الطاف حسین وانی

22nd Jan, 2023. 09:00 am

راجوری میں  قتل و غارت کا  بازار گرم

وقت آگیا ہے کہ دنیا مظلوم کشمیریوں کی حالت زار کا  نوٹس لے اور بھارت کو ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے روکنے کے لیے  آگے آئے

مصنف اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک کشمیر انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی تعلقات کے چیئرمین ہیں۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایک خاموش جنگ جاری ہے جس کا کوئی انجام نظر  نہیں آرہا۔  یہ خطہ مسلسل ظلم و جبر کی زد میں ہے، متنازعہ علاقے میں بے گناہ شہریوں کا قتل  عام  روز مرہ کا معمول بن چکا  ہے،  نئی دہلی نے اس خطے کو اپنے مذموم عزائم کو حاصل کرنے کے لیے ایک نئے میدان جنگ کے طور پر  منتخب کیا ہے۔

مقبوضہ کشمیریوں میں  بدترین تشدد  کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری  ہے، لیکن گذشتہ  چند سالوں کے دوران ایک نیا اور  تشویشناک  طریقہ  کار سامنے  آرہا ہے ، وہ یہ کہ اقلیتی برادریوں کے  عوام کو   ایک مذموم منصوبے کے تحت  مقبوضہ وادی میں  بسنے  والے  کشمیریوں کی جاری جدوجہد کی منفی تصویر  پیش  کرنےکے لیے جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ضلع راجوری میں ایل او سی کے قریب  گاؤں ڈنگری  کے  دو بچوں سمیت6 شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ   بدترین مظالم کی ایک  مثال ہے  ،جس کا براہ راست  تعلق   بھارتی  ریاست سے ہے،  جو   پہلے سے ہی اپنے تزویراتی  اہداف کے عین مطابق معصوم کشمیریوں کو قتل کرنے کا بدنام زمانہ ٹریک ریکارڈ  رکھتی ہے۔اب تک بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے بہت سارے واقعات رونما ہوچکے   ہیں، جن  کے بارے میں بھارتی حکام  یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ان واقعات میں مرنے والوں کا تعلق مزاحمتی جنگجوؤں  سے ہے،لیکن بعد میں ہونے والی تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہےکہ  اقلیتی گروہوں کے ارکان پر حملوں کی منصوبہ بندی میں بھارتی فوج کے اہلکار اور خفیہ ایجنسیاں براہ راست طور پر   ملوث  پائی گئیں ۔

Advertisement

کشمیری عوام  گذشتہ  کئی دہائیوں سے  انتشار کی صورتحال کے دوران  زندگی گذارنے  پر مجبور ہیں ۔  چٹی سنگھ پورہ، پاتھریبل، بارکپورہ، وندھاما سمیت  دیگر مقامات پر ہونے والے اجتماعی قتل عام  کے واقعات اس کی مثالیں ہیں ۔یہ قتل عام اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ بھارتی  حکومتیں خطے میں اپنے نام نہاد مفادات کی تکمیل کے لیے تشدد،تباہی و   بربادی  کو ایک اسٹریٹجک ٹول کے طور پر کتنی بے دردی سے استعمال  کرنے پر یقین رکھتی ہے۔

چٹی سنگھ پورہ میں بھارتی فوج نے سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے 35 افراد کو بے دردی سے گولیوں کا نشانہ بنایا۔

بھارتی فوج نے بلاشبہ   اس   منصوبے کو کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بدنام کرنے کے لیے ترتیب دیا تھا۔یہ قتل عام اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے برصغیر کے دورے کے موقع پر کیا گیا تھا۔کافی سالوں بعد تحقیقاتی  ٹیم میں شامل  ایک ریٹائرڈ بھارتی  جنرل نے  انکشاف کیا کہ بھارتی  فوج اس قتل عام میں  براہ راست ملوث تھی  ۔  یہ رپورٹ ایل کے اڈوانی کو  بھی پیش کی گئی تھی جو اس وقت قومی جمہوری اتحاد کی حکومت میں وزیر داخلہ کے عہدے  پر فائز  تھے۔

