شور شرابا اور اِشتعال کوئی اشارہ نہیں دیتے
سیاست دان آخری دم تک لڑ سکتے ہیں مگر بالآخر صرف طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ ہی اس سیاسی بحران کو ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن عنصر کے طور پر کام کر سکتی ہے
’’اتفاقِ رائے: تمام عقائد، اُصولوں، اقدار اور پالیسیوں کو ترک کرنے کا عمل ہے کسی ایسی چیز کی تلاش میں جس پر کوئی یقین نہ کرے، مگر جس پر کوئی اعتراض بھی نہ کرے۔ اُن اہم مسائل سے بچنے کا عمل ہے جنہیں محض اس وجہ سے حل کیا جانا ہو کہ آپ آگے کے لیے اتفاق نہیں کر سکتے۔ کون سے عظیم مقصد کے لیے اتفاقِ رائے سے لڑا اور جیتا جاتا ہے کہ میں اِس کے لیے کھڑی ہوں؟‘‘
سابق برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر
پاکستانی سیاست میں ’’قومی اتفاقِ رائے‘‘ کے حصول کی کبھی نہ ختم ہونے والی کوشش حد سے زیادہ کھیلا اور انتہائی غلط طور پر استعمال کیا جانے والا حربہ ہے۔ اچھے بُرے تمام ہی سیاستدان اِس پاک سرزمین کو تباہ کرتی تمام برائیوں کے واحد حل اور علاج کے طور پر اس حربے پر زور دیتے آئے ہیں۔ 10 ماہ قبل شہباز شریف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان جس غیرمثالی معاشی و سیاسی بحران کا شکار ہے، اس نے حریف سیاسی قوتوں کے مابین قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ضرورت کو جنم دیا ہے اور اِس کے لیے روزانہ پُرجوش اور پُرعجلت مطالبات کیے جاتے ہیں۔
شام کے ٹاک شوز میں مرد یا خاتون میزبان اکثر سادہ لوحی سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے سیاستدان آپس میں جھگڑا کیوں نہیں چھوڑتے اور ملک کی سیاسی اور معاشی خرابی کو دور کرنے کے لیے کیوں نہیں مل بیٹھتے۔ جس کے جواب میں ہمارے معروف تجزیہ کار اور اکثر متحارب سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی، پاکستان کی بے شمار مشکلات سے لڑنے کے لیے اخلاقیات کا سہارا لیتے ہوئے فوری طور پر ایک خیالی قومی اتفاقِ رائے کی زبانی کلامی حمایت کرتے ہیں۔ پروگرام کے منتظمین اور تجزیہ کار درحقیقت اپنے مطالبے کے قابلِ عمل ہونے پر یقین رکھتے ہیں لیکن عملی سیاست میں اتفاقِ رائے عام طور پر ایک خراب سمجھوتے کا نتیجہ ہوتا ہے جو اکثر موقع پرستی کا شکار اور کمزور فیصلوں کا باعث بنتا ہے۔
سیاستدانوں کے مابین اتفاقِ رائے کی کمی پر افسوس کرنے اور اپنی ذات کے گرد گھومتی خود غرض سیاست پر تنقید کرنے کی بجائے، آئیے بنیادی سوال پوچھتے ہیں: کیا قومی اہمیت کے مسائل پر کسی عظیم الشان معاہدے یا سمجھوتے کی خواہش بھی معروضی ہے ؟ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ کسی بھی ترقی پذیر ملک میں جہاں جمہوری ادارے ناقص اور کمزور ہوں، اور جہاں جمہوریت کے نام پر اشرافیہ کا قبضہ ہو، یہ ظالموں اور مظلوموں، جابروں اور مجبوروں اور لٹیروں اور لُوٹے جانے والوں کے درمیان اتفاقِ رائے کے مطالبے کے مُترادف ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ جمہوریتیں جو اب معاملات کے متعین اُصولوں کے مطابق کام کرتی ہیں، انقلابات، تنازعات اور خانہ جنگی کے طویل ادوار سے گزرنے کے بعد اس مرحلے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔ پاکستان جیسے ممالک جہاں جاگیرداری اور قبائلیت اب بھی موجود ہے اور اشرافیہ کا قبضہ برقرار ہے، کو ابھی تک اِس تکلیف دہ ارتقائی عمل سے گزرنا ہے جب تک کہ ایک فریق فیصلہ کن طور پر جیت نہیں جاتا۔ اور بھیانک حقیقت یہ ہے کہ عوام نواز جمہوریت کا قیام ملک کے بڑے سیاسی شراکت داروں کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں کیونکہ وہ ابھی تک پہلے بنیادی دور سے گزر رہے ہیں جس میں خود کو شکست دینے والی خاندانی سیاست اور بدعنوانی سے نجات عوامی بحث کی دو اہم باتیں ہیں۔
