عدم استحکام کی کوئی انتہا نہیں
لکھاری اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیوریٹی اسٹڈیز کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔
ملک کو استحکام کی ضرورت ہے۔ اسے معاشی استحکام، سیاسی استحکام، سماجی استحکام، درحقیقت ہر قسم کے استحکام کی ضرورت ہے۔ تاہم تمام اسٹیک ہولڈرز ملک کو غیر مستحکم کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
کیا آپ کسی ایسے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو جانتے ہیں جو موجودہ حالات میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں؟ میں نہیں، یا شاید میں دیکھ نہیں سکتا کہ کوئی بھی اسٹیک ہولڈر ایسا کردار ادا کرتا ہے جس سے ملک میں استحکام آئے۔ سب ہی حقیقی مسائل سے نظر چرانے میں مصروف ہیں۔ حکومت کو استحکام لانے میں قائدانہ کردار ادا کرنا تھا۔ بدقسمتی سے، یہ صرف دو کاموں میں مصروف ہے؛ پہلا اپنے خلاف کرپشن کیسز کو ختم کرنا اور دوسرا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو نشانہ بنانا۔
ایک طرف حکومتی وزراء عمران خان پر متنازع بیانات کے ذریعے معاشی بے یقینی پیدا کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ دوسری طرف حکومت عمران اور ان کی پارٹی کے لیے زمین تنگ کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ حکومت کا بڑا دل ہونا چاہیے، اور اسے چاہیے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین سے رجوع کرے اور ملک کی معاشی بحالی کے لیے ان سے رابطہ کرے۔ کہاں ہیں وہ قد آور جو دعویٰ کرتے تھے کہ ’ہم ملک بچانے کے لیے اپنی سیاست قربان کر دیں گے‘؟ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ عمران خان سے رابطہ کرنا آپ کی کوششوں کا حصہ ہونا چاہیے؟ بدعنوانی کے مقدمات کے ذریعے انہیں سیاست سے نکالنے کی کوشش سے کسی کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔
میاں نواز شریف کو 2017ء میں ناقص بنیادوں پر نااہل کیا گیا، کیا آپ انہیں سیاست سے نکال سکتے ہیں؟ نہیں، اگر آپ عمران خان کو سیاست سے نہیں نکال سکتے اور نہ ہی نکالیں گے تو اس پر اپنی تمام تر توانائیاں کیوں ضائع کریں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ دراصل ملک کو برباد کر رہے ہیں۔ آپ لاکھوں نوجوانوں کو پریشان کر رہے ہیں۔ آپ کسی بھی نظام پر ملک کے شہریوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔ مختلف سطحوں پر جس طرح سے جوڑ توڑ کی جا رہی ہے وہ ملک کے خلاف مجرمانہ سرگرمیوں کے ارتکاب سے کم نہیں۔
الیکشن کمیشن نے حال ہی میں کچھ ناقابل یقین کام کیے ہیں۔ پی ٹی آئی کے تمام تر الزامات کے باوجود اس نے کئی جگہوں پر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے۔ کراچی اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے علاوہ ای سی پی کی کارکردگی شاندار رہی۔ تاہم اب اس پر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کا آئینی فریم ورک کے اندر اندر اپنا آئینی کردار ادا کرنے کے لیے پوشیدہ دباؤ دکھائی دے رہا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے پاس موقع ہے کہ وہ یا تو تاریخ میں اپنا نام ملک کے نجات دہندہ کے طور پر لکھیں یا طاقت ور حلقوں کے کہنے پر آئین کی خلاف ورزی کرنے والے کمزور شخص کے طور پر یاد رکھیں۔ تاریخ کسی کو نہیں بخشتی۔ اس وقت الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ آف پاکستان ہی ایسے دو ادارے ہیں جو آئین اور ملک کی حفاظت کر سکتے ہیں۔
آئین کی پاسداری ہی استحکام کا ذریعہ ہے۔ اگر وفاقی حکومت یا کوئی اور یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ایک سال میں دو عام انتخابات کا متحمل نہیں ہو سکتا تو اس کا حل سیدھا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف قومی اسمبلی تحلیل کر دیں تو ملک میں ایک ہی وقت میں عام انتخابات ہو سکتے ہیں۔ اپنی سیاست کی قیمت پر ملک کو بچانے کا یہ صحیح وقت ہے۔ ایسا کریں، اور آپ کا دعویٰ جائز ہو جائے گا۔ ورنہ سب جانتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی حکمرانی کو طول دینے کی موجودہ کوششیں قومی مفاد کی قیمت پر ’سیاست‘ بچانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ میں ابھی تک یہ نہیں جان سکتا کہ پی ڈی ایم کو کون سا معجزہ ہونے کی امید ہے جس سے عمران خان کی آسمان چھوتی مقبولیت جلد ختم ہو جائے گی۔
