
فوری انتخابات
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حکمراں اتحاد قبل از وقت عام انتخابات پر رضامند ہونا تو دُور، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی انتخابات کرانے کے موڈ میں نہیں ہے۔ حکومتی قانون سازوں سے لے کر گورنروں اور پنجاب اور خیبرپختونخوا کے پولیس سربراہان تک تمام ریاستی عملہ اپنے آئینی فرائض کی نافرمانی پر آمادہ نظر آتا ہے۔ جبکہ گورنروں نے صوبائی انتخابات میں تاخیر کی وجہ معاشی خدشات بتائے ہیں، پولیس سربراہان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو بتایا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ اتّحاد کا کیا ہی نادر مظاہرہ ہے مگر بدترین وقت پر۔
آئین کے مطابق قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے جلد تحلیل ہونے کی صورت میں انتخابات 90 دن کے اندر کرانا ہوتے ہیں۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں آئین محض “کاغذ کا ٹکڑا ہے جسے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے” اس سے قطع نظر کہ ذمے دار کوئی بھی ہو۔ عجیب یا مضحکہ خیز طور پر مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے اس حد تک دعویٰ کیا ہے کہ آئین انتخابات کے انعقاد کے لیے 90 دن کی کوئی حد نہیں بتاتا۔ یہ شرمناک ڈراما کس لیے کیا جا رہا ہے؟ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مقبولیت سے انکار کے لیے۔
جو بات صورتحال کو مزید پریشان کن بناتی ہے وہ اُبھرتی دہشت گردی پر بحث کے لیے کُل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) کے انعقاد پر حکومت کا اصرار ہے۔ بلاشبہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ برسرِ اقتدار حکومتیں اے پی سی نہیں بلاتیں بلکہ پارلیمان میں اِن معاملات پر بات کرتی ہیں۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ حکومت مؤخرالذکر کا انتخاب کیوں نہیں کر سکتی۔ یہ حقیقت کہ پی ڈی ایم حکومت کو کُل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) بلانا پڑی، اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جس پارلیمان پر قابض ہے وہ غیر مؤثر ہے۔ اس سے مزید یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت ملک کو درپیش بڑی مشکلات سے نمٹنے کے لیے حکومت کو پی ٹی آئی کی ضرورت ہے۔ پھر اسے ہر وہ انتخاب کیوں آزمانا چاہیے جو پی ٹی آئی کے پاس ہے، چاہے وہ پارلیمان میں واپسی ہو یا قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ۔
اب سب کی نظریں الیکشن کمیشن پر ہیں۔ کم از کم ایک ادارے سے اپنے آئینی فرائض نبھانے کی توقع رکھنا تو جائز ہے۔ اس ملک کے لوگ تھک چکے ہیں اور حکمراں اشرافیہ کے ہتھکنڈوں اور ہوسِ اقتدار سے انتہائی حد تک تنگ آچکے ہیں جس کے لیے ہمیشہ آئین کا استحصال ہوتا آیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے انعقاد کے لیے اُسی عزم کا مظاہرہ کرنا چاہیے جو اس نے بالآخر سندھ اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے کیا تھا۔ صدر عارف علوی نے بھی اس ہفتے کے اوائل میں ای سی پی کو یاد دلایا کہ آئین میں وضع کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق انتخابات کا انعقاد اس کا فرض ہے۔ ای سی پی کے پاس اپنی ذمے داری سے پیچھے ہٹنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسے صوبائی انتخابات میں غیر آئینی تاخیر کے لیے غیرمعقول بہانے بنا کر حکومت کے لیے دوبارہ بد دیانتی نہیں کرنی چاہیے۔
اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ معاشی صورتحال اس وقت الگ الگ انتخابات کرانے کی اجازت نہیں دیتی تو وہ بیک وقت قبل از وقت انتخابات کیوں نہیں کراتی؟ وفاقی حکومت انتخابات کے انعقاد میں ای سی پی کے لیے خاطر خواہ فنڈنگ کو یقینی بنانے سے پہلوتہی نہیں کر سکتی۔ اسی طرح پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی سکیورٹی خدشات کا حوالہ دے کر اپنے آئینی فرائض سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ اِنہیں یقینی طور پر اِسی بات کی تنخواہ ملتی ہے کہ وہ تحفظ فراہم کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ انتخابات منصفانہ اور پُرامن طریقے سے منعقد ہوں۔
اس وقت حکومت کے لیے ایک ہی مشورہ ہے کہ اِس نے تحریک انصاف کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کے وقت جو عوامی جذبات بھڑکائے تھے اُن پہ نظر ڈالے۔ اگر وہ غلط تھا تو یہ بھی غلط ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس سب میں صرف جمہوریت ہی ہارے گی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اُسے ملک پر حکومت کرنے کا کوئی موقع ملتا دکھائی نہیں دیتا۔