پاکستان میں ایک طرف خاندانی سیاست دان اپنے خاندانی مفادات اور سیاست کو اُلٹے سیدھے ہھتکنڈوں کے ذریعے برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، 13 روایتی سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاقِ رائے نے احتساب کے عمل کو مؤثر طور پر بے عمل کر دیا ہے اور اب وہ کسی بھی قیمت پر عام انتخابات سے بچنا چاہتے ہیں، یہاں تک کہ اُن دو صوبوں میں بھی جہاں اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں۔ اور اِس مقصد کے حصول کے لیے یہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنی جانب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان کی زیرقیادت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ہے جو انتخابی حلقوں میں نہیں تو قومی سطح پر خاندانی سیاست کو چیلنج کر رہی ہے اور کرپشن مخالف بیانیے کی پرچم بردار بن چکی ہے۔ تاہم پی ٹی آئی بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد چاہتی ہے۔
شہباز شریف حکومت کے نمائندوں کے لیے موجودہ سیاسی دائرہ کار میں دہشت گردی سے لڑنے سے لے کر انتخابی اصلاحات متعارف کرانے تک کے کسی بھی معاملے پر اتفاقِ رائے سب سے پہلے اُن کی ذمے داری کے اعتراف پر مبنی ہونا چاہیے۔ حزبِ اختلاف پی ٹی آئی کے لیے معاملے کا پہلا نکتہ جنگی بنیادوں پر نئے عام انتخابات کے مطالبے سے دستبرداری ہوگا۔ اور ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں مؤقف کے مابین کوئی درمیانی راہ نہیں کیونکہ یہ ملک کے بنیادی تضادات میں سے ایک کو اجاگر کرتے ہیں کہ کیا بدعنوانوں کو کلین چٹ دے کر اُن کی ماضی اور حال کی بدعنوانیوں کو معاف کرکے بھول جانا چاہیے یا ان کا احتساب کرنا چاہیے؟
سابق وزیراعظم عمران خان کو سلام کہ وہ اب تک اُن سیاستدانوں سے ہاتھ ملانے سے بھی انکار کرتے آئے ہیں جنہیں وہ بدعنوان اور بے ایمان سمجھتے ہیں۔ بہت سے لوگ اِسے عمران خان کی نادانی قرار دیتے ہیں اور اُن کے اقتدار کے دنوں سے ہی مسلسل اُن پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ شریف اور زرداری خاندانوں سے کشیدگی کو کم کریں یا با الفاظِ دیگر انہی سیاستدانوں سے اتفاقِ رائے کریں جن کے خلاف اُنہوں نے اپنی سیاست شروع کی تھی۔ مگر وہ اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ تاہم عمران خان کے بہت سے ناقدین بطور چیئرمین پی ٹی آئی اُن کے تضاد کی بجا طور پر نشاندہی کرتے ہیں کیونکہ سیاسی حریفوں کے حوالے سے اپنے سخت مؤقف کے باوجود اُنہوں نے اپنی جماعت کی صفوں میں متعدد ایسے چہروں کو داخل ہونے اور پھلنے پھولنے کی اجازت دی ہے۔ بہرحال بڑے پیمانے پر عمران خان کی حمایت کرنے والوں کے لیے اِس مؤقف کی جزوی ناکامی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ وجہ: عمران خان کو بحیثیتِ فرد ایماندار، مخلص اور نیک نیت رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور شہباز شریف حکومت اور اس کے حمایتیوں کے 24/7 پراپیگنڈے کے باوجود پاکستانیوں کے لیے اُن کی شبیہہ پاکستانی سیاست کے “شفاف شخص” کی ہے جو بدستور بے داغ ہے۔
