہ ملک چلانے کے لیے خزانے میں کچھ نہیں بچا اور جلد ہی یہ اندھیروں میں ڈوب سکتا ہے کیونکہ تیل درآمد کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، لیکن دوسری طرف کابینہ کے ارکان اور وزیر اعظم خود یہ خوشنما تصویر پیش کرتے ہوئے نہیں تھکتے کہ سب کچھ قابو میں ہے اور جلد ہی پیسہ آنا شروع ہو جائے گا۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہاں سے؟ آئی ایم ایف اس وقت تک قرض کی کوئی قسط جاری کرنے کو تیار نہیں ہے جب تک کہ حکومت اپنے آپریشنز میں وسیع پیمانے پر اصلاحات اور تنظیم نو نہیں کرتی۔

اس بدعنوان ٹولے کا اقتدار کے ایوانوں میں گزرا ہر دن ان کے مناصب سے جڑے جرائم میں ان گنت جرائم کا اضافہ کردیتا ہے۔ جب بھی وہ اپنا منہ کھولتے ہیں تو جھوٹ کا دریا بہہ نکلتا ہے اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے ان کے چہرے پر شرم کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ جب بھی وہ کشکول لے کر نکلتے ہیں تو ملک اور اس کے عوام کے لیے شرمندگی اور رسوائی ہی لے کر لوٹتے ہیں۔ جب بھی یہ مائیک کے پاس پہنچتے ہیں تو آدمی کو ان کے منہ سے نکلنے والی گندگی کا سوچ کر ہی کراہت آنے لگتی ہے۔ وہ اس ملک پر پچھلی ساڑھے تین دہائیوں کے بیشتر عرصے میں حکومت کرتے رہے ہیں، اور اس دوران ملکی ترقی اپنے ہر پہلو میں زوال پذیر رہی لیکن ان کی ذاتی دولت میں اضافہ ہوتا رہا اور پوری دنیا میں پھیلی ان کی محلاتی جائیدادوں کا ذخیرہ بڑھتا رہا۔

ان تمام برسوں کے دوران، عدلیہ اور بیوروکریسی کی قیادت میں ریاستی اداروں نے ایک بھیانک طور پر پیچیدہ کردار ادا کیا: جہاں اول الذکر ایک ایسی بے ہوشی میں چلی گئی جس سے ہنوز بیدار نہیں ہوئی، وہیں بیوروکریسی ان کی شراکت دار بن کر رہ گئی۔ ان کا طرز عمل جیسے جیسے مہلک تر ہوتا گیا، اپنے آئینی فرائض کی ادائیگی میں ان اداروں کی غفلت بھی بڑھتی چلی گئی۔ اس پر مستزاد میڈیا تھا جس نے اپنی مجرمانہ منافقت کو چھپانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور انہیں نئے پاکبازوں کے طور پر رنگ دیا جو معاملات کو درست کرنے آئے تھے۔

ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے اور عوام ایک ایسی تبدیلی کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں جو آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد سے ہی آسکتی ہے۔ عوام کی عدالت سے بھاگ کر یہ ملک کے لیے مزید بدنامی اور اپنے محسنوں کے لیے شرمندگی کے ڈھیر لگاتے چلے جارہے ہیں۔

Advertisement

Next OPED