چٹی سنگھ پورہ کے واقعات کے 5 روز بعد بھارتی فوج نے ضلع اننت ناگ کے گاؤں پاتھریبل میں 5 افراد کو موت کے گھاٹ اتا ردیا  ، اور دعویٰ کیا کہ ہلاک ہونے والے’’غیر ملکی عسکریت پسند‘‘ حملے کے ذمہ دار وں میں شامل تھے۔تاہم 19 مارچ 2012ء کو بھارت کی اپنی تحقیقاتی ایجنسی سی بی آئی نے سپریم کورٹ آف انڈیا کو بتایا کہ جموں و کشمیر کے  گاؤں پاتھریبل میں ہونے والا  مقابلہ’  جعلی‘ تھا ۔جس کے بعد  سی بی آئی نے اس  واقعے میں ملوث اہلکار کو ملزم قرار دیتے ہوئے  سزا  دینے کا مطالبہ کیا۔قتل عام کے ان دو  واقعات کے  خلاف احتجاج کرنے والے بیرک پور میں8 افراد کا وحشیانہ قتل عام  کو جموں کشمیر میں بھارتی  ریاست کی ’’اسپانسرڈ دہشت گردی‘‘ کی  بدترین مثال  کے طورپر یادرکھا  جاتا ہے۔

25جنوری 1998ء کو گاؤں  وندھاماپر دہشت گردی کے سائے منڈلانے لگے ،جس کے بعد متعد پرُ  تشدد د واقعات کے   نتیجے میں 23ہندو ہلاک ہو گئے۔ظاہر ہے کہ رمضان المبارک  کے مقدس مہینے میں کیا  جانے والا  حملہ  بلاشبہ مکار بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے ترتیب دیا تھا۔ کشمیر میں رہ جانے والی ہندو برادری کو دہشت زدہ کرنے کے لیےاس وقت کے گورنر جگموہن پنڈت کی جانب سے جاری جدوجہد آزادی کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لیے ایک گہری سازش کے تحت پنڈتوں کو وادی سے باہر نکال دیا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ہلاکتوں کاطریقہ کار  ایک پرانی پلے بک کے  نقش کے طور پر موجود ہے جو نفرت پھیلا تے ہوئے برادریوں کے درمیان تفرقے کے بیج بو کر کشمیری معاشرے کو نچلی سطح پر مذہبی بنیادوں پر تقسیم کا خواہشمند ہے۔جبکہ بھارتی  معاشرے میں فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کرنے میں ماہر جماعت  بی جے پی  اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کشمیر میں بھی یہی مہارتیں استعمال کر رہی ہے۔نئی دہلی میں بھارتی  جنتاپارٹی کے اقتدار میں  آنے کے بعد سے اس  جماعت   کے رہنماؤں کی سیاسی گفتگو محض  ہندوتوا اور ہندو راشٹرا کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ اس پارٹی نے نہ صرف  بھارتی  سرزمین بلکہ کشمیر میں بھی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی کو  ہوا دی ہے۔

Advertisement

گزشتہ چند سالوں کے دوران مقبوضہ وادی میں کشمیری پنڈتوں کی ٹارگٹ کلنگ کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں ۔یہ بات طے شدہ ہے کہ ان ہلاکتوں میں ملوث حملہ آور نامعلوم ہیں، اس کے باوجود سری نگر اور نئی دہلی میں پولیس اور حکام نے پاکستان اور کشمیری آزادی پسندوں کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا ہے ۔ بی جے پی نے اپنی ڈس انفارمیشن مہم کا سہارا لیتے ہوئے اپنے تفرقہ انگیز ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے متاثرین کی تکالیف  اور حالت زار کو ہتھیار بنایا اور ان برادریوں کے درمیان پھوٹ ڈال دی جو صدیوں سے مکمل مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ زندگی  گذار رہے تھے ۔

