عندلیب عباسی

22nd Jan, 2023. 09:00 am

دو دنیاؤں کی کہانی

مصّنفہ ایک کالم نگار، مشیر، کوچ اور تجزیہ کار ہیں۔

ایک سابق وزیر اعظم اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے رہنما کو ایک ریلی کے دوران گولیاں ماری گئیں۔ ہجوم میں سے کم از کم 13 افراد گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔ فائرنگ کرنے والوں میں سے ایک کو پکڑنے کی کوشش میں ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ یہ سب کچھ 3 نومبر 2022 ء کو ہوا۔ تاہم، جن پر گولی چلائی گئی وہ ابھی تک ایف آئی آر درج کرانے سے قاصر ہیں۔

اب اس کے بعد کی بات کرتے ہیں، اس واقعے کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے جو پریس کانفرنس سے خطاب کیا وہ ٹی وی پر نہیں دکھایا گیا۔ لیکن گولی چلانے والے ملزم کے وکیل کی پریس کانفرنس پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر براہ راست دکھائی جاتی ہے۔ اس شخص نے سابق وزیراعظم پر گولی چلانے کا اعتراف کیا۔ حکومت نے اسے مذہبی جنونی قرار دیا۔ اس شخص کے پس منظر پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نشئی ہے۔ سرکاری میڈیا نے ایک نشئی، قاتل اور دروغ گو کی رائے کو لائیو ٹیلی ویژن پر نشر کرنے کی اجازت دے کر سہولت کار کا کام کیا۔ جب کہ اس کے متاثرین، جن میں ایک سرکردہ رہنما بھی شامل ہیں، کو سرکاری چینلز کی جانب سے آزادی اظہار کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ کیا اس پر میں مزید کچھ کہہ سکتی ہوں؟

یہ دو دنیاؤں کی کہانی ہے۔ پہلی دنیا چھوٹی ہے، اور خصوصی اور طاقتور اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہے۔ دوسری دنیا بہت بڑی اور وسیع ہونے کے باوجود بے اختیار ہے۔ یہ دنیائیں کئی ممالک میں موجود ہیں، لیکن ان کے اندر طاقت کی تقسیم کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ پاکستان میں خصوصی کلب انتہائی طاقتور ہو چکا ہے۔ اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو قانون بناتے ہیں، اس پر عمل کرتے ہیں، اسے نافذ کرتے ہیں، فیصلہ کرتے ہیں، اس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور مشورہ دیتے ہیں، اسے ڈھالتے ہیں، نیز وہ لوگ جو اسے استعمال کرتے ہیں۔ اس کلب کی رکنیت کا معیار سخت ہے اور اس پر پورا اترنا آسان نہیں۔ آپ کو اپنے عہدے، پیسے، یا روابط کی وجہ سے اعلیٰ اثر و رسوخ رکھنے والا شخص بننا ہوگا۔ رکنیت کے خواہاں افراد کو کلب کے اراکین کے مقصد اور مشن کو آگے بڑھانے کے لیے سرتسلیم خم کرنے، قوانین اور طریقہ ہائے کار کو تبدیل کرنے، لوگوں کو ختم کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔اس سے کلب کو پالیسی سازی، میڈیا، سول سوسائٹی، عدلیہ کو کنٹرول کرنے اور ایک قانونی ماحول بنانے میں سہولت میسر آتی ہے جو صرف کلب کے لیے مخصوص ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک، عالمی ماحول، علاقائی ترقی اور سیاسی فلسفے سے قطع نظر، اپنے آپ کو بار بار ایک ’’نازک موڑ‘‘ پر پاتا ہے۔ یہ ’’نازک موڑ‘‘ اقتدار کے لالچ، بدعنوانی کی سہولت کاری اور اقدار کی کمی کی وجہ سے آتا ہے۔

Advertisement

اقتدار کا لالچ۔ قانون کو حکمرانی کرنے دو۔ اس جملے میں دہرایا جانے والا لفظ ‘ حکمرانی’ ہے۔ حکمرانی اور اختیار کی خواہش انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ بہت سے انسان سب پر غالب ہونے کی بنیادی جبلت ہی کے تحت اپنے راستوں کا تعین کرتے ہیں۔ غالب ہونے کے لیے انہیں غیر معمولی رقم، طاقت اور رسائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان سب کا مجموعہ ہی ہے جو ایک عام سے کلرک کو رئیل اسٹیٹ کا بادشاہ، اور ایک سیاستدان کے گمنام کزن کو وزیر بنا دیتا ہے۔ چنانچہ اس تناظر میں طاقت دراصل ایک لت ہے۔ کسی چیز کی خواہش کرنا اور اس کی تکمیل کرنا، ایک میگا ڈیل پر دستخط کرنے کی خواہش، پالیسی سازی کے اعلیٰ ترین ایوانوں تک رسائی، یہ سب وہ لالچ ہیں جو بہت سے مردوں اور عورتوں کے ذہنوں پر قابض ہیں۔ ہم اس وقت ان میں سے بہت سی خواہشات کی کارفرمائی دیکھ رہے ہیں۔ پچھلے ایک سال میں قانون سازوں کے ووٹوں کی خرید و فروخت پر خرچ ہونے والی رقم حیران کن ہے۔