ملک کے کرپشن زدہ سیاست دانوں کے بارے میں عمران خان کا سمجھوتہ نہ کرنے والا مؤقف کبھی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا بھی ہوا کرتا تھا۔ بدقسمتی سے جہاں تک عوامی تاثرات کا تعلق ہے، اسٹیبلشمنٹ کو اب اِنہی بدعنوان خاندانوں کی اتحادی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جنہیں کبھی اِس نے ٹھینگا دکھایا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کو اس عوامی تاثر کو زائل کرنے کے لیے تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے جو اس کی شبیہہ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
جب سے بدعنوانی سے داغدار سیاستدانوں اور ان کے خاندانوں کی سیاسی قسمت بحال ہوئی ہے اور ان سب کو بدعنوانی کے سیدھے سیدھے مقدمات سے بھی بری کر دیا گیا ہے، پاکستان میں ہر سطح پر جانبداری اور محاذ آرائی شدت اختیار کر گئی ہے۔ جس طرح سے بدعنوان سیاستدانوں کو دوبارہ اقتدار میں لایا گیا ہے اِس پر بہت سے پاکستانی ناراض اور مُشتعل ہیں، ریاست اور اس کے اداروں پر اعتماد کھو چکے ہیں۔ ادارے خود جانبدار اور مُنقسم نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے آئین کو بہت سے معاملات میں غیر مؤثر بنا دیا گیا ہے، جس میں کچھ بنیادی افعال کو یقینی بنانا بھی شامل ہے۔ آئین کے مطابق دو صوبوں میں انتخابات کے اعلان کا تنازع اِس بات کی ایک روشن مثال ہے کہ معاملات کس طرح بکھر رہے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ آزاد اور آئینی خطوط پر عمل کرنے کے باعث خود حکومت اور ریاستی اداروں کے حملے کی زد میں ہے۔ قومی اسمبلی نامکمل ہے اور وہاں بھی سپریم کورٹ کو پی ٹی آئی کے ایم این اے کے استعفے قبول کرنے کے بارے میں اسپیکر کے متنازع فیصلے کو رد کرنے کے لیے مداخلت کرنا پڑی جو پارلیمان میں واپس آنا چاہتے تھے۔ یہ واقعی ایک حکومتی خرابی ہے جسے قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی اپیلوں کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ اِس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں ہی آخری دم تک لڑنے کے لیے پُرعزم دکھائی دیتے ہیں، چاہے نتیجہ کچھ بھی ہو اور خواہ ملک داؤ پہ لگ جائے۔
اِن حالات میں اتفاقِ رائے کی خواہش سیاسی طور پر درست ہو سکتی ہے لیکن یہ ایک خواب ہے۔ تو پھر بڑا سوال یہ ہے کہ: اس منظر نامے کو دیکھتے ہوئے حل کیا ہے؟ ایک فریق کو فیصلہ کن طور پر جیتنا چاہیے۔ اگر پی ڈی ایم جیت جاتی ہے تو اس کا مطلب وہی پرانا خاندانی سیاست کا تسلسل، وہی پرانی بدعنوانی اور وہی پرانا پاکستان جو 21 ویں صدی کی دنیا سے مطابقت نہیں رکھتے۔ عمران خان اور اُن کے سیاسی برانڈ کی فتح بھی کوئی مثالی حل نہیں مگر بہت سے پاکستانیوں کے لیے یہ ایک قدم آگے کی جانب ہوگا جس سے عوام کی حامی اصلاحات، زیادہ سیاسی استحکام اور حقیقی معاشی بحالی کی کوششوں پر زیادہ زور آئے گا۔ پاکستانیوں کو اب بھی بہت مشکل وقت سے گزرنا پڑے گا لیکن کم از کم کچھ امید تو ہوگی۔ تاہم جاری سیاسی کشمکش کا نتیجہ کچھ بھی ہو، بنیادی طور پر اہم نکتہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ظاہری یا خفیہ آشیرباد سے ہی طے ہوگا۔ کیا اسٹیبلشمنٹ وہی پرانے معاملات طے کرے گی یا تبدیلی کو موقع دے گی؟
مصنف کا تعارف: مصنف بول میڈیا گروپ کے ایڈیٹر انچیف ہیں۔