واقعات پر گہری نظر رکھنے  سے مقبوضہ  وادی میں ماضی  میں پیش آنے والے  واقعات اور  رواں سال راجوری کے ایک سرحدی گاؤں میں پیش آنے والے واقعات کے درمیان کافی  حد  تک مماثلتیں دکھائی دیں گی ۔ان حملوں کے پیچھے محرکات کم و بیش ایک ہی ہیں۔ تاہم بھارت  کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اس مکروہ اقدام سے جو کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے وہ ہے نام نہاد گاؤں  کے دفاعی محافظوں یعنی آر ایس ایس اور بی جے پی  کے کارکنان کو  مسلح کرنے  کے لیے میدان تیار کیا

جائے۔ 7 جنوری 2023ء کو ضلعی انتظامیہ نے  ضلع  راجوری میں  مقیم اِن ’دفاعی محافظوں‘ میں ہتھیار تقسیم کیے، اس کے ساتھ ساتھ  ان ’گارڈز‘ کو سانبہ، کٹھوعہ اور راسی  جیسے اضلاع میں فعال  بھی  کردیا گیا ہے ۔مزید یہ کہ سینٹرل ریزرو پولیس فورس سے کہا گیا   ہے کہ وہ ان تمام  گاؤں کے دفاعی محافظوں کے لیے تربیتی ماڈیول  کے قیام کو یقینی بنائے ۔

ان’دفاعی محافظوں‘ کا ٹریک ریکارڈ اور انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں میں ان کا ملوث ہونا  بھارتی فوج، بی جے پی اور بنیادی طور پر  بھارتی  محافظ گروہوں کے درمیان ایک خطرناک  گٹھ جوڑ کو ظاہر  کرتا ہے جنہوں نے پسماندہ برادریوں خاص طور پر مسلمانوں کو فرقہ وارانہ طور پر حساس علاقوں میں نشانہ بنا کر  خطے میں دہشت گردی کو فروغ دیا ہے۔ بھارت کی وزارت داخلہ نے گذشتہ  سال ہی  جموں و کشمیر میں ولیج ڈیفنس گارڈ اسکیم 2022ء کی منظوری دے دی تھی، جسے  15 اگست 2022ء کو نافذ العمل کیا گیا تھا ۔

ولیج ڈیفنس کمیٹیوں کو بحال کرنے،انہیں  ہتھیاروں اور تربیت کی فراہمی کے اقدام سے جموں کے علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے ۔  اس کے علاوہ شہری  علاقے کو  مزید تنگ کرکے وہاں کے مسلمانوں کو طاقت سے  محروم  کیا  جاسکتا ہے۔اس بات کا بھی  امکان ہے کہ یہ خطہ تشدد کا ایک نیا  اسٹیج  بن جائے کیونکہ اس اقدام سے اُن بھارتی جنونیوں کو مزید تقویت ملے گی جو کھلے عام کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی  کا  مطالبہ کرتے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر  بہر حال نسل کشی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا اس معاملے کا موثراندز میں  نوٹس لے اور فیصلہ کن اقدامات  اٹھائے جائیں تاکہ بھارت کو کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق اور ان کے زندہ رہنے کے حق کی سنگین خلاف ورزیوں سے روکا جاسکے۔ جموں و کشمیر میں انسانی جانوں کا اندھا دھند اور ناقابل تلافی نقصان دور جدید کا سب سے بڑا المیہ ہے۔وقت آچکا ہےکہ دنیا بھر سے  بھرپور انداز میں  رد عمل سامنے آئیں  تاکہ اس مسئلے    کےجڑ  سے خاتمے کو   ممکن بنایا جاسکے۔

Advertisement

Advertisement

Next OPED