اگر پی ڈی ایم اور تمام بااثر گروپوں کا خیال ہے کہ عمران کو برطرف کرنے سے ان کی پارٹی ٹوٹ جائے گی یا اسے کوئی نقصان پہنچے گا، تو انہیں عوامی رائے کے بارے میں اپنے تاثرات پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران انتخابی سیاست میں ہوں یا نہ ہوں، وہ جب تک زندہ ہیں پی ٹی آئی میں فیصلے کرنے والے انسان رہیں گے۔ لہٰذا، کسی نہ کسی عدالتی مقدمے کے ذریعے انہیں ’باہر کرنے‘ کے لیے اپنی توانائیاں، وقت اور وسائل ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
عمران خان کو بھی اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ سب سے ٹکرانے کی ان کی پالیسی نہ تو ان کی پارٹی کی کوئی مدد کر رہی ہے اور نہ ہی ملک کی۔ انہوں نے ایک کے بعد ایک غلطی کا ارتکاب کیا اور ان کی بہت سی پالیسیاں خود کو نقصان پہنچانے والی ہیں۔ قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینا ان کا بدترین سیاسی اقدام تھا جس نے ان کی پارٹی کو کئی اہم عہدوں سے محروم کر دیا۔ پھر قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے انتخاب کا بائیکاٹ کرنے سے پی ٹی آئی کے تمام 20 ناراض ایم این ایز کو اپنی نشستیں برقرار رکھنے میں مدد ملی۔ اگر شاہ محمود قریشی وزیر اعظم کے انتخاب کا بائیکاٹ نہ کرتے تو اختلاف کرنے والے اپنی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہ دینے پر نااہل ہو سکتے تھے۔ نگراں وزیراعظم کا تقرر اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے ہوتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اب شہباز شریف راجہ ریاض سے مشورہ کریں گے، جنہیں پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی سے انحراف کے بدلے میں مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ راجہ ریاض صرف عمران خان کے غلط فیصلے کی وجہ سے قائد کے عہدے پر فائز ہیں۔
یہ جاننے کے باوجود کہ پاکستان میں نظام کو کس طرح تبدیل کیا جاتا ہے، عمران نے نتائج کو سمجھے بغیر اپنی پارٹی کی دو صوبائی حکومتیں ختم کر دیں۔ اب وہ سمجھ گئے ہوں گے کہ چودھری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی مخالفت میں درست تھے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ عمران خان کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہے۔ امید کی جا سکتی تھی کہ عمران اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے لیکن ابھی تک انہوں نے ایسا کوئی ارادہ نہیں دکھایا۔ ’جیل بھرو‘ تحریک اپنے پاؤں میں کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ پی ٹی آئی کے زیادہ تر سپورٹرز کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ وہ بمشکل گزر بسر کر رہے ہیں۔ جب یہ واضح ہے کہ اس سے پی ٹی آئی کے لیے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا تو جیل کیسے جا سکتے ہے؟
میں حیران ہوں کہ عمران کے سیاسی مشیر کون ہیں؟ پرویز خٹک، پرویز الٰہی اور شاہ محمود قریشی جیسے تجربہ کار سیاستدانوں کی موجودگی میں وہ سیاسی غلطیوں کا ارتکاب کیوں کر رہے ہیں؟ اور ان کے مشیر کون ہیں؟ انہیں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف طریقہ کار اور عوامی ناراضگی میں کمی کی اجازت نہیں دے رہے؟ یہ سیاست ہے، اور آپ کو اس کھیل میں ٹیسٹ میچ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ٹی ٹوئنٹی ذہنیت کے ساتھ مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکتے۔ عمران خان کو یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ملکی فوج اور انٹیلی جنس اداروں کو بدنام کر کے وہ تباہی کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ انہیں باپ جیسی شخصیت کے طور پر آگے آنا چاہئے تھا اور نوجوانوں کے جذبات کو مثبت سمت کی طرف لے جانا چاہیے تھا۔ تاہم، جیسا کہ میں نے کہا، کوئی بھی اسٹیک ہولڈر ملک کو بحران سے نکالنے میں مدد کے لیے ان آزمائشی اوقات میں مثبت کردار ادا نہیں کر رہا۔