دیگر تمام علتوں کی طرح طاقت اور اختیار کا حصول بھی ایک نہ مٹنے والی خواہش ہوتی ہے۔ پانامہ لیکس طاقت و اختیار کے ان تاجروں کے لالچ کی علامت تھی۔ ان کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ اسے چھپانے کے لیے انہیں آف شور اکاؤنٹس کی ضرورت تھی۔ لیکس میں موجودہ وزیراعظم کے خاندان یعنی شریف خاندان کے ارکان کے نام بھی سامنے آئے۔ اسی طرح سابق صدر آصف زرداری نے بدنام زمانہ ایس جی ایس اور کوٹیکنا کیسز کے بعد ‘ مسٹر 10 پرسنٹ’ کے طور پر نام کمایا۔ ان کے نزدیک لفظ ’’حکمرانی‘‘ کا مطلب ہے بدعنوانی کے ارتکاب میں آسانی پیدا کرنا، احتسابی قوانین میں ترمیم کرنا، اور دوسرے کے لیے بھی توسیع کی مراعات اور فوائد سے لطف اندوز ہونے کے لیے قانون سازی کرنا۔

کرپشن میں سہولت کاری ایک اور مسئلہ ہے۔ کبوتر چوری کرتے ہوئے پکڑے جانے والے شخص کو تین سال قید کی سزا کا سنایا جانا کوئی خبر نہیں ہے ۔ تاہم پولیس کی چوکسی اور چھوٹے چوروں کو پکڑنے کا جوش خبر ہے۔ اس کی وجیہ ہے کہ جو چور سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں وہ اپنے ساتھیوں کے معاون نیٹ ورک کی وجہ سے قانون سے بچ جاتے ہیں۔ تصور کریں کہ ایک وزیر خزانہ اس وقت ملک سے فرار ہو گیا جب اس کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کے مقدمات درج تھے۔ وہ برطانیہ میں تھا، اور طبی چھٹی پر چار سال تک سینیٹ سے غیر حاضر رہا۔ قانون مفرور شخص کو ایوان بالا کے ایک اجلاس میں شرکت کے بغیر سینیٹر بننے کی اجازت دیتا ہے۔ قانون سازوں کی جانب سے احتساب کے قوانین میں ترمیم کے بعد ہی وہ وطن واپس آئے۔ انہیں ان کے اثاثوں تک رسائی فراہم کی گئی، جو پہلے منجمد کر دیے گئے تھے، جبکہ ان کی سینیٹ کی نشست کی تنخواہ اور مراعات بھی بحال کر دی گئیں۔ دو دنیاؤں کا  مظہر ہر جگہ نظر آتا ہے۔

عوام کو بنیادی ضروریات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ آٹے کی قیمتیں دگنی ہوگئی ہیں۔ حکومت نے درآمدات کے لیے ایل سی کھولنے کی اجازت نہ دے کر ڈالر محفوظ کرنے کا حکم دیا ہے۔ درآمدات پر پابندی کے باعث مارکیٹ میں جان بچانے والی ادویات کی شدید قلت ہے۔ لیکن حکومت نے لگژری بی ایم ڈبلیو کاریں درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے جس کے لیے بڑی مقدار میں ڈالر درکار ہوں گے۔

معاشرے میں ہمیشہ دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں، وہ لوگ جو قوانین کو توڑتے ہیں اور وہ جو ان پر عمل کرتے ہیں۔ ان کی موجودگی کا تناسب اہمیت رکھتا ہے۔ اصول توڑنے والے زیادہ ہوں تو حالات خطرناک ہو جاتے ہیں۔ ‘جس کی لاٹھی اس کی بھینس’ محاورہ انسانی اقدار اور ان آفاقی اصولوں کا مذاق اڑاتا ہے جن پر ایک معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ اس ملک کو ایسے رول ماڈلز کی ضرورت ہے جن کی عوام پیروی کر سکیں۔

یہاں ٹیکس سے بچنے کا طریقہ سکھانے والے ماہرین کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے جو آپ کو یہ بتائیں کہ ٹیکس کیسے ادا کیا جائے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کی برائے نام تعدد ہی ٹیکس ادا کرتی ہے۔ جو لوگ زیادہ تر ادائیگی نہیں کرتے انہیں ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کی شکل میں مراعات دی جاتی ہیں۔ اگر ٹیکس نہ دینے والے کو سزا کے بجائے انعام دیا جا رہا ہو تو ایماندار آدمی ٹیکس کیوں ادا کرے؟ اس سے عدم اعتماد، عدم احتساب اور نتیجتاً عدم ترقی کا کلچر پیدا ہوا ہے۔ اصولوں، نظم و ضبط اور قوانین کی خلاف ورزی کے لیے رواداری اور برداشت بڑھنے سے امن، ہنر اور اختراع کے لیے عدم برداشت بھی بڑھے گی۔ مساوی احتساب سے عاری ملک بدمعاشوں کے لیے لوٹ مار کرکے آسانی سے فرار ہوجانے کا میدان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔

Advertisement

حکومت میں صرف ناموں کی تبدیلی سے کچھ حل نہیں ہوگا۔ واحد حل یہ ہے کہ ایسے قوانین ہوں جو طاقتور ترین سے زیادہ طاقتور ہوں۔ ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو افراد سے بالاتر ہو، جہاں طاقتور اور بے اختیار دونوں کے ساتھ ایک ہی قانون اور نظام کے تحت سلوک کیا جائے۔

Advertisement

Next OPED